پروفیسر صاحب کی ساری عمر سائنس پڑھتے پڑھاتے اور سوشل سائنس پر طبع آزمائی کرتے گزری ہے وہ طبیعات کے آدمی ہیں لیکن طبیعت کی جولانی انہیں ہر فن مولا بنائے رکھنے پر تلی رہتی ہے انہیں کسی ایک جگہ ٹکنے نہیں دیاانکی شہرت نیوکلیئر فزکس کے ڈاکٹر سے زیادہ سماج ، معاشرتی رویوں اور اسلامی اقدار کے ناقد کی ہے ان کا شعبہ نیوکلیئر فزکس تھا جو پڑھا تھا پڑھا بھی رہے تھے موصوف فزکس تک ہی رہتے توزیادہ اچھا تھاان کی باتوں میں زیادہ وزن ہوتا کہ انہوں نے یہ سب پڑھ رکھا ہے وہ کہتے ہیں ناں کہ پتھر اپنی جگہ بھاری ہوتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ ان کی متلون مزاجی اور خبروں میں رہنے کا شوق انہیں کبھی مذہب الجھا دیتا ہے اور کبھی وہ جرمنی سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کرنے والے اقبال کو’’ اقبال فلسفہ اور سائنس‘‘ پر لیکچر کے دوران کٹہرے میں کھڑا کردیتے کہ انہیں سائنس کا کیا پتہ ،یہی نہیں وہ جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کرنے والے اقبال کی ڈاکٹریٹ پر بھی گویا خط تنسیخ کھینچ دیتے ہیں کہ انہیں فلسفے کی بھی بس گزارے لائق ہی معلومات تھیں موصوف اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر ’’ لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں‘‘ کہنے والے کو سائنس دشمن بھی قرار دے ڈالتے ہیں اورحسب خواہش ’’ڈسکس ‘‘ ہونے لگتے ہیں موصوف پاکستان کوایک کنفیوژ ریاست اور قائد اعظم کو پاکستان کے مستقبل کے خدوخال سے لاعلم رہنما قرار دے چکے ہیں یعنی قائد اعظم کو معلوم ہی نہ تھا کہ نوزائیدہ ریاست کے خدو خال کیا ہونے چاہئیںبس بن گئی اور بنادی ۔ پروفیسر صاحب کچھ نہ کچھ عرصے بعد پھلجڑیاں چھوڑتے رہتے ہیں اور زیادہ تر ان کی تنقیدی توجہ اسلام ،اسلامی اقدار، روایات پر رہتی ہے وہ اسلامی تمدن تہذیب کے کڑے ناقد ہیں اوران کی تنقید کے لئے کچھ ہونا ضروری نہیں ہوتا بس قلم اٹھاتے ہیں اور لکھ ڈالتے ہیں اس بار ان کی نظر انتخاب ترک ڈرامے ارطغرل پر پڑی ہے انہیں ارطغرل کی صورت میں یہاں ایک بڑا معاشرتی بگاڑ اور فساددکھائی دے رہا ہے جس کا اظہار کرتے ہوئے وہ چھ مارچ کو ایک انگریزی روزنامے میں لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے کچھ دیر پہلے ہی جنوبی پنجاب کے ایک 10 سالہ سرائیکی لڑکے کی مختصر دورانئے کی ویڈیو دیکھی ہے جس میں وہ تلوار لہرا رہا ہے اور فخر سے کہہ رہا ہے میں مسلمان ہوں ، میری تلوار کافروں کے سر قلم کرنے کے لیے ہے وہ لڑکا تلوار لہراتے ہوئے اپنا نام ارطغرل بتاتا ہے موصوف مزید لکھتے ہیں کہ اس طرح کی درجنوں ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں دو سال پہلے پاکستان میں کوئی ارطغرل کا نام بھی نہیں جانتا تھا مگر آج ارطغرل کے طوفان نے پاکستان کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ عوامی مقامات پر تلوار لہراتے ہوئے گھوڑ سوار ارطغرل کے مجسمے نصب کیے جارہے ہیں۔ ارطغرل کی ’’یلغار ‘‘ پر ہاتھ ملتے ہوئے جناب سے توجہ ہٹا کر زرا دس برس پیچھے آجائیں جب ملک میں کیبل کی کالی تاریں گھر گھر میں بدیسی تہذیب 24 گھنٹے پہنچا رہی تھیں ان دنوں کا’ ’کم کم ‘‘ نامی بھارتی ڈرامہ کسی وبا کی طرح پھیلا ہوا تھا کراچی کی جامع کلاتھ مارکیٹ میں کم کم ڈرامے کی ہیروئن کی پہنے جانے والی ساڑھیاں کم کم کے نام سے فروخت ہونے لگی تھیں ،طارق روڈ کے بوتیکس میں عروسی اور پارٹی ملبوسات پر کڑھائی کیلئے خواتین بھارتی ڈراموں کی ہیروئینز کا حوالہ دیا کرتی تھیں نوبت یہاں تک آچکی تھی کہ ہماری عام بول چال میں بھی ممبئی کا انداز در آیا تھا اوراب بھی موجود ہے کراچی میں تو عام ہے وہاںکسی کی بھی’’ واٹ ‘‘ لگا دینا اب بول چال کا حصہ بن چکا ہے کسی بھی چائے خانے میں ٹین ایجرز کو ساتھ بیٹھے دوست کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ آج اسلم کی ایسی واٹ لگائی کہ وہ ہاتھ رکھ رکھ کر رو رہا ہوگا۔ آج بچے ماں باپ سے چاکلیٹ کے لئے پیسے مانگتے ہوئے کہتے ہیں ’’مما ! چاکلیٹ کھانے کا ’’من‘‘ کر رہا ہے ‘‘۔ کیبل کی تاروں کے پھیلنے والے جال سے پہلے یہ ’’من‘‘ دل ہوا کرتا تھا ۔ اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی جہاں پروفیسر صاحب ایک عرصہ فزکس پڑھاتے اور سیکولرزم پھیلاتے رہے ہیں وہاں اس بار ہولی کا تہوار ایسے جوش و خروش سے منایا گیا کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں کیا منایا گیا ہوگا لیکن جناب کو کوئی تشویش نہیں ہوئی ،اسے بھی رہنے دیں ہولی ووڈ کی ایکشن موویز گھر گھر دیکھی جارہی ہیں کیا ان فلموں میں پرتشدد مناظر نہیں ؟ ہماری ثقافت ،تہذیب کے خلاف کچھ بھی نہیں !اس پرموصوف تو کبھی پریشان نہیں دیکھے گئے؟ ان کی تان آکر ایک ایسے ڈرامے پر کیوں ٹوٹی جس میں مسلمانوں کو ان کا شاندار ماضی یاد دلایا گیا دراصل انہیں مسئلہ سرائیکی لڑکے کے تلوار لہرانے سے نہیں مسئلہ ارطغرل سے متاثر ہونے پر ہے ورنہ ہولی ووڈ کی فلمیں کون سی عدم تشدد کی پرچارک ہیںان فلموں کی وجہ سے ملک میں آج کھلونا پستولوں کی اتنی بھرمار ہوچکی ہے کہ عید تہوار پر ضلعی انتظامیہ کو نوٹس لینا پڑتا ہے ،چلیںاسے بھی جانے دیجئے پروفیسر صاحب اپنی غیر جانبداری ظاہر کرنے کے لئے ’’پب جی‘‘ جیسے فسادی کھیل پر ہی کچھ لکھ دیتے پب جی تو خودکشیاں کروا رہا ہے قتل و قتال مچا رہا ہے لیکن انہیںسب قبول ہے قبول نہیں تو بس ارطغرل۔۔۔اور ارطغرل اسے لئے قبول نہیں کہ وہ اسلامی نشاۃ ثانیہ کے جذبات کو مہمیز دیتا ہے،مسلمانوں میں تدبر کی دعوت دیتا ہے ارطغرل اقبال کی زبان میںآج کے مسلم نوجوانوں سے کہتا ہے کہ کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا توجس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارہ