-92ایچ ڈی- ٹی وی پرمیرے ہفتہ وار پروگرام کا موضوع اگرچہ جادو جنات اور نظربد تھا، لیکن اس وقت جو جادو اقوام عالم کے سر چڑھ کر بول رہا ہے، وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس میں وزیراعظم پاکستان کی اس تقریر کا ہے، جو انہوں نے جمعۃ المبارک کی شام عالمی قائدین اور سربراہان مملکت کے سامنے نیویارک میں کی ہے۔ یقینا وہ ایک ایسی ہی تقریر تھی جسکا اس قوم، ملت اور امت مسلمہ کو انتظار تھا۔ جس کے آگے صرف برصغیر یا جنوب ایشیا ہی نہیں، بلکہ پورا مغربی میڈیا، امریکی دانشور، یورپین سکالرز اور عرب تجزیہ کار۔ دم بخود اور محو حیرت ۔۔۔۔ بلکہ اس جرأت آمیز، حمیت آفریں اور غیرت مندانہ خطاب کے آگے سرنگوں ہیں، بقول اقبال غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں پہناتی ہے درویش کو تاجِ سردارا دِیں ہاتھ سے دیکر اگر آزاد ہو ملت ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا وزیر اعظم کی تقریر جن چار اہم نکات پر مشتمل تھی، ان میں دوسرا نکتہ اسلاموفوبیا تھا، جسکا اس وقت مغرب بہت بری طرح شکار ہے، فوبیا دراصل ایک ایسا مرض ہے جس میں بعض مخصوص اور اجنبی چیزوں کے حوالے سے انسان کے اندر ایک انجانا سا ڈر اور خوف پیدا ہو جاتا ہے، اہل مغرب گذشتہ چند دہائیوں سے اسلام اور مسلمانوں کے متعلق اس میں مبتلا ہیں، جسکا مفہوم یہ ہے کہ اسلام ایک متعصب دین اور اس کے ماننے والے اپنے عقائد اور طرزِ عمل کے اعتبار سے ہٹ دھرم اور متشدد ہیں۔۔۔ اور یہ کہ اسلام اور مسلمان روادارانہ فلاحی معاشرے کے بنیادی عناصر جیسے مساوات، رواداری، انسان دوستی، اخوت، بھائی چارے، تحمل اور جمہوریت جیسے جذبوں اور تصورات سے لا علم اور نا بلد ہیں، امریکہ میں رونما ہونے والے نائن الیون کے حادثات کے بعد اس فوبیا نے زیادہ شدت اختیار کر لی، جسکا اظہار اہل مغرب کے لٹریچر، ذرائع ابلاغ اور پھر انکے رویوں اور پالیسیوں سے بھی علی الاعلان ظاہر ہونے لگا، وزیراعظم نے اپنی تقریر میں مغرب کے اس طرزِعمل اور اسلوب فکر کا جس انداز میں پوسٹ مارٹم کیا، شاید اس اعلیٰ فورم پر اس سے بہتر اور بڑھ کر نہ ہو سکتا ہو، انہوں نے واشگاف انداز میں کہا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں اور اسکو مذہب سے نہ جوڑا جائے، انہوں نے ہولوکاسٹ کا ذکر کیا، ہٹلر اور یہودیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہولوکاسٹ کا لفظ مغرب میں Taboo ہے تو اسلاموفوبیا کا لفظ بھی مشرق و مغرب میں Taboo ہونا چاہیئے۔ انہوں نے جنرل اسمبلی کے پر شکوہ ایوان میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا پرچم جس انداز میں سربلند کیا ہے اسکی تاثیر چار دانگ عالم میں پھیل گئی اور وہ خودی، خودداری، ارتقا، بلندی اور شنوائی جس کی ملت اسلامیہ اس وقت طلبگار ہے وہ صرف اور صرف ہمیں اسی جذبے سے میسر آ سکتاہے۔ خودی کا سرنہاں لاالہ الا اللہ /خودی ہے تیغ فساں لاالہ الا اللہ اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں /مجھے ہے حکم اذاں لاالہ الا اللہ یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے/ صنم کدہ ہے جہاں لاالہ الا اللہ یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند/بہار ہو کہ خزاں لاالہ الا اللہ وزیراعظم پاکستان کی تقریر کا مرکزی نقطہ اگرچہ مسئلہ کشمیر تھا اور ہو نا بھی چاہیئے تھالیکن انکی گفتگو کے جس خاص حوالے نے مسلماناںِ عالم کے دلوں کو چھو لیا وہ محمدمصطفی کریمؐ کیساتھ عقیدت و محبت کا ہے۔ جس میں انہوں نے کہا کہ نبی اکرمؐ کیساتھ مسلمانوں کی عقیدت و ارادت کا کیا عالم ہے، اقوامِ عالم کو اسے سمجھنا چاہیئے۔ انکے نبی ؐ کی شان میں گستاخی، مسلمانوں کیلئے تکلیف دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو تین سال کے بعد ہمارے نبیؐ کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے۔ جب ہمارا رد عمل سامنے آتا ہے تو ہمیں انتہا پسند کہا جاتا ہے، تاکہ ہمارے ردعمل کو جواز بنا کر اسلام کو نشانہ بنایا جا سکے۔ وزیراعظم پاکستان کی یہ باتیں ہر مسلمان کے جذبات کی عکاس ہیں اس لئے کہ ہمارے رسولؐکی حیثیت محض کسی ایسی ہستی کی نہیں جو ہمیں کوئی پیغام پہنچانے آئے اور پیغام پہنچا کر چلے گئے بلکہ حضرت محمد ؐ ہمارے لئے ہمارا دین بھی ہیں اور ہمارا ایمان بھی، انکی عظمت اور رفعت کے منافی کوئی جملہ بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا، اہل مغرب اپنے ہادیانِ مذہب کے ساتھ شاید ایسا معمولی رویہ برداشت کرسکتے ہوں لیکن کوئی مسلمان ایسا سوچ بھی نہیں سکتا، اس لئے کہ اسلام اور مسلمانوں کے پورے نظام زندگی، اسلوبِ زیست اور طرز حیات کا دارومدار نبی اکرمؐکیساتھ وابستگی اور عقیدت و حجت پر ہے، اقبال نے یہی بات اپنے ان اشعار کے ذریعے دنیا کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ از رسالت در جہاں تکوینِ ما/از رسالت دینِ ما آئینِ ما از رسالت صد ہزار ما یک است جزو ما از جزو لا ینفک است ماز حکمِ نسبت، او ملتیم اہلِ عالم را پیام رحمتیم ازمیانِ بحرا و خیزیم ما مثل موج از ھم نمیریزیم ما یعنی رسالت ہی سے اس دنیا میں ہمارا وجود قائم ہے۔ رسالت ہی سے ہمارا دین اور ہمارا آئین ہے۔ رسالت ہی کی بدولت ہم ہزار ہا ہونے کے باوجود ایک ہیں، اسی کی بدولت ہمارا ایک جزو دوسرے جزو کے کبھی جدا نہ ہونے والا ہے۔ ہم رسولِ رحمتﷺ کی نسبت سے ایک ملت ہیں اور دنیا والوں کیلئے رحمت کا پیغام ہیں، ہم رسالت کے سمندر سے اٹھے ہیں اور موج کی مانند ہم ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے۔ علامہ اقبال نے جاوید نامہ میں اپنے تصوراتی سفرِافلاک کی روئیداد بیان کی، جس میں انہوں نے اپنے سے پہلے زمانے کے گزرے ہوئے اعلیٰ انسانوں کی ارواح سے ملاقاتیں کر کے انکے افکار دنیا کے سامنے پیش کئے، انہی میں مرزا غالب اور منصور حلاج کی ارواح سے بھی گفتگو شامل ہیں جس میں حکیم الامت ، نبی کریم ﷺ کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر کو پیش کرتے ہیں،علامہ اقبال غالب سے پوچھتے ہیں۔ صد جہاں پیدا دریںنیلی فضاست/ہر جہاں را اولیا و انبیا است؟ یعنی اس نیلی فضا میں سینکڑوں جہاں موجود ہیں، کیا ہر جہاں میں نبی اور ولی ہوتے ہیں؟ مرزا غالب کہتے ہیں ہر کجا ہنگامہ عالم بود/رحمۃ للعالمین ہمِ بود یعنی جہاں کہیں بھی ہنگامہ عالم ہے،وہاں ایک رحمۃ للعالمین بھی ہے امت مسلمہ کا یہ چودہ سوبرسوں کامتفقہ عقیدہ ہے، کہ حضور رحمت عالمﷺ ہی سارے زمانوں اور تمام جہانوں کیلئے رحمت ہیں، غالب کے جواب سے شک پیدا ہو سکتا تھا کہ شاید ہر جہاں کیلئے الگ الگ رحمتِ عالم ہے اور روحِ غالب سے اقبال یہ مکالمہ اس لئے کر رہے تھے کہ غالب کے دور میں ایک ایسا معاملہ ’’مسئلہ امتناع نظیر‘‘ پیش آ چکا تھا۔ چنانچہ اس وقت کی معتبر علمی شخصیت مولانا فضل حق خیرآبادی نے اس عقیدے کا رد کیا تھا۔ غالب چونکہ مولانا خیر آبادی کے ہم نشین تھے، اس لئے انہوں نے اس پر اسکی خوب گرفت کی۔ چنانچہ یہاں منصور حلاج کی روح سامنے آ کر اقبال سے مخاطب ہوتی ہے ہر کجا بینی جہاںِرنگ و بو آں کہ از خاکش بروید آرزو یاز نورِ مصطفی او را بہا ست یا ہنوز اندر تلاش مصطفی است یعنی حلاج کہتے ہیں کہ اے اقبال! تو جہاں کہیں بھی رنگ و بو کا جہاں دیکھتا ہے، ہر وہ جہاں جسکی خاک سے آرزو پھوٹتی ہے، یعنی جس میں کمال کو پہنچنے کی آرزو جنم لیتی ہے، یا تو اسکی قدر و قیمت حضرت محمد مصطفیﷺ کے نور کے سبب ہے اور پھر ابھی مصطفی کریمﷺ کی تلاش میں ہے۔