کینٹ بوائز کالج لاہور کینٹ میں سالانہ’ ٹیچرز ٹریننگ‘ جاری ہے،ٹریننگ کے دوسرے روز آخری سیشن میں اردو کی اہمیت و افادیت پر بات کی گئی ۔مجھے بھی کہا گیا کہ آپ اس موضوع پر تفصیلی بات کریں کہ ہمارے بچے اردو سے خائف کیوں ہے اور اردو کے اساتذہ بچوں کے دلوں میں اردو سے محبت کیسے پیداکریں اور یہ بھی بتائیں کہ کلاس رومز میں بچوں کو اردو کیسے پڑھائی جائے تاکہ ان کا رزلٹ اچھا آ سکے۔یہ بہت سنجیدہ موضوع ہے کہ ہمارے ہاں اردو کو وہ عزت و احترام نہیں دیا گیا‘جو انگریزی کو دیا گیا۔آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ ہماری نئی نسل اپنی قومی زبان سے دور ہو گئی اور کہاں پر ایسا خلا پیدا ہوا جس سے ’اردو کیسے پڑھائیں‘ جیسے حیران کن اور اہم ترین سوال نے جنم لیا۔حیران کن اس لیے کہ اردو جہاں ہماری قومی زبان ہے وہاں یہ دنیاکی بھی تیسری بڑی زبان ہے اور یہ ظلم کیوں ہوا کہ ہم سب اردو سے دانستہ یا غیر دانستہ دور ہوتے گئے‘آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ جس زبان کو دنیا تسلیم کر رہی ہے‘ہم اسے پس ِ پشت پھینک رہے ہیں۔زبانیں تو قوموں کی شاخت ہوتی ہیں اور ہم کیسی بد بخت قوم ہیں کہ اپنی شناخت کھو کر بھی زندہ ہیں‘ایسی زندگی تو موت ہوتی ہے۔ میں ایک طویل عرصہ سے اردو کی تدریس سے وابستہ ہوں‘ایسے سینکڑوں واقعات ازبر ہیں جہاں اردو سے دانستہ نفرت پیدا کی گئی‘جہاں منصوبہ بندی کے تحت اردو زبان پر انگریزی کو فوقیت دی گئی اور وجہ کیا تھی‘محض احساسِ کمتری۔خود کو پڑا لکھا یا مفکر ثابت کرنے کے لیے اپنے بچوں سے انگریزی میں بات کرناکس قدر تکلیف دہ رویہ ہے‘حالانکہ انگریزی یا اردو تو کیا ہماری پنجابی بھی کمزور ہے،ہم مذکورہ تینوں زبانوں میں سے کوئی ایک زبان بھی ٹھیک سے نہیں بول سکتے بلکہ اگر کوئی پنجابی بولتا نظر آ جائے تو اسے اس قدر حقارت سے دیکھتے ہیں جیسے وہ انسان نہیں کوئی اور مخلوق ہو۔پاکستان میںپنجابی بولنے والوںکی شرح 48فیصد ہے جبکہ سندھی 12فیصد، سرائیکی 10فیصد،اردو 8فیصد ،پشتو 8فیصد،بلوچی 3فیصد،ہندکو 2فیصد ،براہوی 1فیصد اور انگریزی سمیت دیگر زبانیں 8فیصد۔اب اس سے اندازہ لگائیں کہ اس ملک میں جو زبان (پنجابی)پچاس فیصد بولی جا رہی ہے‘ہم احساسِ کمتری کے مارے لوگ نہ صرف اس زبان سے نفرت کرتے ہیں بلکہ پنجابی بولنے والوں کو جاہل یا نکما سمجھتے ہیں۔زبانیں بولنے سے زندہ رہتی ہیں‘زبانیں اس وقت مر جاتی ہیں جب اس کے بولنے والے ختم ہوجائیں اور ہمارے ہاں پنجابی یا اردو بولنے والوں کی تعداد میں کمی نہیں زیادتی ہو ئی ہے ‘اس کے باوجود ہم انھیں کوئی اہمیت نہیں دے رہے۔ اس کے برعکس ایک ایسا طبقہ جس کے پاس سوائے چند انگریزی جملوں کے اور کچھ نہیں‘وہ مسلسل یہ تاثر دیا رہا ہے کہ دنیا کی کامیابی کا تمام تر انحصار انگریزی پر ہے‘یہی وہ رویہ ہے کہ نوآبادیاتی عہد سے ہمیں ورثے میں ملا۔ نو آبادیاتی رویہ یہی رہا ہے کہ ہندوستانی ایک بد تہذیب اور ان پڑ ھ قوم ہے‘اس کی کامیابی اسی میں ہے کہ یہ انگریزی زبان اور انگریزی تہذیب سے خود کو رنگ لے‘ہندوستانیوں نے اس رویے کو تسلیم کر لیا اور یوں ہم کالے رہے نہ گورے،ایک نئی مخلوق بن گئے۔ آج جب مجھے یہ کہا جا رہا ہے کہ میں بطور استاد یہ بتائوں کہ ہمارے بچے اردو کیوں نہیں پڑھتے تو میں اپنا دکھ کیسے بیان کروں کہ جناب عالی! جب آپ صبح سے شام تک گھروں میں انگریزی تہذیب کا پرچار کریں گے‘صبح سے شام تک ہمارا میڈیا مشرقی تہذیب کی بجائے ایک خاص مغربی رویوں کو فروغ دے گا تو اردو یا اردو کی تہذیب کیسے زندہ رہے گی؟زبانیں اسی صورت زندہ رہتی ہیں جب ان کو اگلی نسلوں تک ایمان داری سے پہنچایا جائے‘ہم ایمان داری سے انگریزی تو کیا اردو اور پنجابی تک نہیں بول سکتے‘ہمارے بچے تینوں زبانیں بیک وقت بولتے ہیں لہٰذا یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری نئی نسل کو ایک زبان بھی نہیں آتی۔ہمارے بچے اردو کا لیکچربھی ’رومن انگریزی‘میں لکھ رہے ہوتے ہیں‘انھیں اچھے شعر کی پہچان تک نہیں‘وہ ہر رکشے اور ٹرک کے پیچھے لکھے شعر کو غالب‘اقبال اور فراز کا سمجھتے ہیں‘انھیں مکالمہ اور روداد میں فرق تک نہیں معلوم‘انٹرمیڈیٹ کا بچہ درخواست اور خط میں فرق نہیں کر سکتا‘بارہویں جماعت کا بچہ جو میڈیکل کا میرٹ بنانا چاہتا ہے وہ اردو کا ایک جملہ بھی ٹھیک نہیں لکھ سکتا اورہم رو رہے ہیں کہ استاد اردو کیسے پڑھائے۔کیا اردو پڑھانا صرف استاد کا کام ہے؟کیا والدین یا معاشرے کی کوئی ذمہ داری نہیں ؟کیا گھر کا ماحول کوئی اہمیت نہیں رکھتا؟ہم بچوں کو جرابوں کی بجائے’سوکس‘پہنانا چاہتے ہیں‘ہم انھیں سیب کی بجائے’ایپل‘کھلانے کے خواہش مند ہیں‘ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اب ’سلام‘ بھی انگریزی میں کیا کریں تاکہ پڑھے لکھے محسوس ہوں‘ایسی صورت میں اردو ٹھیک ہوسکتی ہے؟ بچے کی پہلی تربیت گاہ وہ گھر ہوتا ہے جہاں وہ آنکھ کھولتا ہے‘دوسری تربیت گاہ اس کا تعلیمی ادارہ ہوتا ہے۔ہم جب بچوں کی تربیت کی بات کرتے ہیں تو پہلی تربیت گاہ کو مکمل نظر انداز کر دیتے ہیں اور سارا ملبہ دوسری تربیت گاہ پر پھینک دیتے ہیں‘اس سے انکار نہیں کہ بچے کی علمی و ذہنی نشوونما میں درس گاہ بہت اہمیت رکھتی ہے مگر والدین کا بھی کوئی کردار ہے۔اگر گھر میں بچے کے لیے ہم نے کوئی ایسا اہتمام نہیں کیا جس سے اس کی زبان ٹھیک ہو سکے‘وہ اپنی تہذیب اور ثقافت سے روشناس ہو سکے تو صرف درس گاہیں کیا کردار ادا کریں۔ہمارے گھروں میں جم کلب سے لے کر سینما ہال تک تو موجود ہیں مگر کتاب اور اخبار کا کوئی رواج نہیں‘ہماری رسومات اور ہمارے کھانے‘سب انگریزی تہذیب میں رچے بسے ہیں اور ہم پریشان ہیں کہ بچے اردو نہیں سیکھ رہے۔ہم کیسی عجیب قوم ہیں‘کپاس کا بیج بوکر گندم کی فصل اٹھانا چاہتے ہیں‘جناب !یہ ممکن نہیں ہے۔ہم اگر یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اپنی زبان سے محبت کریں اور اپنی تہذیب کی بات کریں تو ہمیں اپنے اندر سے احساسِ کمتری ختم کرنا ہوگا‘ہمیں اردو یا پنجابی بولتے ہوئے ندامت نہیں بلکہ فخر ہونا چاہیے‘عظیم قوموں کا یہی شیوہ ہوتا ہے۔میرا خیال ہے موضوع یہ نہیں ہونا چاہیے کہ بچوں کو اردو کیسے پرھائیں بلکہ اصل موضوع یہ ہے کہ اس احساس کمتری کو کیسے ختم کریں جو انگریزی کی محبت میں پیدا کیا گیا‘کاش اس موضوع پر بھی مکالمہ رکھا جائے۔