مائوزے تنگ نے کہا تھا:سو طرح کے پھولوں کو اپنی بہار دکھانے دو‘سو طرح کے افکار کو مقابلہ کرنے دو‘ خوشبو وہی حاوی ہو گی جو بہتر ہے‘ رنگ وہی غالب آئے گا جو حقیقی ہے۔ حکمران اتحاد اوراپوزیشن دونوں عوام کے روبرو کھڑے ہیں۔ایک کا ماضی قریب گواہ۔ دوسرے کا حال عینی شاہد۔عوام کا فیصلہ سب کے سامنے ،پلڑا کس کا بھاری وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔یاد رکھیں!چمگاڈر کو سورج کی روشنی میں نظر نہیں آتا۔مگر عوام کا معاملہ دوسرا ۔ ڈالر کو پَر لگ چکے،اونچی اڑان سے قومی قرضوں میں اضافہ ،ایکسپورٹرز بھی پریشان۔ڈالر کی بڑھتی قیمت کو روکنا ناگزیر ہو چکا۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے،تو کئی ایکسپورٹرز اپنے کام سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ڈالر ایک روپیہ بڑھنے سے ایکسپورٹرز پر ہزاروں روپے کا بوجھ آتا ہے۔ ایکسپورٹرز کی برآمدات کا انحصار درآمدات پر ۔ اسے خام مال درآمد کرنے کے 90 دن بعد ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔15دن پہلے ڈالر تقریباً 182 روپے کا تھا،جو اب بڑھ کر 202روپے کا ہوچکا،جو مال 182 روپے کے حساب سے خریدا تھا،اس کی ادائیگی 202روپے کے حساب سے کرنا پڑ رہی ہے۔ عوام کی آنکھیں بند،نہ ہی وہ حالات حاضرہ سے ناواقف۔جانے والے چلے گئے ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلند و بانگ دعوے کر کے آنے والوں نے کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں۔ماضی اور حال کی غلط پالیسیوں نے روز مرہ کی ضروریات کے لئے غیروں کا محتاج بنا دیا۔ہماری سانس کی ڈوری آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی خوشنودی سے بندھی ہوئی ۔عالمی ساہو کاروں کے ایجنٹ مسلسل ہمارے کھاتوں کا جائزہ لے رہے۔بجٹ میں عوام پر کیا کیا بم گرانا ،سات سمندر پار ہماری تباہی کے مشورے ہو رہے۔ جہاں مراعات یافتہ طبقہ پہلے سے کہیں زیادہ آسودہ حال ہو جائے اور کروڑوں فاقہ مست صرف خوش رنگ بیانات کی رنگینی کاتماشا دیکھتے رہ جائیں ،اس ملک کو سری لنکا بننے سے نہیں روکا جا سکتا۔ غالب نے نہ جانے کن رفعتوں پہ کھڑے ہو کر کہا تھا: بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روزتماشا مرے آگے کون سے پاکستانی کا دل ہے ،جس میں وسوسوں ،وہموں،اور اندیشوں کا بسیرا نہیں،کس کے دماغ میں بے یقینیوں،ناامیدوں اور مایوسیوں نے خیمے نہیں گاڑھ رکھے۔حکومتی نا اہلی کی اس سے بدتر کیا مثال ہو گی کہ چار سُو آگ لگی ہوئی مگرحکمران ملک و قوم کے مسائل سے بے خبر ہیں۔ زمانہ بدلااتنی تیزی سے بدلا کہ سیاستدان ادراک ہی نہ کر سکے۔ وہ اب بھی 80ء کی دہائی میں زندہ ہیں۔ الیکشن کمیشن نے 25 منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کیا ۔اس پر ایک منحرف رکن نے کہا : شکر ہے عمران خاں کا یہ احسان بھی اتر گیا۔حالانکہ موصوف اگر کبھی سیاسی اکھاڑے میں اترے تو چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ماضی قریب میں (ن) لیگ کی ٹکٹ کے لیے وفاداریاںتبدیل ہوئی تھیں ۔مریم نواز نے تب کہا تھا: پیسہ نہیں (ن)لیگ کی ٹکٹ چلی ہے۔اب عمران خاں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ملتان کے جلسے نے کئی ریکارڈ توڑے۔ گوجرانوالہ میں بھی خلقِ خدا امڈ آئی تھی۔عمران خاں خطابت کے میدان کا تو شہسوار ہے۔آواز، اظہار ، تکنیک ،اسلوب ‘ سلاست‘ متانت‘ اشارات‘ ظرافت‘ تمثیلات ‘ استدلال اور انفرادیت میں وہ سب سیاستدانوں سے آگے۔البتہ ملتان کے بخاری ؒ کی بات الگ تھی۔قدرت نے اس کی زبان میں جادو رکھا تھا۔مولانا طارق جمیل بھی ماضی میں ایک جاودائی شخصیت تھے۔اب معاملہ دوسرا۔علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا: جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جْدا ہو دِیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی مولانا فضل الرحمن مذہبی نہیں سیاسی کھلاڑی ہیں۔اس لیے یہ میدان ان کا ہے۔افغان طالبان سیاسی نہیں ،جہادی تھے۔جو بھی پتھروں‘ گھاٹیوں‘ پہاڑوں پر مشتمل اس شکار گاہ میں داخل ہو،ا سلامت واپس نہ لوٹا۔ افغانی یا پاکستانی امریکہ سے نفرت کیوں کرتے ہیں۔اس کے پیچھے ڈرون حملے‘ بے گناہ افرادکا قتل اور امور داخلہ میں مداخلت ہے۔ محبتیں اور نفرتیں برسوں میں تشکیل پاتی ہیں۔ بے پناہ خوف کا آسیب بھی آسانی سے ان کے نقش نہیںمٹا سکتا ہے۔ جب کسی ملک کی اجتماعی سوچ‘قوت کے خوف میں مبتلا ہو جائے‘ فیصلوں پر قدرت رکھنے والے قائدین ہر قیمت پر کشمکش و پیکار سے گریز کی پالیسی پر چل نکلیں تو توانا جذبوں اور ناقابل تسخیر عزم کی مالک قوم بھی اندیشہ ہائے دور درازمیں مبتلا ہو کر بھوسے کا ڈھیر بن جاتی ہے۔ حکمرانوں نے قومی حمیت کو جنس بازار بنا دیا ۔ پولیس پہلے برباد تھی، اب تو موجوہ ہی نہیں۔چرب زبان لیڈران اس پر لب کشائی کے لئے تیار ہی نہیں۔قومی وقار، عزت نفس ،آزادی و خودمختاری ،حمیت،سازگار اور شاداب زبانوں کی اصطلاحات ہیں۔ہمارے معاشرے سے یہ چیزیںکب کی اٹھ چکی ہیں۔حضرت ابراہیمؑ نے تعمیر کعبہ کے بعد دعا کی:ترجمہ اے اللہ اس شہر کو امن والا بنا اور اس کے رہائشیوں کے لئے رزق کا بندوست فرما۔پہلے امن‘ بعد میں رزق۔ہمارے ہاں تو امن نام کی کوئی چیز نہیں۔امن ہو گا تو ہی رزق کی فراوانی ہو گی ۔افر اتفری میں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ حکومت نے پیداواری حکمت عملی کے بجائے درآمدات کو فروغ دیا۔جس کے نتیجے میں ہم ملکی ضروریات زندگی سے لے کر آسائشات و تعیشات میں دوسروں کا دست نگر بن کر رہ گئے۔ کار پرداز ان کسی طور ہوش کے ناخن لینے کیلئے تیار نہیں کہ وہ قومی سوچ سے محروم اور آلہ کار سوچ کے غلام ہیں۔ محاذ آرائی اور ہمہ جہت محاذ آرائی۔ہیجان اور ہر سمت پھیلتا ہیجان۔پی ٹی آئی کی گرفتاریوں سے حکومت کو استحکام ملے گا ؟کبھی نہیں ۔معاملہ فہمی‘ بالغ نظری ‘ بے لوثی اور غیر جانبداری کہیں نہیں۔ جمہوریت سیاسی جماعتوں کے حرم کی کنیز کے سوا کچھ نہیں۔فیصلے کا وقت آ پہنچا مگر سیاسی قیادت قوت فیصلہ سے محروم۔آخر کب تک خاموشی؟ تیسری دنیا کے ممالک نے کمزور ملکوں کی معیشت کو جکڑ کر انھیں سیاسی و معاشی غلام بنانے کا راستہ ہموار کر لیا۔مقامی مسائل کی لوٹ مار نے غربت‘ بے روزگاری ‘ بھوک ‘ افلاس ‘ بیماری اور اخلاق باختگی کو فروغ دیا۔مگروابستگان دربار میں سے کوئی بھی پاکستانی نہیں؟سب پیٹ کے پجاری ،عہدوں کی ہوس کے لالچی۔جبہ ودستارکے بیانات سے انتہا پسندی کی بُو آتی ہے ۔کراچی میں اشرف المخلوقات کو کتے سے تشبیہ دے ڈالی۔ ایک شخص پہاڑ کے دامن میں زندگی بسر کر رہا تھا مگر پتھروں کی وجہ سے اس کے صحن میں دھوپ نہیں آ سکتی تھی۔ اس نے پہاڑ کو کاٹنے کا عزم کیا، اپنی قوت بازو سے شب و روز اس پہاڑ کو کاٹنے لگا۔کسی شخص نے وجہ پوچھی ،تو اس نے کہا:جب تک پہاڑ یہاں کھڑا ہے‘ ہمارے ہاں دھوپ نہیں آ سکتی لیکن تم اتنے بڑے پہاڑ کو اکھاڑ سکتے ہو؟اس نے جواب دیا: میں زندگی بھر اس پہاڑ کو کاٹتا رہوں گا ،اگر پھر بھی نہ کٹ سکا ،تو میری آنے والی نسلیں اسے یونہی کاٹتی رہیں گی ۔ایک نہ ایک دن پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا ۔تب ہمارے آنگن میں دھوپ آئے گی۔اس لیے جہد مسلسل کر یں،مافیا سے اگر ہماری جان نہ چھوٹی تو ہماری نسلوں کو لازمی چھٹکارا ملے گا۔اس لیے اپنے لیے نہیں ،اپنی نسلوں کے لیے حق وسچ کے ساتھ کھڑے رہو۔