یوم قائد اعظم کے موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے درست کہا کہ دو قومی نظریہ آج پہلے سے بڑھ کر حقیقت بن چکا ہے ،اس کے لیے قائداعظم کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے ۔ انھوں نے نوجوانوں کو تلقین کی کہ وہ قائداعظم کو اپنا رول ماڈ ل بنائیں ۔آرمی چیف نے مزار قائد پر حاضری دے کر پاکستان کے اساسی نظریے کے حوالے سے باتیں کر کے بہت اچھا کیا ۔کاش ہمارے وزیراعظم اور اپوزیشن کے لیڈر بھی اکٹھے جا کر یہی علم اٹھاتے کہ ہم نظریہ پاکستان کی روح پر عمل کر کے ملک کو قائد کے افکار کے مطابق آ گے لے کر جائیں گے ۔لیکن صدر پاکستان عارف علوی، آرمی چیف ،گورنر ،وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر تعلیم شفقت محمود کے سوا کسی صف اول کی لیڈر شپ کو مزار قائد پر حاضری دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم یوم پاکستان ،یوم آزادی اورقائداعظم کی سالگرہ پر اچھی اچھی باتیں تو کرتے ہیں لیکن یہ بیان بازی تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہیں ۔غالباً آرمی چیف کے متذکرہ ریمارکس بھارت میں مسلمانوں پر جس انداز سے زمین تنگ کی جا رہی ہے اور کشمیر میں مظالم ڈھائے جا رہے ہیں کے حوالے سے تھے ۔بھارت میں بیس کروڑ مسلمان اس وقت سخت ابتلا میں ہیں اور لوک سبھا سے حال ہی میںمنظور ہونے والے شہریت کے قانون جس کے تحت بنگلہ دیش ،پاکستان،افغانستان اورآسام سے آنے والے مسلمانوں کو بھارتی شہریت نہیں مل سکتی ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ آسام سے آنے والے ہندو تو بھارتی شہری بن سکتے ہیں لیکن مسلمانوں کو مخصوص کیمپوں میں رہنا پڑے گا ۔ یہی حال روہنگیا مسلمانوں کا ہے انھیں برما میں انتہائی قابل رحم حالت میںدیکھا جائے تو پاکستان کا قیام واقعی بہت بڑی نعمت ہے جس کی بدقسمتی سے پوری قدر نہیں کی جاتی ۔اگر پاکستان نہ بنتا تو آج وہ لوگ جو بڑھ بڑھ کر کہتے ہیں کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے یا یہ کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو مسلمانوں کی بھارت میں زیادہ طاقت ہوتی،یہ عذر لنگ ہے کیونکہ بھارت میں بیس کروڑ مسلمان کوئی کم تعداد نہیں ہے ۔ بیس کروڑ یورپ کے کسی ملک کی بھی آبادی نہیں۔ یہ بھی ستم ظریفی دیکھیں کہ بی جے پی نے حالیہ عام انتخابات میں ایک بھی مسلمان کو امیدوار نہیں بنایا۔بھارت کے بعض دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے بانی پاکستان کو بلاواسطہ طور پر منفی انداز میں یہ خراج تحسین پیش کیا کہ بھارت اب پاکستان بننے جا رہا ہے کیونکہ ان کے مطابق دوقومی نظریہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ریاست کا قیام تھا۔ ایک خاتون صحافی جو کئی بار پاکستان آ چکی ہیں اور پاکستان کے معاملات سے بخوبی باخبر ہیں نے اپنے ایک آرٹیکل میںانوکھی منطق پیش کی کہ بھارت پاکستان کی طرح ایک پاپائیت بنتا جا رہا ہے حالانکہ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جیسا بھی ہے پاکستان میں لولی لنگڑی جمہوریت ،حکومت کے دھمکی آمیز رویے کے باوجود کسی قدر آزادی صحافت ،سیاسی سرگرمیاں سب کچھ موجود ہیں اور پاپائیت کی طرح کسی ایک مذہبی طبقے کو ویٹو پاور حاصل نہیں ہے ۔ بھارت کا سیکولرازم تو ہمیشہ سے ہی ایک ڈھونگ اور منافقت پر مبنی رہا ہے ۔مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی حالت زار ہمیشہ پتلی رہی ہے۔ بہت عرصہ پہلے جب بھارت میں اندرا گاندھی کی زیر قیادت کانگریس کی حکومت تھی مجھے بھارت کے صوبے اترپردیش کے شہر الہ آباد کے مسلمان رکن صوبائی اسمبلی نے ایک ڈنر پر الگ لے جا کر کہا کہ حضور والا ! ہماری حالت تو شودروں سے بھی بدتر ہے ۔