یہ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ کتاب اٹھانا، کسی کے ناز اٹھانے سے کہیں زیادہ خوشگوار عمل ہے۔ مَیں نے کہیں لکھا تھا کہ آج تک دنیا میں جتنے بھی ذائقے چکھے ہیں، اُن میں کتاب کا ذائقہ سب سے منفرد اور دائمی ہے۔ یہ مجھ پر میرے اللہ کا کرم نہیں تو کیا ہے کہ اس نے میرا رزق بھی کتاب پڑھنے اور کتاب پڑھانے سے منسلک کر دیا۔ یہی وجہ ہے مجھے کام کبھی مشقت محسوس نہیں ہوا، بلکہ لطافت میں دُھلی ہوئی ، ظرافت میں نہائی ہوئی تفریح محسوس ہوتی ہے۔ دنیا میں کتنے ہی بڑے دانشور گزرے ہیں جنھوں نے زندگی میں کتاب اور سمندر کے کنارے کے علاوہ کسی چیز کی خواہش ہی نہیں کی۔مشتاق احمد یوسفی نے کہا تھا کہ جو وقت دوستوں کے ساتھ پہاڑ پر گزرے، عمر سے منہا نہیں ہوتا ۔میرا دعویٰ ہے کہ جو وقت اچھی کتاب کے ساتھ گزرے زندگی کے اکاؤنٹ میں خوشگواریت کے بونس کے ساتھ جمع ہو جاتا ہے۔ میری جیب میں زندگی کی دیگر تعیشات کے لیے پیسے ہوں نہ ہوں، کسی خفیہ پاکٹ میں اچھی کتاب کے لیے رقم ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔اس سے بھی بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ ہر ہفتے دائیں بائیں سے میری ذہنی غذا کے مطابق کتب ضرور اکٹھی ہو جاتی ہیں، جن کا مَیں دائیں بائیں کے روایتی تعصب کے بغیر مطالعہ کرتا ہوں، نہ صرف مطالعہ کرتا ہوں بلکہ اس کارِ خیر کا احباب کی اس چوپال میں تذکرہ بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ گزشتہ دنوں میں جو کتب موصول ہوئی ہیں ان میں دو نہایت وقیع بائیو گرافیز ہیں۔ بائیوگرافی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اگر انجیوگرافی سے پہلے آ جائے تو انجیوگرافر ہاتھ مَلتا رہ جاتا ہے۔ بائیوگرافی کا مطالعہ تو کسی شخصیت کی تجربات و حادثات سے لبالب ستر اَسّی سالہ تلخ و تُرش زندگی کو چند دنوں میں ڈیک لگا کے پی جانے کا عمل ہے۔ یہ ادب کی واحد صنفِ سخن ہے، جس میں قاری ہمیشہ فائدے میں رہتا ہے۔ پہلی دل پذیر سوانح پاکستان کے سابق چیف جسٹس جناب ارشاد حسن خان کی ’’ارشاد نامہ‘‘ ہے، جو پاکستانی عدلیہ اور ملکی سیاست کی چشم دید اور چشم کُشا داستان ہے اور جسے اُسی فیروز سنز نے پورے اہتمام کے ساتھ شایع کیا ہے کہ جہاں سے نوجوان ارشاد حسن خان نے بطور ریشپنسٹ عملی زندگی کا آغاز کیا تھا۔کتاب کا اندر باہر کا حسن ایسا کہ ہم برملا کہہ سکتے ہیں : کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے مزاح نگاروں میں ابنِ انشا مجھے اس لیے زیادہ اچھے لگتے ہیں کہ ان کا دیہاتی پس منظر بالکل مجھ سے ملتا جلتا ہے۔ جسٹس صاحب کی ہڈ بیتی پڑھ کے اندازہ ہوا کہ ان کے ساتھ نہ صرف میری یتیمی میچ کرتی ہے بلکہ جسٹس صاحب سے کئی دیگر مماثلتیں بھی ہیں: مثلاً یہ کہ دونوں پورے دل سے توحید پسند ہیں، سیلف میڈ ہیں،یوسفی دونوں کا فیورٹ ہے، دونوں کو خاص مواقع پہ اونچی ایڑی کے جوتوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، دونوں خود کو اب تک جوان سمجھتے ہیں۔ مزید یہ کہ جسٹس صاحب اس وقت چوراسی سال کے ہیں اور مَیں چوراسی کا ہونے کا شدید متمنی ہوں۔ کسی بھی مرد غالب معاشرے میں چھُٹپنے ہی میں والد سے محروم ہو جانا زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہے اور شاید ایسے عالم ہی کو ’’پیغمبری وقت‘‘ کہا جاتا ہے۔ جسٹس ارشاد حسن خان صاحب کا ایسے کڑے حالات سے گزر کر ملک کے نہایت کلیدی عہدے تک پہنچنا یقینا کسی معجزے سے کم نہیں۔ اس سے بھی بڑی بات یہ کہ کوئی ایسا منصب کہ جہاں آپ کا ذرا سا فیصلہ ملک کی تقدیر اور تاریخ کا رُخ موڑنے کا سبب بن سکتا ہو اور معاملہ بقول شاعرِ مشرق ’رائی زورِ خودی سے پربت،پربت ضعفِ خودی سے رائی‘والا ہو،وہاں سے توازن اور تدبر کے ساتھ گزر جانا بھی کسی کرامت سے کم نہیں۔انصاف کا ترازو ہاتھ میں لے کے کوئی کڑا اور بڑا فیصلہ کرنا تو اندھیروں میں چراغ روشن کرنے کے مترادف ہے۔ محترم جسٹس ارشاد حسن خاں کی یہ تصنیف بہت سے دلچسپ واقعات سے بھی مزین ہے۔ خاص طور پہ جنرل ضیاء الحق کا جسٹس صاحب کے ذریعے شریف الدین پیرزادہ کی دوسری شادی کی بابت یہ پوچھنا کہ وہ دو دو ایک ساتھ کیسے چلا رہا ہے؟ اور پیرزادہ صاحب کا یہ جواب دینا: جیسے جنرل صاحب ایک ہی وقت میں روس اور امریکا کو ہینڈل کر رہے ہیں!! دوسرے نمبر پہ ملنے والی دلچسپ اور دل گداز آپ بیتی جماعت اسلامی کے رہنماجناب فرید احمد پراچہ کی ’’ عمرِرواں‘‘ ہے۔ پراچہ صاحب یقینا تربیت و تجربات میں گُندھی ہوئی شخصیت ہیں۔ ان کی یہ خود نوشت دو ڈھائی سو عنوانات تک پھیلی ہوئی ہے۔ان کی وسیع الظرفی کا ا ندازہ کتاب کے انتساب ہی سے ہو جاتا ہے، جو مولانا مودودی ؒ سے شروع ہو کے ابا جی، اماں جی اور دونوں ازواج سے ہوتا ہوا تقریباً تمام زندہ و مردہ اعزہ و احباب تک محیط ہے۔ حکیم جی کے بقول تو اس کا عنوان ’انتساب‘ کی بجائے ’ایصالِ انتساب‘ ہونا چاہیے تھا۔ حکیم جی مزید فرماتے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی میں ہم اجتماعی دعا، اجتماعی ناشتہ اور اجتماعی بائیکاٹ کی اصطلاحات تو سنا کرتے تھے، چلیں اچھا ہوا پراچہ صاحب نے اجتماعی انتساب کی رِیت بھی ڈال دی ہے۔ فرید احمد پراچہ صاحب کی یہ سوانح تقریباً چار سو تحریری صفحات اور بے شمار رنگین تصاویر (صرف رنگوں کی حد تک رنگین) سے عبارت ہے۔ موضوعات کے تنوع کا یہ عالم ہے کہ ریچھ کتے کی لڑائی سے سیاسی ایوانوں کی کارروائی تک، قادیانیوں سے شادمانیوں تک، ہلکی پھلکی شرارتوں سے بھاری بھرکم وزارتوں تک، دلچسپ واقعات سے رومانی واردات تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کتاب کے ورق ورق سے جھانکتی پراچہ صاحب کی جاذب شخصیت، شاعرانہ مزاج اور پنجاب یونیورسٹی کے رنگین ماحول سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر وہ بعض ازلی مجبوریوں کی بنا پر کچی عمر ہی میں جماعت اسلامی کو پیارے نہ ہو چکے ہوتے تو یونیورسٹی میں ان کا ’’بَلّے بَلّے وئی ٹوہر پراچے دی‘‘ سے شروع ہونے والا دلکش سفر نہایت آسانی سے ’’پِچھے پِچھے آؤندا میری ٹور ویہندا آئیں‘‘ تک جا سکتا تھا۔ اس ہفتے کی تیسری کتاب لندن میں مقیم جناب طاہر جمیل نورانی کی ’’ولایت نامہ‘‘ ہے، جو ان کی سو کے قریب ہلکے پھلکے انداز میں لکھی تحریروں کا مجموعہ ہے۔ کتاب کے پہلے تیس صفحات ایک درجن لوگوں کی آرا مبارک بادوں اور فرمائشوں پر مشتمل ہیں۔ بیشتر تحریروں میں برطانیہ اور بالخصوص لندن کی رنگا رنگ زندگی کے مزے لیتے ہوئے وطنِ عزیز کو شدت سے یاد کرنے کی ادا ہے۔ سیاست دانوں کی لُوٹ مار اور اُ ردو زبان کی ناقدری پر ہر سچے پاکستانی کی طرح ان کا دل دُکھتا ہے، فرماتے ہیں: ’’افسوس تو اس بات کا ہے کہ اب تک جتنے بھی حکمران مسلط کیے گئے، تمام نے پانی لندن کا،شاپنگ ہیرڈز سے، دلوں اور ہڈیوں کی پیوند کاری ہارلے سٹریٹ سے،رہائش گاہیں پارک لین، الفورڈ اور دیگر مہنگے علاقوں میں اور قومی دولت کو سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں جمع کروانے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی لیکن اُردو کو قائد کے وژن کے مطابق صحیح معنوں میں قومی زبان بنانے کا عہد کوئی حکمران پورا نہیں کر پایا۔‘‘