اسلام آباد(سہیل اقبال بھٹی)وفاقی حکومت کابینہ ارکان اور ارکان پارلیمنٹ کے سرکاری کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شمولیت اور799خلاف قانون تعینات ہونیوالے افسران کا معاملہ سلجھانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔وفاقی کابینہ نے آئین کے آرٹیکل63(1) کے ذیلی سیکشن ’’ای اور کے ‘‘کی تشریح اور 799سرکاری افسران کی خلاف قانون تعیناتی کی گتھی سلجھانے کیلئے سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجنے کی منظوری دیدی ہے ۔ وزارت قانون اور اٹارنی جنرل کی قانونی رائے کے باوجود کابینہ ممبران اور ارکان پارلیمنٹ کی سرکاری کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہونے کی دیرینہ خواہش ختم نہیں ہوسکی۔ وفاقی کابینہ نے ارکان پارلیمنٹ کو سرکاری کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کرنے کی منظوری دی تو وزارت قانون نے اس اقدام کو آئین کے منافی قراریدیا۔ سرکاری کمپنی کا بورڈ ممبر بننے والا رکن پارلیمنٹ نااہل ہوسکتا ہے ۔ وفاقی وزیر عمر ایوب وزارت قانون کی رائے کے بعد پرائیویٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ کی چیئرمین شپ سے الگ ہوچکے ہیں۔کابینہ ارکان نے وزیراعظم سے اصرارکیا تو دوبارہ معاملہ کا جائزہ لیا گیا۔ 92نیوز کوموصول دستاویز کے مطابق وزارت قانون کی پرانی تاریخوں سے تعیناتیوں کی توثیق کی مخالفت کے بعد وفاقی کابینہ نے معاملہ سپریم کورٹ کو بھجوانے کافیصلہ کیا تاکہ سپریم کورٹ 2016کے مصطفی ا یمپیکس کیس کے فیصلے کی روشنی میں خلاف قانون تعینات افسران کی قسمت سے متعلق گائیڈ لائن دے ۔ تحریک انصاف دور میں بھی 93افسران خلاف ضابطہ تعینات کئے گئے ، 50افسران بدستور اعلیٰ عہدو ں پر موجود ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق 18اگست 2016کے بعد تعیناتیوں کی کابینہ سے منظوری لازم تھی مگر افسرشاہی اور وزراء نے من پسند تعیناتیوں کیلئے وفاقی کابینہ کو خاطر میں نہ لایا۔سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈاکٹر اعجاز منیر کی سربراہی میں 3 رکنی انکوائری کمیٹی نے حتمی رپورٹ وفاقی کابینہ کو ارسال کردی ہے ۔بیوروکریسی نے خلاف ضابطہ تعینات افسران اور تعیناتیوں کے ذمہ داران کو کارروائی سے بچانے کیلئے تمام تعیناتیوں کی پرانی تاریخوں میں توثیق کرکے معاملہ نمٹانے کیلئے 7 سفارشات دیں تھیں۔