ملیشیا رنگ کے عام سے کپڑوں میں ملبو س وہیل چیئر پربیٹھے اس کمزور و نحیف بوڑھے شخص کی مٹھیوں میں کرنسی نوٹ دبے ہوئے تھے اس نے گلے میں ایک تھیلالٹکا رکھا تھا جس سے نوٹ ابل رہے تھے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد نوٹوں سے بھری مٹھیاں جھولے میں ڈال کر کھولتا اورنوٹ دبا دبا کر جگہ بنا نے کی کوشش کرتا جس سے تھوڑی دیر کے لئے جگہ تو بن جاتی لیکن جلد ہی وہ تھیلا نوٹوں سے بھر جاتا تب اس کے ساتھ کھڑی دو لڑکیاں ان نوٹوں کو ایک بوری میں ڈال کر وہ تھیلا خالی کردیتیں ،عجیب بات یہ تھی کہ وہیل چیئر پر بیٹھا گندمی رنگت اور خمیدہ ناک والا وہ بوڑھا کوئی صدا لگا رہاتھا نہ ہاتھ پھیلا رہا تھا پھر بھی لوگ تھے کہ چلے آتے تھے گاڑیاں رک رہی تھیں ، موٹر سائیکلوں کو بریکیں لگ رہی تھیں لوگ اسکے پاس کھنچے چلے آرہے تھے حالاںکہ وہ کسی خانقاہ کا گدی نشیں تھا نہ اس نے کہیں آستانہ بنا رکھا تھا وہ پیر زادہ تھانہ صاحبزادہ، جھاڑ پھونک کرتا تھا نہ تعویذ لکھتاتھا،قادر الکلام تھا نہ کسی کے لئے شمشیر بے نیام ،دیکھنے میں ایک عام سا شخص تھا سستے کپڑے پہنتا میں نے اسے کبھی مہنگا لباس پہنے نہیں دیکھاجب بھی دیکھا میٹھادر کراچی کی ٹیڑھی میڑھی گلیوں میں دو پٹی کی قینچی چپل اور ملیشیا کے میل خورے رنگ کے کرتاپاجامے میں ہی دیکھا اس کے باوجود اسکی یہ عزت ،یہ توقیر، یہ مقام مرتبہ۔۔۔اسکی عزت تو وہ لوگ بھی کیا کرتے تھے جن کی اپنی عزت ہوتی ہے نہ وہ کسی کی عزت کرتے ہیں ، کہتے ہیں ایک بار سندھ کے کسی دیہی علاقے میں اس پر بندوقیں نکل آئیں ، نقاب پوش ڈاکو ؤں نے آلیا ، تلاشی لینے والوں ہا تھ جیب کاندھے سے جھولتے بیگ پر گیا تو ان کی آنکھیں چمک گئیں وہاں نوٹ ہی نوٹ تھے حیران ہوئے کہ یہ عجیب بندہ ہے نوٹوں سے بھرا تھیلالے کر گھوم رہا ہے ماجرہ سردار تک پہنچا سردار نے تیز نظروں سے اسے تولتے ہوئے کرخت لہجے میں پوچھا ’’کون ہو؟ ‘‘ اطمینان سے ایک لفظ میں اپنا تعارف کرایا ’’ایدھی ‘‘۔ بس اس اک لفظ نے سب بندوقوں کی نالیں نیچی کردیں ،سردار کے لہجے کی کرختگی جانے کون لے گیا ، آنکھوں میں عقیدت و محبت کے دیپ جھلملانے لگے ، ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی اور ساتھیوں سے کہا ’’ایدھی سائیں! کو عزت احترام سے واپس چھوڑ کر آؤ،کل کلاں کو ہم نے پولیس مقابلے میں کہیں مرنا ہے تو اسی نے ہی غسل دینا ہے ۔ ایک بار میری ایدھی صاحب مرحوم ومغفور سے ملاقات ہوئی ،صحافی اور ایک کرائم رپورٹر کی حیثیت سے ان کی ایدھی فاؤنڈیشن سے تو برابر رابطہ رہتا تھا کراچی بوری بند لاشوں سے متعارف ہوچکا تھا ہڑتالیں گھیراؤجلاؤ، فائرنگ اور خون میں لت پت لاشیں معمول بن چکی تھیں جب بھی کہیں کسی واقعے کی اطلاع ملتی تو ایدھی انفارمیشن والوں کی طرف سے کرائم رپورٹروں کو بھی پیجر کے ذریعے اطلاع دی جاتی تھی اور ہم جائے وقوعہ کی جانب دوڑ پڑتے تھے ان ہی دنوں کی بات ہے میں کسی کام سے ایدھی فاؤنڈیشن گیا تھا ایدھی بابا بیٹھے دکھائی دیئے میں ان کے پاس چلا گیا باتیں ہونے لگیں عرض کیا ایدھی صاحب ! اک بات تو بتائیں اگر کبھی پاکستان پر خدانخواستہ کوئی مشکل وقت آجائے تو آپ کے اکاؤنٹ میں کتنی رقم ہوگی ؟ عجیب سے سوال پر ایدھی صاحب مسکرائے اور جوا ب دیا ’’دو تین ارب روپے تو پڑے رہتے ہیں ‘‘یہ ان دنوں کی بات ہے جب روپیہ کی بھی اہمیت ہوتی تھی ڈالر کے مقابلے میں ایسی جانکنی کا عالم نہ تھا اچھی خاصی مضبوط کرنسی میں شمار ہوتاتھا،ایدھی صاحب کے اکاؤنٹ میں پڑی یہ رقم سڑکوں پر دوڑتی ایمبولینسیں ، نامعلوم لاشوں کی تجہیزو تدفین اوران رفاعی کاموںکی مرہون منت اس اعتماد کا نتیجہ تھی جولوگوں کو ایدھی بابا پر تھا وہ دیکھتے تھے اور جانتے تھے کہ ایدھی مال نہیں بناتا ہم ہی پر لگاتا ہے،لوگ لاکھوں روپے دے جاتے اور رسید کی پرواہ نہ کرتے کہ علم تھا ان کاروپیہ کسی غریب کے کفن میں لگاہوگایاسڑک پر دوڑتی کسی ایمبولینس پر ،وہ دیکھتے تھے کہ ان کا روپیہ کسی حادثے میں رضاکاروں کے ہاتھوں میں اسٹریچر کی صورت میں ان کے سامنے ہے اسی لئے یقین بھی تھا۔ ہمارا اصل مسئلہ ہی اس یقین اور اعتماد کا ہے آج کسی کو کسی حکومتی ادارے پر بھروسہ نہیں ایک نامعلوم پاکستانی ترکی کے سفارتخانے میں زلزلہ زدگان کو تیس ملین ڈالر دے جاتا ہے اور ہم ڈالروں کے لئے منتیں ترلے کررہے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے بنچ نے اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ دیا ہے کہ اب اس پر عمل ہونا آئینی تقاضہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس پر عمل کتنا ممکن ہے خالی خزانے کے ساتھ حکومت کے لئے اس مد میں الیکشن کمیشن کوسینتالیس ارب روپوںکی ادائیگی کتنی سہل ہوگی اور کے پی کے میں طالبان اور بلوچستان میں باغیوں سے نبردآزما فوج کے لئے اس میں تعاون کس حد تک ممکن ہوگا؟ آج بھی بلوچستان میں بارودی سرنگ کا دھماکاپاک فوج کے ایک کپتا ن سمیت چھ جوانوں کی خاکی وردی کو لہو کی سرخی مل چکی ہے، کے پی کے پولیس الگ دہشت گردوں سے نبردآزما ہے ایسے میں خدشات تو اٹھتے ہیں کاش سیاست دان مل بیٹھتے تو یہ نوبت نہ آتی اب آہی چکی ہے توسوچیں کہ الیکشن کی یہ بیل منڈھے کیسے چڑھے گی ؟ خدانخوانستہ نہ چڑھی تو اک اور بحران کا چاند چڑھ جائے گابقول منیز نیازی ’’اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا‘‘ ٭٭٭٭٭