کشمیر ی کی طرح سنسکرت بھی قد یم زمانے میں شاردا اسکرپٹ میں ہی تحریری کی جاتی تھی۔خیر امرناتھ علاقہ میں 1996ء میں برفانی طوفا ن کی وجہ سے 200 سے زائد ہندو یاتریوں کی موت ہوگئی تھی۔ اس حادثے کی انکوائری کے لئے بھارتی حکومت کی وزارت داخلہ کی طرف سے مقرر کردہ‘ ڈاکٹر نتیش سین گپتا کی قیادت والی ‘ ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یاتریوں کو ایک محدود تعداد میںکرنے کی سفارش کی تھی۔اس کمیٹی کی سفارش کی بنیاد پر ریاستی حکومت نے یاتریوں کی تعداد کو ریگولیٹ کرنے کی جب کوشش کی تو بزعم خویش ہندو دھرم کے محافظ بعض ہندو رہنمائوں نے اسے مذہبی رنگ دے کر حکومت کی کوششو ں کو ناکام بنادیا۔ حدتو اس وقت ہوگئی جب 2005 ء میں کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعلی مرحوم مفتی محمد سعید نے اپنے دور میں گورنر جنرل (ر)ایس کے سنہا کی طرف سے یاترا کی مدت میں اضافہ کی تجویز پر اعتراض کیا ،تو ان کی کابینہ کے تمام ہندو وزیروں نے استعفے پیش کر دیئے۔ دوسری طرف ہندو شدت پسند لیڈروں نے بھی پورے ملک میںمہم شروع کرکے بڑے پیمانے پر ہندووں کو امرناتھ کی یاترا کے لئے راغب کرنا شروع کردیا۔اتراکھنڈ کے چار دھام کے طرح امر ناتھ کو بھی سیا حت اور بھارت کی شدت پسند قومی سیاست کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ تاکہ ماحولیات کے لحاظ سے اس نازک خطے میںلاکھوںیاتریوں کی یاترا کو ممکن بنانے کے لئے سڑکیںاور دیگر سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ حتیٰ کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے بھی اس علاقہ میں یاتریوں کیلئے ایک ٹریک بنانے کا حکم دیا۔ یہی عدالت دیگر کیسوں میں ماحولیات کو بچانے کیلئے سخت موقف اختیار کرتی ہے۔ سابق گورنر آنجہانی سنہا تو ہر تقریب میں برملا اعتراف کرتے تھے کہ وہ اس علاقہ میں ہندوئوں کیلئے مخصوص 'شاردایونیورسٹی‘ قائم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اور اسی لیے انہوں نے جنگل والی زمین کا ایک وسیع قطعہ امرناتھ شرائن بورڈ کے سپرد کیا تھا۔ ان کے اس فیصلہ نے 2008ء میں کشمیر کے طول وعرض میں آگ لگادی۔ امرناتھ مندر بورڈ کے خلاف وادی کے عوام کا جو غصہ پھوٹا اس کا تعلق ہندومسلم مسئلے سے قطعی نہیں تھا۔ 1860ء سے ہی جب امرناتھ کی یاترا کا آغاز ہوا ‘ مسلمان اس کے نظم و نسق اور اسے حسن و خوبی کے ساتھ تکمیل تک پہنچاتے میں اہم رول ادا کرتے رہے ہیں۔لیکن گورنر سنہا نے امرناتھ مندر بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالتے ہی سب سے پہلاکام بٹ گنڈ گائوں کے مسلمان چرواہوں کے پیٹ پر لات مارنے کا کیا۔ حالانکہ پچھلے تقریباََ ڈیڑھ سو سال سے یہی چرواہے ہندوئوں کے اس انتہائی مقدس مقام کی نگرانی کرتے آرہے تھے۔جنرل سنہا کے پرنسپل سکریٹری اور شری امرناتھ شرائن بورڈ کے چیف ایگزیکٹو ارون کمار نے خچر والوںاورچھوٹی چھوٹی دکانیں لگا کر اپنی روزی کمانے والوںسے ان کا یہ حق بھی چھین لیا۔ جس زمین کے وہ بے چارے مالک تھے انہیں سے ''جزیہ‘‘ وصول کرنا شروع کردیا۔انتہا تو یہ ہوگئی کہ باہر کے '' لنگروالوں‘‘ کو بلایا گیا۔اس علاقے کی مقامی آبادی کا امرناتھ مندر سے کتنا گہرا تعلق ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1995ء میں جب حرکت الانصارنامی تنظیم نے امرناتھ یاترا کے نظم و نسق میں مسلمانوں کی شمولیت پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تو مسلمانوں نے ہی بڑے پیمانے پر اس کی مخالفت کی اور اسے 12دن کے اندر ہی اپنا حکم واپس لینا پڑا۔ اب تو مقامی مسلمانوں اور تاجروں کو اس یاترا کے انتظام سے پوری طرح بے دخل کردیا گیا ہے۔ بہر حال ہر سال لاکھوں یاتریوں کے امرناتھ آنے کی وجہ سے ماحولیات پر بھی خاصا بْر اثر پڑ رہا ہے۔2005ء میں مشہور ماہر ماحولیات پروفیسر ایم این کول کی قیادت میں ملک کے چوٹی کے ماہرین ماحولیات نے اپنی ایک رپورٹ پیش کی جس میں کہا کہ اگر بال تل کے راستے امر ناتھ کے مقدس گپھا تک ہزاروں یاتریوں کی آمدورفت کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو ماحولیات اور گلیشیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔لیکن اس مشورے پر کان دھرنے کے بجائے بھارتی حکومت زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو بال تل کے راستے ہی امرناتھ بھیج رہی ہے۔ بھارتی حکومت نے حالانکہ ملک کے بیشتردریائوں اورندیوں کے منبع یعنی گنگا کے گلیشیرو ں کی حفاظت کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں لیکن وادی کشمیر اور پاکستان کو پانی فراہم کرنے والے سند ھ طاس گلیشیئر کی تباہی پر وہ ذرا بھی فکر مند نہیںنظر آتی ہے۔ 2008ء میں ہی اتراکھنڈ صوبہ میں ماحولیات کے تحفط کیلئے وہاں کی اس وقت کی ہندو قوم پرست بی جے پی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا، جس کی رو سے ہر روز صرف 250سیاح اور زائرین دریائے گنگا کے منبع گومکھ گلیشیر جا سکتے ہیں۔اس کا موازنہ اگر آپ سندھ طاس کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر کے کولہائی گلیشیر کے ساتھ کریں، تو وہاں ہر روز اوسطً20ہزار افراد مئی اور اگست کے درمیان اسے روندتے ہوئے نظر آئیں گے۔نتیش سین گپتا کمیٹی نے 1996ء میں اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا تھا کہ امرناتھ کی ایک مہینے کی یاترا کے دوران صرف ایک لاکھ یاتریوں کو جانے کی اجازت دی جائے لیکن حکومت نے پہلے تو یاترا کی مدت ایک ماہ سے بڑھا کر دو ماہ کردی ‘اس کے بعد یاتریوں کی تعداد کو محدود کرنے سے انکار کردیا۔پچھلے سال تقریباََساڑھے چھ لاکھ یاتریوں نے امرناتھ کی یاترا کی تھی۔ آئندہ برسوں میں یہ تعداد دس لاکھ تک پہنچ جانے کا اندازہ ہے۔گپتا کا کہنا تھا کہ یاترا کے دوران ایک وقت میں ایک جگہ صرف تین ہزاریاتریوں کو ٹھہرانے کی اجازت ہونی چاہئے۔ مگر آج حالت یہ ہے کہ پہلگام جیسی چھوٹی سی جگہ پر ، جو یاترا کا ایک بیس کیمپ بھی ہے، 20ہزار سے 50ہزار تک یاتری جمع ہوجاتے ہیں۔ ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب کہ دنیا موسمیاتی تبدیلیوںکی وجہ سے ایک نئی آفت سے دوچار ہونے والی ہے اور اس مصیبت کو ٹالنے کے لئے دنیا کے بیشتر ممالک پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی آمد کو بھی ریگولیٹ کررہے ہیں۔ حکومت بھارت کو بھی چاہئے تھا کہ کشمیر کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لئے امرناتھ میں یاتریوں کی تعدادکو ریگولیٹ کرنے کی تجویز پر مذہبی نقطہ نگاہ کے بجائے سائنسی نقطہ نگاہ سے غور کرے۔ کچھ یہی مشورہ آزاد کشمیر اور پاکستان میں مقیم ان دانشوروں اور زعما ء سے بھی ہے، جو شاردا پیٹھ کو زائرین کیلئے کھولنے کی وکالت کرتے ہیں۔ بیشک ہندوئوںکو وہاں عبادت کرنے کا حق حاصل ہے‘ مگر کہیں اٹھ مقام اور دودنیال کی سرسبز چراگاہیں‘ دوسرا پہلگام اور بال تل نہ بن جائیںاور حریص طاقتیںان کو سیاست ومعیشت کے ساتھ جوڑ کرکسی سانحہ کا سامان پیدا نہ کریں۔روشن خیالی تو ٹھیک ہے، مگر اسکے ساتھ اگر بے ضمیری شامل ہے تو یہ زہر ہلاہل ہے۔ (ختم شد)