حارث نے شاہد آٖفریدی کو آئوٹ کیا ، اس کا تعلق کرکٹ سے ہے لیکن آئوٹ کرنے کے بعد حارث نے جس رویے کا مظاہرہ کیا اُس کا تعلق حفظ مراتب اور تہذیب نفس سے ہے۔کرکٹ تو ہر طرف زیر بحث ہے سوال یہ ہے کیا حفظ مراتب کے باب میں ہم حارث سے کچھ سیکھ سکتے ہیں؟تحریک انصاف کے وابستگان تو معیشت کے مسائل بھی کرکٹ کی زبان میں سلجھا رہے ہوتے ہیں، کیا وہ غور کریں گے کامیابی کے ساتھ تہذیب نفس کی دولت بھی میسر آ جائے تو آدمی کیسے سرخرو ہو جاتا ہے؟ وکٹیں تو سب ہی اڑاتے ہیں۔حارث نے کون سا نیا کام کر دیا۔ آفریدی کی وکٹ تو ویسے ہی خزاں کا پتہ ہے ، عروج میں بھی لوگ دل تھام کر بیٹھتے تھے کہ جانے کب اڑ جائے۔ریٹائر منٹ کے بعد عمر کے اس حصے میں، جب بہار رخصت ہو چکی، آفریدی کو بولڈ کر لینا کون سی دلاوری ہے؟ اٹھتی جوانیوں میں ایک فاسٹ بائولر نے ڈھلتی عمر کے بلے باز کو آئوٹ کر لیا تو کون سارستم بن گیا؟معمول ہی کی تو بات ہے۔پھر کیا وجہ ہے ہر سُو حارث حارث ہو رہی ہے؟ یہ حارث کی کامیابی کا قصیدہ نہیں ہے۔یہ تعریف اس کی بائولنگ کی نہیں اس کے رویے کی ہو رہی ہے۔ ہار کا غم اور جیت کی خوشی سب عارضی ہے۔ یہ رویے ہیں جو وجود میں پیوست ہو جاتے ہیں اور بھلائے نہیں بھولتے۔کل حارث نے شدت جذبات کو تھام لیا اورفاسٹ بائولر کی وحشت پر حفظ مراتب کو ترجیح دی تو یادوں کا دریچہ سا کھل گیا۔ سب نے شاہین آفریدی کو یاد کیا ۔ ذرا سوچیے کہ کیوں یاد کیا؟ اس لیے یاد نہیں کیا کہ شاہین آفریدی نے میدان میں کوئی کشتوں کے پشتے لگا دیے تھے۔دیوار دل سے یہ یاد اس لیے آن لپٹی کہ شاہین آفریدی نے بھی اسی طرح شاہد آفریدی کو آئوٹ کیا تھا اور پھر حفظ مراتب میں اپنے جذبات کو تھام لیا تھا۔ فاسٹ بائولرز کی یہ ریت رہی ہے وہ وکٹ لیتے ہیں تو پہاڑی بکرے کی طرح ڈکراتے ہیں ، مینڈھے کی طرح تن کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور تند خو گھوڑے کی طرح سم زمین پر مارتے ہیں۔ یہ سب گوارا کیا جاتا ہے ۔لیکن عین اس وقت جب فاسٹ بائولر وکٹ لے کر پہاڑی بکرے ، مینڈھے یا تند خو گھوڑے جیسی حرکتیں کر رہا ہوتا ہے کچھ کھلاڑی محض مسکرا رہے ہوتے ہیں۔ ایسا آج تک نہیں ہوا کہ پوری کی پوری ٹیم پہاڑی بکرے کی طرح ڈکرانا شروع کر دے یا منہ زور گھوڑے کی طرح سموں سے زمین ادھیڑنا شروع کر دے۔ساری ٹیم ہی اگر فاسٹ بائولرز پر مشتمل ہو تو جیت اس کا مقدر نہیں بن سکتی۔چیختا چنگھارٹا کہنی مارتا ایک فاسٹ بائولر ہو تو ٹیم کا بانکا قرار پاتا ہے ، ساری ٹیم ہی یہی کام کرنے لگ جائے تو گرائونڈ میں صرف اودھم مچ سکتا ہے ، میچ نہیں ہو سکتا۔ فاسٹ بائولرز کا یہ رویہ بھی اس وقت گوارا ہو تا ہے جب وہ کامیابی سمیٹ چکا ہو۔ لیکن فرض کریں فاسٹ بائولر کو نہ وکٹ مل رہی ہو نہ لائن اینڈ لینتھ پر قابو ہو، کوئی بال وائڈ پھینک رہا ہو تو کوئی نو بال قرار دی جا رہی ہو، کسی پر چھکا لگ رہا ہو اور کسی پر چوکا لیکن اوور ختم ہو تو بائولر نادم یا پریشان ہونے کی بجائے پہاڑی بکرے کی طرح ڈکارنا شروع کر دے ، مینڈھے کی طرح تن کر کھڑا ہو جائے یا تند خو گھوڑے کی طرح سُموں سے زمین ادھیڑ دے اور اس کام میں وہ اکیلا نہ رہے بلکہ پوری ٹیم اس کے ساتھ مل کر الٹی ہتھیلی منہ کر رکھ کر ’’ ببا ببا ببا ببا ‘‘ کرنا شروع کر دے تو کیا ہو گا؟ آپ کے خیال میں کیا تماشائی اس سے لطف اندوز ہوں گے اور کیا کمنٹیٹر اس رویے کو پسند کرتے ہوئے اس کے قصیدے پڑھیں گے؟ یقینا سب ہی اس رویے سے بد مزہ ہوں گے۔ سبھی کہیں گے کہ پہلے کچھ کر کے تو دکھائو اس کے بعد نخرے کرتے اچھے بھی لگو گے۔ سیدھی گیند تم سے پھینکی نہیں جا رہی، لائن ہے نہ لینتھ ، چھکے پہ چھکا کھائے جا رہے ہو اور اکڑ ایسے رہے ہو جیسے دس وکٹوں سے جیت چکے ہو۔تماشائی اور مبصر سب مل کر داد و تحسین کے کلمات بلند نہیں کریں گے، وہ توبہ اور الامان پکار اٹھیں گے۔ہو سکتا ہے سٹیڈیم ہی خالی ہو جائے اور لوگ اٹھ کر گھروں کو چل دیں۔ ایسے میں ٹیم کا کپتان کیا یہ کہے گا کہ سارے تماشائی اور کمنٹیٹر’’ لفافے‘‘ ہیں، یہ مخالف ٹیم سے مل چکے ہیں ، یہ بے ایمان اور چور ہیں ، یہ مفت میں میچ دیکھنے سٹیڈیم آ گئے ، انہیں بغیر ٹکٹ سٹیڈیم میں آ جانے کی عادت پڑی ہوئی ہے۔یہ داد دینے کے پیسے لیتے ہیں ۔ ہماری وائیڈ بال اور نو بال پر تنقید کر کے انہوں نے ثابت کر دیا ہے یہ پٹواری ہیں ۔ یہ اپنے بغض میں اندھے ہو چکے ہیں۔ اب ہم ان کا علاج کریں گے۔ اب ہم ان کا مفت داخلہ بند کرنے لگے ہیں۔ اب ٹکٹ کی قیمت دگنی ہو گی۔ ہم نے اب چھوڑنا کسی کو نہیں ہے۔کمنٹری کا کیا ہے ، ہماری سوشل میڈیا ٹیم باقی کے میچ کی کمنٹری خود ہی کر لے گی۔تالیاں بجانے والے بھی کل سے ہم اپنے ساتھ لائیں گے۔بس آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ کیا اس رویے سے کھیل کے اصول بدل جائیں گے؟ہر گز نہیں۔میدان اسی کے نام رہتا ہے جو حارث رئوف کی طرح کامیاب ہوکر بھی حفظ مراتب کو تھام لے۔اسے چھوٹے بڑے کے احترام کا خیال ہو۔وہ سرشاری کے عالم میں بھی خود کو تھام لے۔ اس کی شائستگی اس کے جنون پر غالب آ جائے۔عزت تحمل اور شائستگی میں ہے، بدکلامی اور تند مزاجی میں نہیں ۔میدان اسی کے نام رہتا ہے جو دل جیت لے۔ پہاڑی بکرے کی طرح ڈکارتے رہنے کا نام دلاوری نہیں ہے۔دلاوری وہ ہے جو حارث رئوف نے کر کے دکھایا۔ جیتے رہو حارث رئوف۔تم بڑے کھلاڑی ہی نہیں بڑے انسان بھی ہو۔بڑا کھلاڑی ہونا بڑی بات نہیں ، بڑا انسان ہونا بڑی بات ہے۔