غلط کیا ہوا ہے ؟ ببول بو کر گلابوں کی امید رکھنا چاہتے ہیں تو شوق سے رکھیں۔۔۔لالہ موسیٰ جانے کے لئے تیزگام کا ٹکٹ لے کر مال گاڑی میں اپنی نشست تلاش کرنی ہے تو کر لیجئے ۔۔۔گھر بسانے کے لئے خالہ کے گھر رشتہ بھیج کر منہ اٹھا کر بارات ماموں کے گھر لے جانا چاہتے ہیں تو ضرور جایئے لیکن نتائج کیا ہوں گے اسکے لئے دانشوروں کی کسی بیٹھک کی ضرورت نہیں ہے ،اسلام آباد کے متمول علاقے میں ریستوران کی رئیس زادی مالکن نے سہیلی کے ساتھ مل کر اپنے منیجر کے ساتھ جو کیا وہ غلط کیا ہے ؟ کیا ہم احساس کمتری کی بوری بند لاشیں نہیں ؟ ہمارے یہاں قابلیت کی پہلی اور آخری نشانی زبان پر رکھی انگریز ی نہیں ؟ کہنے کو ہی ہماری قومی زبان اردو ہے جو خودفریبی کے سوا کچھ نہیںیہ بیچاری تو عوامی زبان ہے ہماری دفتری ،کاروباری ،عدالتی اور افسر شاہی کی زبان تو انہی فرنگیوں کی ہے جواپنے لئے مخصوص باغوں کے پھاٹکوں پر لکھوا رکھتے تھے کہ کتوں اور ہندستانیوں کا داخلہ منع ہے ،جو ’’غدار ہندوستانیوں ‘‘ کو توپوں کے منہ سے باندھ کر اڑا دیاکرتے تھا جو ’’غداری ‘‘ کے الزام میں کالے پانی کی سزا ئیں دیتے تھے ۔۔۔سچ یہی ہے کہ آج وطن عزیز پر انگریزوں کا تو نہیںمگر انگریزی کا راج ضرور ہے جہاں کل گورا صاحب بیٹھ کر امور مملکت چلاتا تھا وہاں آج کالا صاحب اسی طرح پتلون کوٹ پہنے گردن میں ٹائی کے نام پر غلامی کا طوق لٹکائے گردن اکڑائے ملتاہے مان لیجئے کہ ہم نے کسی نہ کسی طرح انگریزوں کودیس نکالا تو دیا لیکن ان کے جاتے ہی چھوڑے گئے کپڑوں میں خودگھس گئے ،ان کی زبان اپنی زبان پر رکھ لی ،انکی سوچ اپنالی اور کالے انگریز بن کر حکمرانی کرنے لگے ۔ ہماری اشرافیہ نے اقتدار کے اردر گرد انگریزی کی باڑھ لگا رکھی ہے وہ جانتے ہیں کہ ایچی سن کالج،گھوڑاگلی اوراولیول اے لیول والے مہنگے نجی تعلیمی اداروں میں رکھی سیڑھیاں انہیں باڑھ کی دوسری جانب آسانی سے پہنچا سکتی ہیں اور ایسا ہی ہوتا رہا ہے پیلے اسکولوں سے آنے والے چند ایک ’’درانداز وں‘‘ کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے پھر ایسے انگریزی زدہ ماحول میں آپ کیا توقع رکھ سکتے ہیں ؟یہ 1988ء کی بات ہے جب میں نے میٹرک پاس کیاوالدہ کی خواہش تھی کہ میں کمیشن لے کرافسر بنوں ،ماموں نے بھی حوصلہ افزائی کی اور میں ایک بھرتی سنٹر پہنچ گیا اپنا اندراج کرایا اوردی گئی تاریخ پر انٹیلی جنس ٹیسٹ میں بیٹھ گیا ،اس ٹیسٹ میں امیداروں کی ذہنی قابلیت جانچی جاتی ہے کہ وہ نرے کورے نہ ہوں میرے سامنے مختلف سوالوں پر مشتمل کتاب آگئی کتاب کھولی لیکن یہ کیاسارے سوال انگریزی میں تھے جو ایک پیلے اسکول کے پڑھے ہوئے بچے کے لئے تقریبا اجنبی تھی ،ہمیں تو چھٹی کلاس میں سر ایوب نے ’’اے فار ایپل ‘‘ اور نویں کلاس میں سر ابوالکلام نے جملوں کی ساخت بنانا سکھائی تھی جو سرپر سے گزر جاتے تھے میں اس ٹیسٹ میں ناکام رہاجس کا واحد سبب ایک ایسی زبان تھی جو میرے والدین بولتے تھے نہ میں سمجھتا تھا ایک اجنبی زبان میں کئے گئے سوالات کے جوابات کون دے سکتا ہے ؟ آپ کسی فرانسیسی سے پنجابی میں دو دونی پوچھیںتو وہ کیا جواب دے گا؟ کسی سویڈش سے اردو میں سوال کریں کہ چار اور چار کتنے ہوتے ہیں تو وہ ہونق بنا آپ کامنہ نہیںدیکھے گا تو کیا کرے گا؟ میں چار سال قبل ترکی گیا استنبول کے علاقے فاتحی میں ہوٹل تھا استقبالئے سے چابی لے کر اپنے کمرے میں پہنچا تو تازہ دم ہونے کے لئے حرارت بخش گرم پانی سے نہانے کی شدید طلب ہورہی تھی غسل خانے میں گیاتو وہاں چپل نہیں تھے میں نے استقبالئے پر فون کیاا ور چپلوں کی فرمائش کی جواب میں وہ ترکی میں جانے کیاکہنے لگے ،ہوٹل والوں کو اس قسم کی صورتحال کا اندازہ تھا بلکہ یقینا وہ اس قسم کی صورتحال سے گزرتے رہتے ہوں گے انہوں نے ہی میرے میزبان کو فون کیا جس نے اپنا نمبر ہوٹل والوں کو اسی وقت کے لئے دے رکھا تھا تھوڑی دیر بعد میرے پاس میزبان کی کال آگئی پوچھا خیریت ہے کوئی پریشانی تو نہیں ؟ میں نے عرض کیا یار !چپل چاہئے تھے استقبالئے پر فون کیا تووہ میری سمجھے نہ میں انکی سمجھا وہ ہنس پڑا اور کہا میںابھی انہیں کہتا ہوں تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی اور چپل آگئے ترکی میں کسی اورزبان کا داخلہ تقریبا بند ہے، دکانوں کے سائن بورڈز، ٹریفک کے لئے ہدایات سب ترکی میں ہیں آپ راستہ بھو ل جائیں تو کوئی راستہ بتانے والا نہیں ملتا میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ، استنبول کے حسن نے مجھے جیسے ہپناٹائز کردیا ہومیں ہوٹل سے باہر نکلا اور چلتا چلا گیا واپس جانے کا خیال آیا تو راستہ بھول چکا تھا یاالہیٰ !کیا کروں کہاں جاؤں کس سے رابطہ کروں ؟ جس سے بات کرتا وہ سلام کا جواب دے کر کاندھے اچکا دیتایہاں تک کہ پولیس اہلکار بھی میری بات سمجھنے سے قاصر تھے مجبورا میزبان کو کال کی بتایا کہ راستہ بھٹک گیا ہوں اور کوئی بتانے والا نہیں انہوں نے مجھے آس پاس کی تصاویر کھینچ کر بھیجنے کو کہا میں نے چند تصاویر بھیجیں جن میں کچھ سائن بورڈز بھی تھے ان سے میرے میزبان کو اندازہ ہوا کہ میں کہاں ہوں انہوں نے مجھے تسلی دی کہا کہ آپ زیادہ دور نہیں ہیں بس ناک کی سیدھ میں آتے رہیں اور چار گلیاں چھوڑ کر بائیں مڑجائیں۔ ترکی میں انگریزی اجنبی ہے اس اجنبیت کے باوجود وہ الیکڑک کاریں بنارہا ہے،بحری جہاز بنا رہا ہے ،گاڑیوں کی صنعت میں اسکی ترقی قابل رشک ہے ستمبر 2020تک ترکی ساختہ گاڑیوں کی برآمدپانچ اعشاریہ پانچ بلین ڈالرتک جا پہنچی تھی،انگریزی سے دوری کے باوجود ترکی میں سیاح کھنچے چلے آتے ہیں کورونا سے پہلے 2019ء کے گیارہ ماہ میں ایک کروڑ بیس لاکھ سیاح آئے جس سے اربوں ڈالر کی آمدنی ہوئی مجھے بتائیں کہ جب ترکی انگریزی کی مدد لئے بغیر ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے دوڑ سکتا ہے،چین امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکتا ہے دوسری سپر طاقت بن سکتا ہے تو ہم میں کیا کمی ہے ؟ خدا کے واسطے پاکستانیوںپر رحم کریں مادری اور قومی زبانوں پر فخر کریں،اردو بولیں اردو لکھیں کہ یہ ہماری زبان ہے ہم کتنی ہی اچھی انگریزی بول لیں انگریز نہیں ہوسکتے ،اردو کو اسکا حق دیں یہ آپ کے سارے دلدر دور کردے گی۔