مکرمی! زندہ قومیں اپنی زبانوں کو نہیں چھوڑتیں لیکن آج کل ہمارے معاشرہ میں سکول،کالج اور یونیورسٹی میں اپنی قومی زبان اردو کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔کسی بھی قوم وملک کی ترقی اور اس کی تہذیب اس وقت تک پروان نہیں چڑھ سکتی جب تک وہ اپنی قومی زبان کو عام نہ کرغ،اپنا نظام تعلیم، سرکاری و پرائیویٹ دفاتر میں قومی زبان کو نافذ نہ کرے،دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا اہم راز بھی یہی ہے کہ انہوں نے اپنی زبان کو فروغ دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کی منزلیں طے کرتے گئے۔ صرف چین ہی کی مثال لے لیں انہوں نے ثابت کر دیا کہ ترقی کی راہ میں انگریزی زبان رکاوٹ نہیں اور نہ ہی بن سکتی ہے بلکہ اپنی زبان کو ہی فروغ دینے کے بعد ترقی ممکن ہے۔چینی صدر کے سامنے جب سپاس نامہ انگریزی میں پیش کیا گیا تو اانہوں نے جو جملہ کہا اس کی نظیر ملنا مشکل ہے اور یہی جملہ آج تک ضرب المثل کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔چینی صدر کے الفاظ تھے ابھی چین گونگا نہیں ہوا۔ ہمارے ملک پاکستان میں ہر کام،مسئلہ اور چیز کے لیے الٹی گنگا بہتی ہے یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک اردو زبان سرکاری درجہ حاصل نہ کر سکی اور لا وارثوں کی طرح اسے چھوڑ دیا گیا، دوسری طرف فرنگیوں نے ہمیں ایسا نظام تعلیم دیا جس کو پڑھنے کے بعد ہمارے معاشرے میں کلرک تو پیدا ہو سکتے ہیں لیکن قومی ہیرو،عقل و بصیرت،فہم و فراست والے رہنما پیدا ہونے کی امید فضول ہے،فرنگیوں نے ہماری زبان پر قبضہ نہیں کیا بلکہ ہمارے رہنے سہنے،تہذیب و معاشرت کو بھی ہم سے چھین لیا ہے۔کسی دانا کا قول ہے اگر کسی قوم کی شناخت ختم کرنی ہو تو اس کی زبان سلب کر لی جائے۔ (حافظ عثمان علی معاویہ )