یہ لاعلمی ہے‘ جہالت یا سوچی سمجھی شرارت؟ قومی اقلیتی کمشن کی تشکیل کے لئے ایک سمری تیار ہوئی‘ وفاقی کابینہ کے ارکان کو مطالعہ‘ مشورے اور تجاویز کے لئے بھیجی گئی‘ وزارت انسانی حقوق نے کمشن میں قادیانیوں کی نمائندگی اور کمشن کا سربراہ کسی اقلیتی نمائندے کو مقرر کرنے کی تجویز پیش کی‘ جو منظورکر لی گئی۔ دونوں تجاویز حتمی سمری کا حصہ بن گئیں روزنامہ 92نیوز نے نمائندگی کی آڑ میں قادیانیوں کی اقلیتی کمشن میں شرکت اور قومی سطح پر پیدا ہونے والے ابہام کی طرف توجہ دلائی ‘ وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے ویڈیو بیان میں ایسی کسی سمری اور کابینہ کی منظوری سے انکار کر دیا‘ صحافی نے اپنی خبر کی صداقت پر اصرار کیا تو منگل کے روز کابینہ کے اجلاس میں معاملے کی حساسیت کے پیش نظر قادیانیوں کو قومی اقلیتی کمشن میں نمائندگی نہ دینے کی سفارش پر مبنی نئی سمری پیش کی گئی جسے منظور کر لیا گیا‘ دوران اجلاس دو وفاقی وزراء نے نئی سمری پر اعتراض اور قومی اقلیتی کمشن میں قادیانیوں کی شمولیت پر اصرار کیا ‘ مسلم لیگ(ق) سے تعلق رکھنے والے طارق بشیر چیمہ جذباتی ہو گئے اور کہا ’’ یہ ہر دو چار ماہ بعد آخر قادیانیوں کی محبت ہم پر غالب کیوں آ جاتی ہے اور مسئلہ ختم نبوت پر مسلمانوں کے جذبات کی شدت و حساسیت جانچنے کی شعوری یا غیر شعوری کوشش کیوں ہوتی ہے؟ ‘‘سنا ہے علی محمد خاں سمیت کئی وزیروں نے طارق بشیر چیمہ کا ساتھ دیا اور اقلیتی کمشن میں قادیانیوں کی نمائندگی کی تجویز رد کر دی گئی‘ مذکورہ دونوں وزیر البتہ آخر تک انہیں نمائندگی دلاے پر مصر رہے۔ قومی اقلیتی کمشن کی ہئیت ترکیبی عجیب ہے‘ اقلیتوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لئے قائم ہونے والے کمشن میں دو مسلمان نمائندوں مولانا عبدالخبیر آزاد اور مولانا گلزار احمد نعیمی کی رکنیت؟یہ دونوں علماء کس گروہ کی نمائندگی کرتے ہیں؟اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ان علماء کی شرکت کی وجہ سے قادیانیوں کی نمائندگی پر سوال اٹھا لیکن تحریک انصاف اور عمران خان کے بعض اندھے پیروکاروں نے بے سوچے سمجھے وزارت انسانی حقوق کے موقف کی حمایت شروع کر دی اور قادیانیوں کی نمائندگی کا جواز یہ پیش کیا کہ ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر انہیں اپنے حقوق کے تحفظ اور قومی ادارے میں نمائندگی کا حق حاصل ہے اور جب قادیانی رکن قومی اقلیتی کمشن میں شامل ہو گا تو یہ ایک لحاظ سے قادیانیوں کی طرف سے اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرنے کے مترادف ہے جو موجودہ حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہے‘ ان خوش فہموں کے خیال میں موجودہ حکومت نے ایک تیر سے دو شکار کیے ‘قادیانیوں کو اقلیتی کمشن میں نمائندگی دے کر غیر مسلم اقلیت کی حیثیت تسلیم کرا لی اور امریکہ یورپ کو بھی باور کرا دیا کہ پاکستان میں قادیانیوں کو جملہ حقوق حاصل ہیں وغیرہ وغیرہ۔ بات اتنی سادہ مگر نہیں‘ قادیانیت مسیحیت اور یہودیت کی طرح الگ مذہب ہے نہ قادیانی‘ ہندوئوں‘ سکھوں ‘ پارسیوں اور مسیحیوں کی طرح کسی ایسے مذہب کے پیرو کار ہیں جن کے مذہبی عقائد اور شعائر واضح ہوں‘ مرزا غلام احمد قادیانی کے پیرو کار اپنے آپ کو حقیقی مسلمان سمجھتے‘ مسلمانوں کی طرح عبادت کرتے اور مرزا غلام احمد قادیانی کو رسول‘ نبی ‘ پیغمبر‘ مسیح موجود یا مہدی نہ ماننے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں۔ 1974ء میں پارلیمنٹ کے اجلاس میں قادیانی جماعت کے سرسراہ مرزا ناصر احمد نے سب کے سامنے یہ کہا کہ جو لوگ مرزا صاحب کی نبوت کے قائل نہیں انہیں ہم مسلمان تسلیم کرتے ہیں نہ ان کے نکاح کو جائز۔’’ذوالفقار علی بھٹو مرحوم یہ سن کر تڑپ اٹھے اور یحییٰ بختیار مرحوم سے کہا ’’گویا ان کے نزدیک میں بھی مسلمان نہیں‘ میں تو مرزا کو نبی نہیں مانتا‘‘۔ جماعت احمدیہ ختم نبوت کے حوالے سے متفقہ ترمیم کے بعد 1973ء کے آئین کو تسلیم کرتی ہے نہ اپنے آپ کو اقلیت اور نہ ان کی وفاداری کا مرکز پاکستان ہے‘ چند ماہ قبل سرگودھا کے ایک بُک سیلر قادیانی کی ویڈیو منظر عام پر آ چکی ہے جو امریکی صدر ٹرمپ کے سامنے اپنی مظلومیت کا رونا روتے ہوئے پاکستان کی شکائت لگا رہا ہے۔ 1974 سے اب تک جماعت احمدیہ نے کسی قادیانی کو اقلیتی نشستوں میں انتخاب لڑنے کی اجازت دی نہ کسی سیاسی جماعت سے ٹکٹ مانگا۔1970ء کے عشرے میں بشیر الدین خالد نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر اسمبلی کی رکنیت حاصل کی تو اُسے جماعت احمدیہ سے خارج کر دیا گیا‘ ایک ایسا مذہبی گروہ جو ختم نبوت کے بنیادی اسلامی عقیدے پر کاربند نہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کرتا ہے اور نہ اپنی غیر مسلم شناخت پر راضی ‘اُسے قومی اقلیتی کمشن میں شامل کرنے کا فائدہ؟ ریاست اور حکومت کی فراخدلی قابل داد مگر مذکورہ گروہ بھی تو اپنی اقلیتی حیثیت تسلیم کر ے اور اپنا نمائندہ بھیجنے پر راضی ہو‘ یہ امکان موجود تھا کہ کوئی قادیانی اقلیتی کمشن میں نمائندگی حاصل کر لے اور دو مسلم نمائندوں کی موجودگی میں یہ دعویٰ کرے کہ اُسے مسیحی یا ہندو کی طرح اقلیتی کوٹے پر نہیں بلکہ مولانا عبدالخبیر اور مولانا گلزار نعیمی کے مانند مسلمان نمائندے کے طور پر شامل کیا گیا ہے‘ عمران خان کی کابینہ کے لبرل‘ سیکولر وزیر اور ان کے ہمنوا فوراً صاد کرتے کہ ’’ہاں جب کوئی شخص اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے ہم کیسے اسے غیر مسلم قرار دیں‘ ریاست یا پارلیمنٹ کسی کے عقیدے کا تعین کیسے کر سکتی ہے؟‘‘ حیرت مجھے پیر نور الحق قادری پر ہے جو وزارت انسانی حقوق کے جال میں پھنسے اور تین چار روز تک مصدقہ خبر کی تردید فرماتے رہے‘ افسوس موجودہ حکومت پر جو گزشتہ دو سال کے دوران دوسری بار غلطی کی مرتکب ہوئی‘ یہ تاثر پختہ کیا کہ اسے ختم نبوت کے معاملے پر ملک کی پچانوے فیصد مسلم اکثریت کے جذبات و احساسات کا علم ہے نہ قادیانی ٹولے اور ان کے ہمنوا اور سرپرست لبرلز سیکولرز کی گھاتوں اور وارداتوں سے شناسائی۔ عاطف میاں کی نامزدگی اور اقلیتی کمشن میں قادیانیوں کی نمائندگی اس لاعلمی کا شاخسانہ ہے۔ عمران خان ‘شاہد خاقان عباسی کے دور میں حلف نامے کی عبارت میں تبدیلی پر برپا تحریک کا مشاہدہ کر چکے اور خود بھی احتجاجی تحریک کے حق میں بیانات دیتے رہے‘ اس کے باوجود ان کی کابینہ کے دو وزراء کی یہ جرأت کہ وہ قادیانیوں کی وکالت اور عامتہ الناس میں وزیر اعظم و حکومت کی ساکھ مجروح کریں!۔ اللہ تعالیٰ پیر نور الحق قادری‘ ڈاکٹر بابر اعوان اور علی محمد خان کو توفیق دے تو وہ خان صاحب اور کابینہ کے دیگر ارکان کو مرزا غلام احمد قادیانی کی ایک دو کتابیں پیش کریں یا پارلیمنٹ میں مرزا ناصر احمد کے خطاب کا متن نکلوائیں اور دعوت مطالعہ دیں‘ چند سطر یںپڑھ کر انہیں دن میں تارے نظر آئیں گے کہ قادیانی پیشوا کلمہ گو مسلمانوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ؟کابینہ میں قادیانیوں کے وکیل عمران خان کی کشتی کا بوجھ ہیں‘ یہ بوجھ جتنا جلد اتر جائے کشتی اور ملاح دونوں کے لئے بہتر۔سرکار مدینہ تاجدار ختم نبوتﷺسے بے وفائی کا مرتکب کوئی شخص عمران خان کا وفادار کیسے ہو سکتا ہے۔؟