دو سال پہلے انہی صفحات پر اپنے قارئین سے سوال کیا تھا: کیا آپ نے ارطغرل دیکھا ہے؟ دو سال بعد آج آپ سے پوچھنا چاہ رہا ہوں : کیا آپ ’’ اُویا نس بیوک سیل چکلو‘‘ Awakening the Great Seljuc دیکھ رہے ہیں؟ ارطغرل پر فروری 2019 میں یہ کالم چھپا تو دوستوں کا رد عمل دلچسپ تھا۔بعض کا خیال تھا قدیم زمانوں اور سورڈ فائٹ کو فلمانا ہالی وڈ کے علاوہ کسی اور کے بس کی بات نہیں اس لیے کسی ترک ڈرامے پر وقت ضائع نہیں کیا جا سکتا ۔ کچھ احباب کا خیال تھا کالم میں ڈرامے کی غیر ضروری تعریف کی گئی ہے اور یہ مسلمانوں کی اپنے ماضی میں فرار کی ایک کوشش ہے جو خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ چند دوست ایسے تھے جن کا خیال تھا ان کی زندگی بہت مصروف ہے اور وہ ایک ایسے ڈرامے میں وقت برباد نہیں کر سکتے جس کی ایک قسط دو گھنٹے کی ہو اور جو ایک یا دو نہیں پورے پانچ سیزن پر مشتمل ہو۔ سب دوستوں کو میں نے ایک ہی جواب دیا تھا: دو قسطیں میرے کہنے پر دیکھ لیں ، اس کے بعد چھوڑ سکیں تو چھوڑ دیجیے گا۔کچھ اہل علم تھے ، کچھ یخ بستہ مزاج کے سفارتکار تھے ، کچھ ریٹائرڈ افسران تھے اور کچھ میرے جیسے طالب علم ، دو قسطیں مگر جس نے دیکھیں اس نے پھر پانچ سیزن پورے کر کے ہی دم لیا۔ سال بعد جب اسے پی ٹی وی پر نشر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو عرض کی کہ اب کھلونوں کا ذوق بدلنے جا رہا ہے۔ بندوق اور پستول اب قصہ پارینہ ہوئے ، اب بچے ہوں گے ا ور تیر تلوار ، اس لیے کاروباری حضرات اپنے اپنے مقامی وقت کے مطابق تیر تلوار کے کھلونے تیار کروا لیں۔وہی ہوا، آج سب سے زیادہ ڈیمانڈ تلوار ، خنجر اور تیر کمان کی ہے۔ بچوں کی تو بات ہی کیا اب بڑے بھی اس کے سحر میں ہیں اور فیس بک ہماری بہن اسری غوری کے قائی تحائف کے تذکروں سے آباد ہوئی پڑی ہے ۔ لوگ آن لائن بزنس کر رہے ہیں ۔اگلے روز ایک صاحب بتا نے لگے وہ اسلام آباد کے ایک معروف شاپنگ مال میں ’’ قائی شاپ‘‘ بنانا چاہتے ہیں جہاں قائی قبیلے کی ہر چیز ستیاب ہو گی۔ انہیں اچھے سے نام کی تلاش تھی ۔عرض کی ’’ قائی قبیلہ‘‘ ہی نام رکھ لیجیے۔نام انہیں پسند آیا۔ا ب دیکھتے ہیں یہ قیام گاہ کب تک آباد ہو تی ہے۔ پی ٹی وی نے ارطغرل کو گھر گھر کی کہانی بنا دیا ہے۔کل میں بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ میرا چھ سالہ بیٹا علی پریشانی میں آکر کہنے لگا : بابا ایک پرابلم ہے ۔ کیا پرابلم ہے؟ بابا وہ نویان کو قبیلے نے پکڑ لیا ہے لیکن کوپیک نے آکر کہا ہے سلطان علاو الدین کا حکم ہے اسے چھوڑ دیا جائے۔ تو پھر؟ تو بابا سلطان علاو الدین کو خط لکھ کر پوچھ لینا چاہیے کہ کیا اس نے یہ حکم دیا ہے۔مجھے لگتا ہے کوپیک جھوٹ بول رہا ہے۔ میں نے کہا آپ جا کر کھیلیں کچھ نہیں ہوتا تو وہ کہنے لگا بابا آج اگلی قسط آنی ہے اور سلطان علاوالدین کو خط نہ لکھا گیا تو کوپیک نے نویان کو چھڑوا لینا ہے۔ دیکھ لینا آپ۔ علی کی یہ بے ساختگی دیکھی تو والدہ یاد آ گئیں۔ڈیڑھ سال پہلے انہیں کہا ارطغرل دیکھ لیا کریں وقت اچھا کٹ جائے گا تو ان کا رد عمل بھی کچھ ایسا ہی تھا کہ اس عمر میں اب ڈرامے دیکھتی پھروں۔