وہ گرمیوں کی ایک عام سی شام تھی۔ ماڈل ٹائون میں درختوں کے جھنڈ میں گھرے ہوئے ایک گھر کے پہلے فلور پر ہم چائے پی رہے تھے۔ میزبان میڈیا کی ایک اہم شخصیت تھی۔ ساتھ ہی کھلتی ہوئی رنگت والا نظر کی عینک کا خوبصورت فریم لگائے ایک نوجوان کرسی پر بڑے ادب سے بیٹھا ہوا تھا۔ ان سے ملیے یہ ڈاکٹر ارسلان ہیں۔ شیخ زید ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں اور اب سی ایس ایس کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے والدین اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ یہ لاہور میں اکیلے رہتے ہیں۔ انہیں کرنٹ افیئرز اور پاکستان افیئرز پر آپ کی رہنمائی درکار ہوگی۔ بس اتنا سا تعارف تھا میرا ڈاکٹر ارسلان افتخار سے۔ نہ اس نے اپنا پس منظر بتایا نہ میں نے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی۔ سی ایس ایس کا نتیجہ آیا تو وہ ایک ایسے مضمون میں فیل تھا کہ اگر کہتا تو میں اسے انگریزی کا کوئی اچھا استاد دے دیتا۔ افتخار چودھری کے خلاف جنرل مشرف کے ریفرنس سے پہلے ڈاکٹر ارسلان سی ایس ایس کے امتحان میں فیل ہوچکا تھا۔ وزیر اعظم شوکت عزیز نے اسے ایک آفر کی، پولیس سروس میں شمولیت میں مدد کی، جسے اس نے قبول کرلیا۔ ارسلان افتخار کہا کرتا تھا کہ اس میں میرے والد نے میری کوئی مدد نہیں کی … یہ انکل شوکت عزیز صاحب کی ذاتی مہربانی ہے۔ پھر وہ شیخ زید ہسپتال کے ڈاکٹر سے ایس پی ماڈل ٹائون بن گیا۔ جب افتخار چودھری کے عزائم اور فیصلے مشرف کے لیے خطرے کی گھنٹی بننے لگے تو جنرل صاحب نے اپنے بعض دوستوں کے مشوروں پر جسٹس افتخار کے خلاف ریفرنس لانے کا فیصلہ کیا۔ اگر کبھی کسی طالب علم نے ریسرچ کی تو عام لوگ بھی جان پائیں گے کہ وہ بلوچستان کے اور پھر پاکستان کے چیف جسٹس کیسے بنے؟ ڈاکٹر ارسلان افتخار ایس پی ماڈل ٹائون بن گیا اور افتخار چودھری کے خلاف ریفرنس کی تیاری شروع ہوگئی۔ چودھری پرویز الٰہی اس وقت چیف منسٹر پنجاب تھے۔ ان کے ایک میڈیا ایڈوائزر تھے۔ وہ بیک وقت رئیل اسٹیٹ، سیاست اور صحافت کے گھوڑوں پر سوار رہتے تھے۔ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ باخبر حلقوں کی ڈارلنگ ہیں۔ ارسلان بطور شاگرد ملتا رہتا تھا۔ محترم میڈیا ایڈوائزر صاحب نے ایک کافی شاپ میں کافی پینے کی دعوت دی اور بریکنگ نیوز دے ڈالی۔ فرمانے لگے یہ نوجوان جو آپ کے پاس آتا ہے اس کے باپ کے خلاف بڑا دھانسو ریفرنس آرہا ہے۔ اسے سمجھائیں کہ وہ اپنی نوکری چھوڑ دے، جسٹس صاحب کی بچت ہوجائے گی۔ میں نے حسب وعدہ ارسلان افتخار کو ساری بات بتائی اور اس نے جب مجھ سے رائے طلب کی تو میں نے اسے کہا کہ اسی میڈیا پرسنیلٹی سے مشورہ کرلیتے ہیں جس نے تم سے متعارف کروایا تھا۔ ارسلان افتخار نہ مانا۔ افتخار چودھری کے خلاف صدر مشرف ریفرنس لے آئے اور استعفیٰ کا مطالبہ کردیا۔ جس دن افتخار چودھری صاحب کو ایوان صدر طلب کرکے ان سے سٹیپ ڈائون ہونے کو کہا گیا وہ واقعات کسی تھرلنگ فلم کی کہانی لگتے ہیں۔ کچھ باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ جب افتخار چودھری ایوان صدر کی جانب روانہ ہورہے تھے تو انہیں بالواسطہ طور پر رابطہ کرکے بتادیا گیا تھا کہ ٹاپ جنرل آپ کے ساتھ کیا کرنے جارہا ہے اور آپ نے کیا کرنا ہے۔ افتخار چودھری جب چیف جسٹس پاکستان تھے تو جنرل مشرف کے ایک قریبی دوست جو ایک ایجنسی کے سربراہ تھے اکثر چیف صاحب کے چیمبر میں آکر بے تکلفانہ چائے بناتے اور افتخار چودھری کے ساتھ شیئر کیا کرتے تھے۔ افتخار چودھری صاحب بہت حیران ہوئے جب وہی صاحب اس گیٹ ٹوگیدر کا حصہ تھے جو اُن کے استعفیٰ مانگ رہا تھا۔ بلکہ وہ صاحب سب سے زیادہ پیش پیش تھے۔ جب عدلیہ تحریک چل رہی تھی تو افتخار چودھری اپنے بعض دوستوں کو بتایا کرتے تھے کہ اس سارے جھمگٹے میں جو استعفیٰ مانگ رہا تھا صرف ایک شخصیت ایسی تھی جس کا نرم رویہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ اس شخصیت نے مجھے ریلیکس رہنے کا مشورہ دیا، حوصلہ دیا اور یہ بھی کہا کہ اگر آپ ایسا نہیں چاہتے تو کوئی بات نہیں۔ پاور پلے کے رازوں کے امین یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ شخصیت امریکہ کے ایما پر افتخار چودھری صاحب کی حوصلہ افزائی کر رہی تھی کہ جنرل مشرف قوت کے ٹاپ فلور سے ذرا نیچے آجائیں۔ مگر یہ انکار، مشہور زمانہ انکار طے شدہ سکرپٹ سے آگے نکل گیا۔ پھر اسے سیاستدانوں نے بھی Own کرلیا۔ مگر محترمہ بے نظیر بھٹو کا ایک جملہ آج بھی یاد آتا ہے ’’افتخار چودھری صاحب سے کہئے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت بنالیں‘‘۔ وکلاء برادری ایک پریشر گروپ تھا۔ 2007ء سے 2009ء کے واقعات نے اسے اور بھی مؤثر بنادیا۔ مگر پریشر گروپ اور سیاسی جماعت میں فرق ہوتا ہے۔ اگر مؤثر گروہ سیاسی عزائم پالنے لگے تو بات بنتی نہیں… بات بگڑ جاتی ہے۔ افتخار چودھری وکلاء تحریک کے دوران سے ہی سیاسی ہوتے چلے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ محترمہ کو یہ جملہ کہنا پڑا۔ افتخار چودھری کیوں بحال ہوئے۔ ان کی بحالی میں وکلاء نے، سیاسی جماعتوں نے اور دیگر قوتوں نے کیا کردار ادا کیا؟ ایک کتاب کا موضوع ہے۔ مگر افتخار چودھری بحال ہوکر سر تا پا پولیٹیکل ہوگئے۔ وہ پیپلز پارٹی کو مسلسل ہٹ کرتے رہے اور صلے کی تمنا بڑے میاں صاحب سے رکھتے رہے۔ بڑے میاں صاحب بڑے کائیاں تھے۔ وہ فاروق لغاری سے جان چھڑانے پر اللہ کا شکر ادا کرتے رہے۔ بھلا وہ افتخار چودھری کو کیونکر اس ملک کا صدر بنادیتے۔ جب افتخار چودھری بحال ہوگئے، ملک ریاض نے ارسلان افتخار پر الزامات عائد کیے تو اعتزاز احسن کا آئیڈیل ازم بھی پارہ پارہ ہوگیا۔