خیال حلقہ زنجیر سے عدالت کھینچ عذاب بار نفس ہے تو پھر ندامت کھینچ ہوائے حرص و ہوس سے نکل کے دیکھ ذرا ضمیر رشتہ احساس سے ندامت کھینچ نادم بھی اب کون ہوتا ہے یہ ملال بھی تہذیب کی ایک شکل ہے کبھی تھا کہ ہمارے وزیر اعظم جب عمران خان ہوا کرتے تھے شرما جاتے تھے، وقت سارے حجاب اٹھا دیتا ہے وہ بھولا پن معصومیت اور انجانا پن ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے ایک بات میں کرتا چلوں کہ میں شاعر ہوں اور اچھے شعر پر تو کیا اچھی نثر پر بھی داد دیتا ہوں صوت و آہنگ مجھے کھینچتے ہیں۔ ارشاد بھٹی نے ایک پروگرام کا آغاز کیا تو اس کا ابتدائیہ اچھا لگا۔ جیسے وہ مجھے بلا رہے ہوں کہ غزل میں نے چھیڑی ذرا ساز دینا۔ انہوں نے اپنے مہمان خاص کو بلانے سے پہلے فرمایا اب آتے ہیں میرے مہمان وہ جو ہیں یورپی ماڈل کے ثنا خواں امریکہ اور برطانیہ کے میر کارواں‘ چینی ماڈل کے نغمہ خواں ترکی انداز کے مدح خواں اور خلائی ریاست کے وعدہ خواں ظاہر اس کے ساتھ قافیہ خاں ہی آئے گا یہ قافیہ آرائی صرف خوبصورتی ہی نہیں نفس مضمون کو بھی اجاگر کرتی ہے: کچھ نہ کہتا قسم ہے لفظوں کی صرف ہوتا جو قافیہ رکھتا جائیں تو جائیں کہاں کہ ہم سب اس وقت خاں صاحب کے حصار میں ہیں بلکہ یوں کہیں کہ ہم محصور ہیں۔ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ ہم پر کبھی بجلی گرائی جا رہی ہے اور کہیں پٹرول کو آگ دکھائی جا رہی ہے لوگ دہائیاں دے رہے ہیں، چیخ رہے ہیں اور سراپا احتجاج ہیں مگر جناب ٹس سے مس نہیں ہو رہے پہلے تو وہ بات بات پر گھبرانا نہیں کہہ کر ہمیں تسلی دیا کرتے تھے اور اب اپنے آپ کو تسلیاں دے رہے ہیں کہ حکومت اور ادارے دبائو میں نہیں آئیں گے ہر طرف ایک کے آس چوائس ہے۔ واقعتاً لوگوں کی آس ٹوٹ رہی ہے: آرام کا نہ سوچ تو جب تک کہ سانس ہے ایک دن اتر ہی جائے گی تیری تھکن تمام عوام کی بدبختی دیکھیں کہ ان کا خون نچوڑ کر کس کو پلایا جا رہا ہے۔ کس بے دردی سے کیس ہار کر اربوں روپے جرمانے ادا کئے جا رہے ہیں اور بہت جلد کھلنے والا ہے کہ یہ سب کچھ بھی کھانے کا ایک انداز تھا۔ پہلے براڈشیٹ نے کھایا اور انکوائری کے نام پر کیا کچھ ہو گاسب جانتے ہیں سب نے کمیٹیاں ڈال رکھی ہیں۔ مجھے جرمانے سے بہت ہی دلچسپ واقعہ یاد آ گیا کہ خالد احمد اور میں ابوظہبی میں جا رہے تھے خالد احمد نے سگریٹ کا ٹوٹہ شیشے سے باہر پھینک دیا ٹیکسی والے نے ٹیکسی روک لی اور کہا جناب اس پر 800درہم جرمانہ ہو سکتا ہے۔ آپ نے یہ کیا کیا؟ میں نے خالد احمد سے کہا حضور جانے دیں آپ ٹوٹے پاس ہی رکھیں ہمیں دوچار ٹوٹوں کے برابر ہی مشاعرے سے پیسے ملے ہیں تو جناب ایسے ہی لگتا ہے کہ ہمارا سارا سرمایہ انہی جرمانوں کی نظر ہو جائے گا ان جرمانوں کی تفصیل نہیں لکھی جا سکتی ہم یہ سخاوت جاری رکھیں گے۔ اظہار شاہین نے کہا تھا: میں نے آج اس قدر سخاوت کی آخری شخص لے گیا مجھ کو اس قضیے کو چھوڑتے ہیں اور اپنے لاہور کی بات کرتے ہیں کہ جہاں دوست ہماری توجہ کچرے کی طرف دلا رہے ہیں۔ بادش بخیر خاں صاحب اور ان کی پارٹی تو دو پارٹیوں کا ڈالا ہوا گند صاف کرنے آئے تھے افسوس صد افسوس کہ ہم تو بزدار صاحب کے بیانات پر ہی یقین کرتے رہے مگر یہ تعفن سے پتہ چلا کہ صفائی کرنے والے تو پدھار گئے۔ سعدیہ قریشی نے درست لکھا کہ لاہور کی سڑکوں پر کوڑے کے ڈھیر تحریک انصاف کی انتظامی ناکامی سے اٹھنے والے تعفن کی نشانی ہیں۔ پتہ چلا ہے ہے کہ لاہور پولیس کی سرپرستی میں لاہور ویسٹ مینجمنٹ کے اہلکاروں نے ترک کمپنی کے ورکشاپوں پر حملہ کر کے ان کی مشین اور سازو سامان لوٹ لیا اور ان کے آفشلز کے ساتھ انتہائی بدتمیزی کی۔ اب ہو گا کیا کہ ایک اور مقدمہ ترکی کی طرف سے عالمی عدالت میں ہو گا اور پھر ہمیں اربوں روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ ہائے ہائے: مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے چلتے چلتے ذرا عالمی صورت حال پر بھی بات ہو جائے کہ جو بائیڈن سے ایک تعلق تو بہرحال ہمارے حکمرانوں کا نکل آیا کہ ان کی پسند میں کچھ قدر مشترک ضرور ہے۔ پتہ چلا کہ جوبائیڈن کو کتے بہت پسند ہیں اور یہ اہل مغرب کے لئے بھی کوئی نئی بات نہیں۔ ان کی خواتین تک کتوں کے ناخن تراش کر رکھتی ہیں خیر کتا پسندی میں مشرف اور خاں صاحب کا نام بھی آتا ہے آقائوں کو بھی کتے پسند ہیں ۔ بہرحال ہمیں امریکہ کے ساتھ تو نبھانی ہے۔اپنے سفیر کی بات پڑھ کر میں ہنسنے لگا کہ انہوں نے امریکہ کے ساتھ دو طرفہ مفاد کی بات کی ہے اور ساتھ ہی ضمنی بات میں سچی بات بھی کر دی کہ پاکستان کو حقیقت پر مبنی ترجیحات طے کرنا ہوں گی جو حقیقت ہے وہ تو سب جانتے ہیں جو امریکہ طے کرے گا وہ ہماری خواہش ہی ٹھہرے گی۔ ہم کیا کہہ سکتے ہیں: ہم نے جو کچھ بھی کیا اپنی محبت میں کیا گو سمجھتے ہیں زمانے کی ضرورتیں تھی لیکن یہ بات طے ہے کہ جوبائیڈن کی صورت میں لگتا ہے کہ دنیا کے لئے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے خاص طور پر مسلمانوں پر جو سفری پابندیاں تھیں وہ ختم ہو گئی ہیں اور ٹرمپ نے جو پنگے لئے ہوئے تھے وہ ختم ہو جائیں گے ٹرمپ اصل میں مسلسل کھپ کا نام تھا۔ پاکستان کے لئے حمیرا راحت کا شعر: گو انگوٹھی نہیں تھی میرے پاس پر نگینے میں تھی جڑی ہوئی میں اور آخر میں مجھے اپنی موٹر وے کے ذمہ داروں کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ میں پہلے ہی 1122اور موٹر وے ادارے کا معترف ہوں میں اپنی فیملی کے ساتھ آ رہا تھا کہ گاڑی پنکچر ہو گئی میں ٹائر بدل رہا تھا کہ ایک باریش شخص آیا اور نہایت محبت سے کہنے لگا سر آپ چھوڑ دیں۔ ہم کس لئے ہیں۔ تعارف ہوا تو وہ طارق ندیم تھے ان کے رینک کا تو مجھے معلوم نہیں مگر وہ کہنے لگے سر آپ کی خدمت کے لئے ہم جو ہیں۔ یقینا طارق ندیم جیسے اشخاص ہی نیک نامی کا باعث بنتے ہیں شکر ہے ابھی اچھے لوگ اور اچھے ادارے ہیں۔ عدیم کے شعر کے ساتھ اجازت: اس نے کہا عدیم مرا ہاتھ تھامنا چاروں طرف سے ہاتھ نمودار ہو گئے