کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی الیکشن جیت گئی تو آئین میں ترمیم کر کے سیکولر بھارت کو ہندو دیش بنا دے گی اور ابھی تک کے آثار یہ ہیں کہ وہ جیت رہی ہے۔ حالیہ واقعات کو اس نے کامیابی سے اپنی مضبوطی کے لئے استعمال کیا ہے۔ اصولی طور پر کوئی اعتراض اس بات پر بنتا نہیں ہے۔ کسی بھی ملک کے لوگ اپنے ملک کو اپنے مذہب کی حکمرانی میں لانا چاہیں تو لا سکتے ہیں۔ جمہوریت بھی یہی کہتی ہے۔ لیکن فرق کیا پڑے گا؟ عملاً بھارت پہلے ہی ہندو ورش ہے۔ اسٹیبلشمنٹ مسلمانوں کو نوکریاں نہیں دیتی‘ رعایا انہیں اپنے محلوں میں گھر نہیں لینے دیتی۔ ویسے اگر بھارت ہندو ورش بن جائے تو مسلمانوں کو رعایت ملنے کا بھی امکان ہے۔ اس طرح کہ ستر سال سے انتقام کی آگ میں جلتے انتہا پسندوں کا ’’کتھارسز‘‘ ہو جائے گا اور ‘ کچھ ٹھنڈے پڑ جائیں گے۔ نفسیات تو یہی کہتی ہے۔ بھارت کے مسلمان اس اندیشے میں بھی ہیں کہ پھر اردو کو ختم کرنے کی کوششیں تیز ہو جائیں گی۔ یہ اندیشہ بھی ٹھیک نہیں۔ اردو کو ختم یا ناتواں کرنے کی کوششیں پہلے بھی کم نہیں ہوئیں تو کیا اردو ختم ہو گئی ہے۔ کسی نے کہا‘ اردو بطور بول چال کی زبان تو ختم نہیں ہو سکتی لیکن بطور رسم الخط باقی نہیں رہے گی۔ یہ بھی ٹھیک نہیں کہا۔ اس لئے کہ پچھلی دو تین دہائیوں میں بھارت کے اردو اخبارات کی تعداد بڑھ گئی ہے اور اشاعت بھی۔ اور رسائل و جرائد بھی پہلے سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔ یہی نہیں‘ بھارت میں اردو پبلشرز کی تعداد کسی بھی طور پر پاکستانی ناشروں سے کم نہیں۔ چھپنے والے اردو ٹائٹلز کی تعداد لاکھوںمیں ہے۔ اردو بطور زبان پہلے کی طرح زندہ ہے۔ بھارتی عوام کا سب سے زیادہ انٹرایکشن ہندی فلموں سے ہے۔ ایک آدھ دھارمک نوعیت کی فلم چھوڑ کر باقی سب ہندی فلموں کے مکالمے 80فیصد‘ بلکہ اس سے بھی زیادہ اردو میں ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ فلموں کی زبان دہلی‘ لکھنو‘ پٹنہ اور اجمیر کی سکہ بند زبان نہیں۔ عوامی زبان ہے جس میں علاقائی محاورے اور لہجے نمایاں ہیں۔ جو زبان ہندی چینلز پر بولی جاتی ہے ‘ فلموں میں بولی جانی لگے تو یہ فلمیں تو فلاپ ہو جائیں۔ اردو شاعری تو اردو ہے ہی‘ ہندی شاعری بھی بیشتر اردو ہی ہے۔ بھارت میں لاکھوں مدرسے ہیں اور سینکڑوں فلمساز بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ جب تک مدرسے موجود ہیں اور فلمیں بھی‘ اردو اسی شان سے رہے گی۔ اردو کی فکر پاکستان میں کرنی چاہیے جہاں ایلیٹ کلاس نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ پھر ٹی وی چینلز ہیں اور اس کے بعد اشتہاری صنعت جو اردو کی بیخ کنی میں پیش پیش ہیں۔ یہ سطریں لکھتے ہوئے ٹی وی پر چلنے والا ایک اشتہار سن رہا ہوں‘ ایک فقرہ یہ ہے‘ جیسے آسمان کی گردن میں چمپا کلی۔ ملاحظہ فرمائیے‘ آسمان کی بھی گردن ہوا کرتی ہے۔ اردو کو بھارت میں خطرہ ہے‘ کچھ کچھ۔ اردو کو پاکستان میں خطرہ ہے۔ بہت کچھ۔ ٭٭٭٭٭ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری گزشتہ روز جیل میں نواز شریف سے ملے۔ ملاقات میں میثاق جمہوریت بھی زیر بحث آیا اور دونوں نے اسے فعال بنانے پر اتفاق کیا۔ یعنی میثاق جمہوریت کے لئے جدوجہد ہوئی ع دل پھر طواف کوئے’’ہلاکت‘‘ کو جائے ہے اسی میثاق کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر درگور ہو گئیں اور میاں نواز شریف زندہ درگور ۔ بہرحال‘ معاملہ آئین‘ انسانی حقوق اور جمہوریت سے عشق کا ہے اور عشق کو عاشقوں ہی نے’’کم بخت‘‘ قرار دیا ہے۔ جس روز میثاق جمہوریت ہونے کی خبر آئی۔ نیوز روم میں بہت تبصرے ہوئے۔ اکثر نے کہا‘ ہمارے رہنما بالغ ہو گئے۔ ایک صاحب نے کہا‘ دونوں لیڈروں نے اپنی موت کو آواز دی ہے۔ بعد کے حالات نے ان صاحب کی ’’لسانِ اسود‘‘ کو سچ کر دکھایا۔ آگے کیا ہو گا؟ اس داستان عشق کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ موڑ کسی بھی دن آیا چاہتا ہے جب انڈونیشیا اور ترکی طرح یہاں بھی جمہوریت شادیانے بجائے گی۔ لکھ رکھئے‘ ایسا ہی ہو گا۔ بے نظیر نہ سہی‘ نواز شریف بھی نہ سہی لیکن ’’اور نکلیں گے عشاق کے قافلے‘‘ ٭٭٭٭٭ وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری صاحب بھی صحبت انصافیاں میں رہتے رہتے’’سچ‘‘ بولنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ مہمند میں خطاب کرتے ہوئے یہ سچ منکشف فرمایا کہ حکومت کسی شخص کو بے روزگار نہیں کرے گی۔ سچ اور سو فیصد سچ۔ حالیہ سات مہینوں میں دس سے پندرہ لاکھ بے روزگار ہوئے ہیں‘ بعض رپورٹوں کے مطابق اس سے بھی زیادہ اور یقین جانئے‘ یہ سارے کے سارے ’’افراد‘‘ تھے ان میں شخص ایک بھی نہیں تھا۔ ٭٭٭٭٭ سراج الحق نے فرمایا ہے کہ ’’مغربی ایجنڈے‘‘ کے تحت مساجد اور مدارس کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔ قبلہ نے بھارت کو ’’مغربی‘‘ قرار دے دیا حالانکہ وہ ’’مشرقی‘‘ ہے۔ نہیں سمجھے؟ دیکھیے‘ ’’ڈوزیئر‘‘ مشرق سے آیا ہے۔ مغرب سے نہیں۔ چلئے ‘ بات کو قابل قبول بنانے کے لئے یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’’مغربی اور مشرقی ایجنڈے کے تحت‘‘ محترم مزید جرأت کریں‘ اسرائیل کے حوالے سے اندر ہی اندر جو پیشرفت ہو چکی ہے اور ہو رہی ہے‘ اس پر بھی لب کشائی کریں۔ یہ بھی بتا دیںکہ یہ پیشرفت براستہ نجدو حجاز ہو رہی ہے یا کہیں اور سے؟ فرمایا پانامہ لیکس میں اتنے سینکڑوں نام تھے‘ صرف نواز شریف کے خلاف کارروائی ہوئی۔ قبلہ کونسا تساصح ہوا، پانامہ لیکس میں نواز شریف کا نام تھا ہی نہیں۔ اور ایجنڈے کے باب میں بھی وہ بھولے بن رہے ہیں۔ انہیں شروع دن سے اس کا علم تھا‘ یہ کہ کارروائی اسی کے خلاف ہو گی جس کا نام نہیں ہے۔ جن کا نام ہے‘ انہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ اس لئے کہ معاملہ کرپشن کا کبھی تھا ہی نہیں اور معاملہ کیا تھا‘ سراج الحق سمیت سبھی جان گئے ہیں۔