ارطغرل پر ہونے والی تنقید کا دلیل اور ادب کی دنیا میں کیا کوئی اعتبار ہے؟ آئیے ناقدین کے اٹھائے گئے اعتراضات کی روشنی میں اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ ارطغرل پر پہلا اعتراض یہ ہے کہ یہ ایک غیر مقامی ڈرامہ ہے جب کہ ہمیں اپنے مقامی ہیروز اور مقامی کلچر کو فروغ دینا چاہیے۔پاکستانی کلچر کے لیے نومولود پاکستانیوں کی یہ وارفتگی آدمی کو گدگدا دیتی ہے۔یہی حضرات تھے جو کل تک ہمیں بتاتے تھے کہ آرٹ کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور ہم گلوبل ولیج کے شہری اور گلوبل فیملی کا حصہ ہیں۔مغربی تہذیب کے ویلنتائن ڈے اور ہیلووین جیسے مظاہر پر جب تنقید ہوتی تھی یہ سمجھانے آ جاتے تھے کہ مقامی سوچ سے نکل کر تھوڑے گلوبل ہوجائیے صاحب۔ اب اسی گلوبل ولیج کے ایک محلے سے ایک ڈرامہ آیا ہے تو تو احباب ’’ انتہائی مقامی‘‘ ہو گئے ہیں اور انہیں پاکستانی کلچر اور مقامی ہیروز کی یاد ستانے لگ گئی ہے۔ کبھی آپ نے سوچا یہ’ عالمی ادب سے انتخاب ‘کی اتنی پزیرائی کیوں ہوتی ہے؟ پائلو کوہلو کی الکیمسٹ دنیا بھر مین درجنوں زبانوں میں ترجمے کے ساتھ کیوںفروخت ہوئی؟آرول کا اینیمل فارم دنیا بھر میں شوق سے کیوں پڑھا جاتا ہے؟ گبریل گارشیا مارکیز، کافکا ، دوستو فسکی جیسے لکھاری دنیا بھر میں کیوں مقبول ہوئے؟کیا کبھی ہم نے کہا کہ ہم کیٹس کو نہیں پڑھیں گے ہمارے لیے منیر نیازی کافی ہے ؟ادب اور آرٹ میں ایک آفاقی اپیل ہوتی ہے اور وہ سب کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔یہ ایک ارطغرل کے آنے پر ہی ہماری گلوبل سوچ کو تپ دق ، تشنج ، خسرہ ، کالی کھانسی اور دیگر مہلک بیماریاں کیوں لاحق ہو گئی ہیں؟مغربی تہذیب کے ہر رنگ کو تو گلوبل ولیج کی قوس قزح سمجھا جاتا ہے ، ترکی کا ایک ڈرامہ رنگوں کی وحشت کیسے ہو گیا؟ ارطغرل پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ یہ حقیقت سے دور ایک فرضی کہانی ہے۔سوال یہ ہے کہ ڈرامہ ہوتا کیا ہے؟ ڈرامہ نام ہی حسن تخیل کا ہے۔ افلاطون نے اس تخیل کو Twice removed from reality قرار دیا تھا۔ڈرامہ انسائیکلو پیڈیا نہیں ہوتا۔ یہ کسی کردار کو لے کر حسن تخیل سے مجسم کر دینے کا نام ہوتا ہے۔ہالی وڈ نے جو ’’ ایئر فورس ون ‘‘ بنائی تھی جس میں امریکی صدر کا جہاز ہائی جیک ہو جاتا ہے اور پھر اکیلے صدر محترم کسی ٹارزن کی طرح دہشت گردوں سے لڑتے ہیں، کیا یہ حقیقت تھی؟ کیا سچ میں یہ جہاز ہائی جیک ہوا تھا اور صدر ذی وقار سپر مین کی طرح بروئے کار آئے تھے؟ارطغرل تو بہر حال ایک کردار تھا۔ اس سے جڑے حسن تخیل کو آپ غیر حقیقی کہہ لیجیے لیکن اس حقیقت سے آپ کیسے انکار کریں گے کہ قائی قبیلے نے صدیوں دنیا پر راج کیا تھا اور مغرب سے آنے والے سفیر قائی قبیلے کے بادشاہ کو ’’ شہنشاہ عالم‘‘ کہہ کر عرضیاں پیش کیا کرتے تھے۔ ارطغرل پر ہونے والا تیسرا اعتراض یہ ہے کہ اس میں خواتین کے جھگڑے اور سازشیں بہت ہیں جسے دیکھنا ہمارے ان ’’مردان کار‘‘ کی مردانگی کی توہین ہے۔