بنیادی طور پر وہ پوٹھو ہار کی سرزمین سے تعلق رکھنے والی جی دار خاتون ہیں جی ہاں۔ کوئی اور نہیں ڈاکٹر یاسمین راشد کا تذکرہ ہے جنہوں نے این اے 125کا معرکہ اس جانبازی اور جانفشانی سے لڑا کہ ہار کر بھی جیت گئی ہیں۔ شاید اسی کو کہتے ہیں‘ ہارے بھی تو بازی مات نہیں۔ الیکشن 2018ء میں ایک عجیب ہار ہوئی ہے جس کا تذکرہ سوشل میڈیا پر جیت والوں سے زیادہ ہے۔ شاید اس لیے کہ انہوں نے اس الیکشن کو عشق کی بازی سمجھ کر کھیلا اور ہار کر بھی جیت والوں سے زیادہ سرخرو ہوئیں اب ہر دوسری پوسٹ میں ان کی جرأت بہادری اور عوامی مقبولیت کا تذکرہ ہے اور اس عوامی مقبولیت میں ان کا صاف ستھرا کرپشن سے پاک ماضی اور اجلا کردار بہت اہم ہے لوگ انہیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی مسند پر دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ ان کے حق میں ٹویٹس ہو رہی ہیں۔ فیس بک پوسٹیں اپ لوڈ کی جا رہی ہیں اور یہ سب کمال اس محبت اور عزت کا ہے جو رب کسی کے انعام اور آزمائش کے لیے دوسرے لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کے لیے یہ مقبولیت کا ہائی ٹائم ہے۔ لوگوں کے دل ان کی محبت سے سرشار ہیں۔ این اے 125کی تنگ و تاریک گلیوں میں گرمی کی سخت حبس بھرے موسم میں اپنی گاڑی کے ایئر کنڈیشنڈ سے نکل کر ڈاکٹر صاحبہ نے ہر دروازے پر دستک دی۔ دروازوں میں کھڑی ھانڈی چولہا کرتی نیم خواندہ عورتوں کو گلے لگایا ان کے بچوں کے گھر کے حال احوال اس محبت اور اپنانیت سے دریافت کئے کہ وہ ان کے دل میں گھرکرگئیں وہ اپنی سہولتوں سے آراستہ لائف سٹائل سے نکل کربالکل عوامی ہو کر لوگوں کے پاس تبدیلی کا ووٹ مانگنے جاتی رہیں۔ زندگی کی تمام مراعات کے باوجود انہوں نے سادہ لباس پہنا۔ برانڈڈ چشمے اور بیگز اٹھا کر سادہ اور متوسط طبقے کے درمیان سٹیٹس کی دیوار نہیں اٹھائی اور پھر بارش دھوپ گرمی کی ہر سختی میں ایک دلنواز مسکراہٹ ان کے چہرے پر کھیلتی رہی۔ این اے 125کے مشکل حلقے میں جیسے کئی دہائیوں سے ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور جہاں کی سیٹ پر منتخب ہو کر نوز شریف 2013ء میں تیسری بار وزیر اعظم بنے تھے اس حلقے کے لیے ڈاکٹر صاحبہ کا میدان میں اترنا ہی ان کی صلاحیتوں اور شخصیت کی مضبوطی کا ثبوت تھا۔ اپنے مدمقابل وحید عالم سے انہوں نے کم مارجن سے شکست کھائی۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے اس مشکل حلقے میں ایک لاکھ سے زائد ووٹ لے کر مخالفین پر اپنی دھاک بٹھا دی ہے اور ہارنے کے بعد ڈاکٹر صاحبہ نے انتہائی مثبت اور شاندار بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اپنی ہار سے زیادہ اہم یہ ہے کہ میں ان ایک لاکھ لوگوں کے بارے میں سوچوں جنہوں نے مجھ پر اعتماد کیا اور مجھے ووٹ دیا۔ جس طرح انہوں نے ڈورٹو ڈور ایک vigrousانداز میں اپنی کمپین چلائی یہ بھی ایک مثال ہے۔ خود ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا ہے کہ ہم نے بہت سے نئے رشتے بنائے ہیں۔ رشتوں کے ساتھ ایک لفظ اور بھی ذہن میں آتا ہے۔ نبھانا اورڈاکٹر صاحبہ جیسی ایک ہمہ جہت خاتون یقینا رشتوں کے بوجھ اور انہیں نبھانے کی ذمہ داری سے آگاہ ہو گی اور یہ لفظ ہمہ جہت میں نے ایسے ہی استعمال نہیں کیا وہ واقعی اس تعریف پر پورا اترتی ہیں بیشتر لوگ تو انہیں سیاستدان ہی کے روپ میں دیکھتے ہیں ڈاکٹر نام کے ساتھ لگا ہے تو سمجھ جاتے ہوں گے کہ علاج کرنے والی ڈاکٹر بھی ہیں صرف اتنا ہی نہیں ان کی شخصیت میں بہت کچھ ایسا ہے جو سیکھنے والا اور انسپائر کرنے والاہے مثلاً یہ کہ وہ پاکستان کی بیسٹ سوئمر اور بیسٹ ٹیبل ٹینس پلیئر بھی رہ چکی ہیں یعنی قومی سطح پر پاکستان کی ان دونوں کھیلوں میں نمائندگی کر چکی ہیں۔اور سیاست تو شاید ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔کانوینٹ جیسز اینڈ میری میں چھٹی کلاس میں آنے والی پرجوش طالبہ اگلے دو سالوں میں سکول لیول کے الیکشن میں حصہ لیتی ہے ‘جیت جاتی ہے ‘پھر لاہور کالج میں ایف ایس سی کے ساتھ کالج کی تمام نصابی اور طلبہ یونین کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ اپنا کردار ادا کرتی رہیں۔ کالج کی یونین کی صدر منتخب ہوئیں۔ فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں ایڈمشن ہوا تو میڈیکل کی مشکل اور ڈیمانڈنگ پڑھائی کے ساتھ ساتھ طلبہ سیاست میں بھی پوری طرح سرگرم رہیں اور حیران کن بات یہ کہ جب ان کا ایڈمشن ایف جے میں ہوا تو ان کی شادی ہو چکی تھی۔ ایم بی بی ایس اور بعد کی مختلف سپشلائزیشن سب کچھ انہوں نے شادی کے بعد کیا۔ میڈیکل کے فرسٹ ایئر میں ان کی پہلی بیٹی پیدا ہوئی تو فورتھ ایئر میںتھیں تو وہ بیٹے کی ماں بنی۔ اس دور میں وہ فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی طلبہ یونین کی سرگرم سیکرٹری جنرل بھی منتخب ہوئیں۔ سچی بات ہے یہ سب لکھتے لکھتے میرا قلم ہانپنے لگا ہے۔ نہ جانے انہوں نے ایک ہی وقت میں اتنے بہت سارے متنوع کردار کیسے نبھائے۔؟ نہ صرف نبھائے بلکہ ہر کردار میں اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کا جھنڈا گاڑا۔ یعنی جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے۔ایک ہی وقت میں ماں بیوی‘۔۔۔۔میڈیکل کی طالبہ اور پھر طلبہ یونین کی سیکرٹری جنرل کا رول بہترین انداز میں نبھانے سے ڈاکٹر صاحبہ کی غیر معمولی صلاحیتوں اور عزم صمیم کا اندازہ ہوتا ہے۔ یقینا خاندان کا ایک سپورٹر سسٹم ضرور موجود ہو گا لیکن ایک آہنی وِل پاورکی موجودگی کے بغیر یہ ناممکن ہوتا کہ وہ یہ سب کر پاتیں۔ اپنی پروفیشنل زندگی میں وہ ایک قابل اوربہترین ڈاکٹر رہیں۔ پروفیسر رہیں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن میں بھی اہم عہدیدار رہیں غالباً اس ایسوسی ایشن کی صدر بھی رہیں۔ پھر سوشل ورک میں بھی کام کا آغاز کیا اور اسے بھر پور جذبے اور توجہ کے ساتھ کیا۔ تھیلسیمیا کی بیماری کے حوالے سے آگاہی مہم کا آغاز ڈاکٹر یاسمین راشد کا ہی کارنامہ ہے۔ آج سے 22برس پیشتر انہوں نے صوبائی حکومت کے اہل اختیار کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ تھیلسیمیا کی روک تھام کے لیے بچے کی پیدائش سے پہلے یہ ٹیسٹ لازمی ہونا چاہیے۔ پھر شادی سے پہلے اگر لڑکا اور لڑکی یہ ٹیسٹ کروا لیں تو جان سکتے ہیں کہ ان کی اولاد اس بیماری کا شکار ہو گی یا نہیں۔ اس طرح وہ اپنے صحت مند مستقبل کے لیے بہتر فیصلہ کر سکیں گے۔ قومی سیاست میں ڈاکٹر یاسمین راشد 2010ء میں آئیں جب وہ اپنے سرکاری عہدے سے ریٹائر ہوئیں تو ان کے سسر نے انہیںتحریک انصاف کو جوائن کرنے کا مشورہ دیا۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے پہلے ان کے خاندان کی سیاسی وابستگی پیپلز پارٹی کے ساتھ تھی۔ بقول ان کے جب آصف علی زرداری نے محترمہ بے نظیر کی شہادت کے بعد پارٹی کو ٹیک اوور کیا تو ہمارے خاندان نے پیپلز پارٹی سے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ 2013ء میں ڈاکٹر یاسمین راشد کو پارٹی چیئرمین نے نوازشریف کے مقابل ایک مشکل ترین حلقے سے انتخاب لڑنے کا کہا۔ ڈاکٹر صاحبہ اس پر مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں اس وقت صوبائی اسمبلی کے الیکشن بارے سوچ رہی تھی کہ چیئرمین نے مجھے میٹنگ کے لیے بلایا اور کہا کہ آپ نے این اے 125سے نوازشریف کے مقابل آنا ہے۔ کہتی ہیں میں نے اختلاف تو نہ کیا حیران ہوئی اور ازراہ مذاق کہا خان صاحب آپ کو قربانی کا بکرا چاہیے تھا۔ خان صاحب نے کہا۔ میں نے آپ کا انتخاب اس لیے اس مشکل حلقے کے لیے کیا کہ مجھے یقین ہے جو بھی صورت حال ہو گی آپ ہر صورت الیکشن لڑیں گی۔ پھر انہوں نے ’’لڑیں گی‘‘ پر زور ڈالا۔ اور پھر واقعی ڈاکٹر یاسمین راشد نے اس حلقے میں الیکشن ’’لڑ‘‘ کر دکھایا۔ مقابلہ اصولوں کے ساتھ کمٹمنٹ کرپشن سے نفرت کرنے والی سوچ اور مفاد کی سیاست کے لیے اصولوں کو روندنے والی سوچ اور کرپشن زدہ سیاست کے درمیان تھا۔ اصولوں کی پاسداری اور عام پاکستانی کی سطح پر آ کر ان کے ساتھ وابستگی پیدا کرنے کی خوبیاں ڈاکٹر یاسمین کے ذاتی کردار کی ہیں۔پی ٹی آئی میں موجود سیاستدان ایسے ہرگز نہیں یہاں بھی نیب زدہ کرپشن زدہ ہر طرح کا مال موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سب میں سے ہر بار ڈاکٹر یاسمین کا انتخاب ہوتا کہ وہ ن لیگ کے گھر اور گڑھ میں جا کر ان کا مقابلہ کریں اور کیا خوب مقابلہ کیا یہ ان کی فائٹنگ سپرٹ اور ذاتی کردار کی غیر معمولی خوبیاں ہیں کہ بار بار ہار کر بھی جیتتی رہیں۔ پاکستانی سیاست میں اس وقت جو خواتین سیاستدان ہیں آپ سب کو دیکھ لیں۔ ان میں ڈاکٹر یاسمین الگ تھلگ دکھائی دیتی ہیں۔ بیشتر پاکستانی سیاستدان خواتین کے لیے اسمبلی کا ممبر ہونا ایک گلیمرس کلب سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔ برانڈڈ بیگز اور چشمے وڈیروں اور جاگیرداروں خاندانی پس منظر رکھنے والی عورتیں جن کا سیاست میں آنا ایک شیلڈ کے طور پر اپنے خاندان کے اثاثے بنانے بڑھانے اور چھپانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس ساری بھیڑ میں ڈاکٹر یاسمین راشد ایک ہی ہیں۔ جن کے لیے سیاست اور الیکشن ایک عشق کی بازی ہے۔ جس میں جذبہ اور کمٹمنٹ ہی سب کچھ ہوتا ہے ۔ سودو زیاں کا اس میں دخل کہاں۔ یہ ایک مسلسل سفر ہے اور سچی اور اچھی نیت والوں کے لیے یہ جیت ہی جیت ہے۔ یہ بازی عشق کی بازی ہے‘ جو چاہو لگا دو ڈر کیسا گر جیت گئے تو کیا کہنا‘ ہارے بھی تو بازی مات نہیں