اب مگر معاملہ مختلف ہے۔ اب وہ بامسی بے کی مداح ہیں اور ان کی پریشانی یہ ہے کہ پی ٹی وی یہ ڈرامہ پوراہفتہ کیوں نہیں دکھاتا۔ان کے خیال میں عمران خان کو اس پر غور کرنا چاہیے ۔ یہ کیا قصہ ہے کہ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے ، سب ارطغرل کے اسیر ہوئے؟اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔اس نے مسلم سماج میں پر مسلط عشروں کی مرعوبیت کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔اس نے مسلم تہذیب کے رنگوں سے وابستگی کو عزت دی ہے۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے یہ سب کچھ پروڈکشن اور ڈرامہ آرٹ کے مروجہ معیار کی بلندی کو چھوتے ہوئے کیا ہے۔دنیا بھر کے مسلم معاشروں میں کم از کم تین نسلوں کو اس ڈرامے نے متاثر کیا ہے ۔اس کے اثرات غیر معمولی ہیں۔ کرلوس عثمان اگر چہ اسی کا تسلسل ہے لیکن اس کے سیزن ون نے مایوس کیا ہے۔ دوسرے سیزن کی پہلی قسط بھی مایوس کن تھی۔ البتہ اب محسوس ہو رہا ہے کہ ڈرامہ مستحکم ہو رہا ہے اور بتدریج بہتری کی طرف گامزن ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ارطغرل جیسے شاہکار کے بعد کسی اور ڈرامے کے لیے اپنا رنگ جمانا ممکن ہی نہیں تھا ورنہ کرلوس عثمان بھی اتنا برا ڈرامہ نہ تھا۔ اسے ہم نے ارطغرل سے پہلے دیکھا ہوتا تو اچھا لگتا۔ ارطغرل کے بعد اب وہی ڈرامہ اچھا لگے گا جو ارطغرل کے معیار کا ہو یا اس سے بہتر ہو۔ اس سے کم تر کوئی چیز اب نظروں میں نہیں جچے گی۔ کرلوس عثمان کا پورا سیزن جہاں رنگ نہیں جما سکا وہیں ایک اورترک ڈرامے نے ناظرین کو اپنے سحر میں لے لیا ہے ۔اس کی ابھی پانچ اقساط ہی آئی ہیں لیکن اس نے اپنا آپ منوا لیا ہے۔ یہ ’’ اُویا نس بیوک سیل چکلو‘‘ Awakening the Great Seljucہے۔ اگر آپ بریو ہاٹ ، پیٹریاٹ ، وائیکنگز جیسی چیزوں کو پسند کرتے ہیں تو یہ ڈرامہ آپ کے ذوق کی تسکین کر سکتا ہے۔اس کی کہانی اور اداکاری کا معیار غضب کا ہے۔ اگر آپ نے Magnificent Century دیکھ رکھا ہے تو جان لیجیے کہ وہی سسپنس اور وہی معیار یہاں آپ کو ملے گا۔ Magnificent Century کا مسئلہ یہ تھا کہ اس کا بڑا حصہ حرم کی سازشوں پر مشتمل تھا اور وہ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ ’’ اُویا نس بیوک سیل چکلو‘‘ کا اضافی حسن یہ ہے کہ یہ فی الوقت ارطغرل کی طرح ایک مکمل فیملی ڈرامہ محسوس ہو رہا ہے جو اپنے پلاٹ اور اداکاری کے اعتبار سے انتہائی اعلی درجے کی چیز ہے۔Magnificent Century کی ایک خوبی یہ تھی کہ لمحہ بھر کو بھی اگر کوئی منظر دکھایا جاتا ہے تو اس کی ایک معنویت ہوتی ہے۔ یہی معنویت یہاں بھی ملتی ہے۔اس ڈرامے میں کرلوس عثمان کی طرح غیر ضروری اور طویل مناظر نہیں ڈالے گئے۔ایک لمحے کو بھی کوئی چیز آتی ہے تو اس کی اپنی مقصدیت ہوتی ہے۔ ارطغرل کی آخری قسط دیکھ کر بیٹھا تھا تو دویار دل سے اداسی آن لپٹی تھی کہ اب کیا دیکھیں گے؟ اس کا جواب ’’ اُویا نس بیوک سیل چکلو‘‘ہے۔ تو جناب کیاآپ ’’ اُویا نس بیوک سیل چکلو‘‘دیکھ رہے ہیں؟ ٭٭٭٭٭