یہ بات میں نے بھارت سے واپسی پر پی ٹی وی پر ایک انٹرویو میں کہہ دی جس پر بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے متذکرہ رکن اسمبلی کی خاصی گوشمالی کی ۔ یقینا مودی سرکار نے سیکولر ہونے یا سیکولرازم کے دعوؤں کے تکلفات کے باوجود ایک کھلم کھلا مسلم کش ایجنڈے پر عمل کرنا شروع کر رکھا ہے ۔ بعض انتہا پسندوں کو یہ بھی ڈر ہے کہ اگر مسلمانوں کی آبادی میںاسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو ان کی طاقت بہت بڑھ جائے گی لہٰذا ان کے خلاف مسلم کش پالیسیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے خواہ وہ گائے کے حوالے سے ہو ، بابری مسجد ہو یا اس قسم کے دیگر ایشوز ۔ اس حد تک تو بات درست ہے کہ پاکستان ایک نعمت ہے بصورت دیگر ہم بھی برصغیر کے دیگر مسلمانوں کی طرح متعصبانہ اور نفرت انگیز پالیسیوں کا شکار ہوتے ۔مثبت انداز میں دیکھا جائے تو پاکستان مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ ثابت ہوا ہے ۔پاکستان بننے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ہم ہندو کے اقتصادی غلبے سے آزاد ہو کر مسلمانوں کو اقتصادی خوشحالی سے ہمکنار کریں لیکن گزشتہ 71برس میں تو ایسا نہیں ہو سکا ۔ امیر ،امیر تر اور غریب ،غریب تر ہوتا چلا گیا بلکہ انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ اکثر اقتصادی اور سوشل اشاریوں میں ہم جنوبی ایشیا کے قریباً تمام ممالک سے پیچھے ہیں یہ بانیان پاکستان کا مطمع نظر نہیں تھا ۔قائد اعظم اقلیتوں کے حوالے سے بہتر سلوک روا رکھنے کا فرما کر گئے تھے بالخصوص ان کی 11اگست 1947 ء کی قانون ساز اسمبلی والی تقریر میں جس میں کہا تھاکہ پاکستان میں بسنے والی اقلیتیں برابر کی شہری ہو نگی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اس سے بڑ ی ستم ظریفی کیا ہوسکتی ہے کہ امریکی دفتر خارجہ نے پاکستان کو سال 2019 ء کی امریکی انتظامیہ کی اس فہرست میں شامل رکھا ہے جہاں مذہبی آزادیوں کا فقدان ہے جبکہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی اس فہرست سے بھارت کو نکال دیا گیا ۔دفتر خا رجہ کے تر جمان نے احتجاج کرتے ہوئے واضح طور پر کہا ہے کہ پاکستان کو غلط ٹارگٹ کیا گیا ہے کیونکہ پاکستان میں مذہبی کے علاوہ یہاں سب شہریوں بشمول اقلیتوں کو آئین کے تحت دیگر آزادیاں حاصل ہیں۔ اس فہرست سے بھارت کو نکال دینا بھی امریکہ کے دوغلے پن اور منافقت کی انتہا ہے لیکن امریکہ کو برا بھلا کہنے کے بجائے ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ ایسی صورتحال کیوں ہے؟ ۔ بدقسمتی سے ماضی میں بھی پاکستان کی یہ تاریخ رہی ہے کہ ہر معاملے میں ہم یہ کہتے ہیںکہ ہم تو سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں ۔ ہمیں بھارت ، امریکہ اسرائیل اور مغرب مل کر نشانہ بنا رہے ہیں لیکن اپنے گریبان میں جھانکنے کی توفیق نہیں ہوئی ۔ آرمی چیف نے جہاں قائد اعظم کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دو قومی نظریے کی افادیت اجاگر کی وہاں قائد کی اس تقریر پر بھی غور کرنا چاہیے جو انھوں نے 14جون 1948 ء کو سٹاف کالج کوئٹہ میں کی۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ یہ بات مت بھولیں کہ افواج پاکستان عوام کے خادم ہیں۔ انہوں نے فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ قومی پالیسیاں نہیں بناتے یہ ہم سویلین ہیں جو ایسے معاملات کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں آپ کا فرض ہے کہ ایسے معاملات جو آپ کے سپرد کئے جائیں ان کی بجا آور ی لائیں ۔