یہ اعتراض بڑا ہی دلچسپ ہے ، اسے روشن خیالی کا الٹرا سائونڈ ہی سمجھیے ۔حقوق نسواں کے پرچم لہرانے والوں اور عورت کی برابری کے دیوان لکھنے والوں کو یہ برداشت نہیں ہو پا رہا ہے کہ قائی قبیلے کے نظم اجتماعی میں عورت کا کردار اتنا غیر معمولی کیوں ہے۔ ارطغرل میں خواتین کی کشمکش پاکستان کے بے ہودہ ڈراموں کی طرح ساس بہو کے جھگڑوں پر مشتمل نہیں ہے ، یہ کشمکش اجتماعی نظم میں عورت کے کردار کے حوالے سے ہے۔ حائمہ ایک پورے قبیلے کی سرداری کرتی ہیں اور جرگوں میں بیٹھتی ہیں ،اصلحان اپنے قبیلے کی سردار ہے۔یہ ایک قدیم مسلم تہذیب میں عورت کا کردارہے۔آپ ہی بتائیے اس کی تحسین ہونی چاہیے یا اس پر تنقید ہونی چاہیے؟ چوتھا اعتراض یہ ہے کہ اس ڈرامے کے کردار اپنی حقیقی زندگی میں بہت مختلف ہیں۔ ناقدین اگر غور فرمائیں تو انہیں معلوم ہو کہ یہ تو ان اداکاروں کی اداکاری کا کمال ہے کہ انہوں نے اپنے دیکھنے والوں کو یوں گرفت میں لے لیا ہے کہ اب ان کی نظروں میں کچھ اور جچتا ہی نہیں۔کسی اداکار کو اگر لوگ ڈرامے میں اس کے کردار کے علاوہ کسی رنگ میں قبول نہ کریں تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اس کا مطلب ہوتا اس نے اداکاری میں کمال کر دیا۔ ویسے کیا ہالی وڈ کے اداکار اپنی حقیقی زندگی میں بھی ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے فلموں میں کمالات دکھا رہے ہوتے ہیں؟تنقید ضرور کیجیے لیکن اس سے پہلے اداکاری اور ڈارمہ آرٹ کے بارے میں اپنی کم علمی کا ازالہ فرما لیجیے۔ ارطغرل پر پانچواں اعتراض یہ ہے کہ اس میں ترک قوم پرستی نمایاں ہے۔ یہ بھی بے بنیاد اعتراض ہے۔ عرب قوم پرستی کے جواب میں ترک قوم پرستی وہ تھی وہ اتا ترک نے اختیار کی تھی۔عرب اقوام کے پرچموں میں آج بھی وہ قوم پرستی موجود ہے اور ان کے پرچم آج بھی وہی ہیں جو عرب بغاوت کے ایام میں تھے۔ارطغرل میں ترک قوم کی شناخت ضرور ہے مگر یہ قوم پرستی نہیں۔ غالب پہچان اسلام ہے اور ترکوں کا اظہار تفاخر ترک مسلمانوں کا ہے ۔ ویسے کیا ہالی وڈ کی فلموں میں امریکہ اور امریکی افواج کے قصیدے بیان نہیں کیے جاتے؟ کیا کبھی اس قوم پرستی پر بھی کسی نے تنقید کی؟ اطغرل پر چھٹا اعتراض یہ ہے کہ اس ڈرامے سے تشدد اور انتہا پسندی پھیلے گی؟ تو کیا ہالی وڈ کی’’ وار موویز ‘‘ کا تعلق پرفارمنگ آرٹ سے ہے اور وہ لوگوں کو رقص کی تربیت دینے کے لیے تیار کی جاتی ہیں؟تیر اور تلوار سے آپ کو تشدد نظر آنے لگا ہے تو ہالی وڈ کی پلاٹون ، انگلوریس باسٹرڈز، بلیک ہاک دائون اور بی ہائنڈ دی اینیمی لائنز جیسی فلمیں آپ کو راگ اور رقص سے لطف اندوز کرنے کے لیے بنائی گئیں؟ذراکارل بوگس کی ہالی وڈ وار مشین تو پڑھ کر دیکھیے۔وحشت ، تشدد ، قتل ، اور جنگی جنون کے فروغ میں ہالی وڈ کا کوئی مقابل دور دور تک نظر آجائے تو بتائیے گا۔ اعتراضات ابھی باقی ہیں اور اپنا ترکش بھی خالی نہیں۔ کالم کی تنگنائے البتہ کہہ رہے رہی ہے کہ آج اتنا ہی کافی ہے۔غزل البتہ باقی ہے۔ مقطع کسی دن پر اٹھا رکھتے ہیں۔