سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کے جاری کردہ نئے نوٹیفکیشن کو منظور کر لیا ہے۔ سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت تعیناتی، سبکدوشی، مدت تعیناتی کو محدود کرنے یا معطل کرنے کا قانون موجود نہ ہونے کی طرف حکومت کی توجہ دلائی۔ عدالت عظمیٰ نے حکومت کو آرمی چیف کے عہدے کے متعلق تفصیلات طے کرنے کے لیے چھ ماہ میں قانون سازی کا کہا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے قبل ازیں حکومتی نوٹیفکیشن میں عدالت عظمیٰ کے بارے میں ’’ایڈوائزری رول‘‘ کے الفاظ لکھے جانے پر اعتراض کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’’آپ ہمیں اپنے کاموں کے ساتھ نتھی نہ کریں، ہمارا آپ کی سمریوں سے کوئی تعلق نہیں‘‘ اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ قانونی سقم کے باوجود آرمی چیف کے معاملے میں ریلیف دیا جائے گا اور یہ کہ حکومت تمام قانونی خامیوں کو دور کرے گی‘‘۔ 27نومبر 2019ء کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا حکومتی نوٹیفکیشن معطل کر کے جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 29نومبر کو مکمل ہو رہی تھی تا ہم وزیر اعظم عمران خان نے انہیں تین سال کی توسیع دیدی۔ اس توسیع کے خلاف ایک درخواست جیورسٹس فائونڈیشن کی طرف سے دائر کی گئی تھی۔ سماعت شروع ہونے پر درخواست گزار پیش نہ ہوئے اور درخواست واپس لینے کی استدعا کی گئی۔ عدالت نے اس استدعا کو رد کرتے ہوئے درخواست کو مفاد عامہ کا معاملہ قرار دیتے ہوئے کیس کو ازخود کارروائی میں تبدیل کر دیا۔ عدالتی عمل میں کوئی قابل اعتراض پہلو نہ تھا مگر سیاسی حساسیت کے شکار ہو چکے پاکستانی معاشرے میں اس عدالتی دلچسپی کو بعض حلقوں میں ایک سنسنی خیز صورت حال کی ابتدا کی صورت میں دیکھا جانے لگا۔ سوشل میڈیا پر الزام تراشی، من گھڑت تجزیوں اور تبدیلیوں کے متعلق جو کہا گیا اس کی طرف محترم چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ خود اشارہ کر چکے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا اور اپوزیشن نے اس خالصتاً قانونی معاملہ کو تنقید برائے تنقید کے لیے استعمال کیا۔ یہاں تک کہ جب تک یہ معاملہ سپریم کور ٹ میں زیر سماعت رہا اس وقت تک بھارتی میڈیا کی شہ سرخیوں کا موضوع بھی بنا رہا اور بظاہر یہی محسوس ہوتا تھا کہ جیسے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے میں پاکستان اور پاکستانیوں سے زیادہ بھارت اور اس کے میڈیا کو دلچسپی ہے۔ اس سے مفر نہیں کہ حکومت کی طرف سے قانون کے بجائے ماضی کی روایتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی سمری بھجوائی۔ یقینا اس معاملے میں کابینہ بالخصوص وزیر اعظم افسر شاہی کے ہاتھوں کھلونا بھی بنے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نہ صرف 1973ء آئین بلکہ اس سے پہلے کے دساتیر میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا واضح طریقہ کار کا تعین نہیں کیا گیا تھا اور ماضی میں مختلف ادوار میں آرمی چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع بھی ہوتی رہیں۔ بلاشبہ ماضی میں آرمی چیف مارشل لاز کے ادوار میں اپنی مدت ملازمت میں خود ہی توسیع کرتے رہے۔ ماضی میں جنرل ایوب خان نے بحیثیت صدر جنرل یحییٰ کو توسیع دی اسی طرح جنرل ضیاء الحق بھی خود ہی اپنی توسیع کے حکم نامہ جار ی کرتے رہے۔ جنرل مشرف کا شمار بھی ان فوجی سربراہان میں ہوتا ہے جنہوں نے خود ہی اپنی مدت ملازمت میں توسیع کر لی تھی۔ اس لیے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے طریق کار میں ابہام آشکار نہ ہونا کوئی اچنبے کی بات نہیں۔ لیکن حیران کن امر تو یہ ہے کہ ماضی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت 2010ء میں سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو مدت ملازمت میں توسیع دی گئی تب بھی قانونی سقم پر توجہ نہ دی جا سکی ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع شمالی علاقہ جات میں آپریشن کے باعث بہترین ملکی مفاد میںتھی مگر یہ بھی حقیقت تھی کہ اس وقت سول حکومت کے دور میں توسیع دیتے وقت بھی قانونی پہلوئوں پر غور و فکر نہ کیا گیا اور قانون کے بجائے روایت کو معیار بنا کر جنرل کیانی کو توسیع دے دی گئی۔ یہ اس ماضی کی روایات کا شاخسانہ تھا کہ موجودہ حکومت کے سامنے جب لائن آف کنٹرول کی صورت حال اور مغربی سرحد پر عسکری چیلنجز اور خارجی اور داخلوں محاذ پر جاری پالیسیوں کے تسلسل کے لیے جب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کا معاملہ سامنے آیا تو حکومت نے ماضی کی روایت کو نظیر بناتے ہوئے توسیع کی سمری صدر مملکت کو ارسال کر دی۔ اسی اثنا میں حنیف ریاض راہی نامی درخواست گزار نے توسیع کا معاملہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا جس کے باعث یہ قانونی سقم کھل کر سامنے آیا۔ اس معاملے میں مخالفین بالخصوص اپوزیشن کا پروپیگنڈا اپنی جگہ مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کا رویہ انتہائی ذمہ دارانہ، حقیقت پسندانہ اور منصفانہ رہا ہے۔ معزز جج صاحبان نے آرمی چیف ایسے حساس اور نازک عہدے کی اہمیت اور تقدس کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کے لیے حکومت کی بھرپور انداز میں قانونی رہنمائی بھی کی اور ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو چھ ماہ میں اس حوالے سے قانون سازی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وزیر اعظم کا یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک دشمن عناصر کی پاکستان میں آئینی بحران اور اداروں کے درمیان تصادم کی خواہش خاک میں مل گئی ہے اب جبکہ سپریم کورٹ کی طرف سے حکومتی اقدام کو آئینی اور قانونی تحفظ کے ساتھ مناسب قانون سازی کے لیے مناسب وقت مل گیا ہے تو بہتر ہو گا اپوزیشن اس نازک معاملے پر سیاست کرنے کے بجائے حکومت کے ساتھ خلوص دل سے تعاون کرے تا کہ اس خالصتاً قانونی معاملہ پر سیاست کرنے کا تاثر زائل ہو سکے۔