ایک طویل اور اعصاب شکن جدوجہد کے بعد آزادکشمیر کو بااختیار بنانے اور انتظامی، مالی اور قانونی سازی کے اختیارات اسلام آباد میں’’آباد‘‘کشمیر کونسل سے مظفرآباد منتقل کرنے کا فیصلہ ہوگیا۔وفاقی کابینہ نے جاتے جاتے کچھ تاریخ ساز فیصلے کیے ان میں آزادکشمیر، گلگت بلتستان کو بااختیار بنانے اور قبائلی علاقہ جات کو خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کے فیصلے نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور نون لیگ کی لیڈرشپ کو تاریخ میں ایک منفرد مقام عطا کیا ۔ ان کالموں میں متعدد بار یہ لکھا جاچکا ہے کہ آزادکشمیر کے شہری اور لیڈرشپ بلاجھجک کہتی تھی کہ کشمیر کونسل کے نام سے وفاقی حکومت نے آزادکشمیر کے انتظامی اختیارات اور مالیاتی وسائل سلب کرکے مظفرآباد میں قائم منتخب حکومت کو لگ بھگ عضو معطل بنارکھا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد پاکستان کے چاروں صوبوں کو بے پناہ اختیارات ملے توآزاد کشمیر میں بھی اختیارات کے حصول کے لیے ایک لہر اٹھی۔ مطالبہ تھا کہ کشمیر کونسل کو آزادکشمیر میں متوازی حکومت یعنی ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے مالی وسائل کی تقسیم ، روزمرہ کے انتظامی معاملات میں مداخلت اور منتخب حکومت کے مانی کرنے جیسے اختیارات سے محروم کیاجائے۔یہ انداز حکومت جمہوری اصولوں کی رو ح کے منافی تھا۔کونسل کی حیثیت حکومت پاکستان اور آزادکشمیر میں سوائے رابطہ کار کے اور کچھ نہیں ہونی چاہیے۔ طاقت ور نوکر شاہی ایسے مطالبات کو درخوراعتنا سمجھتی اورنہ خود علاقے کی ترقی کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ شروع کرتی۔ آزادکشمیر میںیہ اتفاق رائے پایاجاتاتھا کہ تمام مالیاتی، انتظامی اور قانون سازی کے اختیارات مظفرآباد میں قائم حکومت کے حوالے کیے جائیں۔ مقامی سطح کے معاملات میں اسلام آباد سے مداخلت نہ کی جائے تاکہ کشمیری بھی ملک کے دیگر حصوں کی طرح قومی دھارے میں اطمینا ن محسوس کریں۔ وزیراعظم راجہ فاروق حیدر وہ واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے اس مقدمے کو نہ صرف غیر معمولی جرأت سے لڑا بلکہ تمام تر خطرات مول لیے۔ سویلین اسٹیبلشمنٹ نے ایک ایک انچ پر سخت مزاحمت کی۔ حالیہ ہفتوں میں اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں وزارت امور کشمیر کے سیکرٹری نے اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے کہا کہ آپ سارے اختیارات مظفرآباد منتقل کررہے ہیں ان لوگوںپر کنٹرول کا کیا میکانزم ہوگا؟ انہوں نے اختیارات کی آزادکشمیر منتقلی کی سمری پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔دباؤ پڑا تو چھٹی پر چلے گئے ۔ وزیر امور کشمیر برجیس طاہر نے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں کشمیری لیڈر شپ کے ساتھ ہتک آمیز روا رکھاـ‘ان کی حب الوطنی کو چیلنج کیا ۔یہ ہی نہیں آزادکشمیر کے کئی ایک سیاستدانوں اور بااثر شخصیات کو وسائل فراہم کیے گئے تاکہ وہ اس آئینی پیکج کے راستے میں روڑے اٹکائیں۔ نون لیگ کے اندر بھی سرنگ لگائی گئی۔ کئی ایک وزراء اور سیاستدانوں نے آئینی ترمیم کے حق میں ایک لفظ بھی نہ بولا۔ کشمیر کونسل کے ارکان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کرکے اس عمل کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کی۔ آزادکشمیر کے آئین میں بعض معاملات ایسے ہیں جن میںترمیم کے لیے حکومت پاکستان کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی کچھ حلقوں نے کوشش کی کہ فاٹااور گلگت بلتستان کے مسائل تو حل ہوجائیں لیکن آزادکشمیر کا معاملہ کمیٹی بنا کر لٹکادیا جائے۔ وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے اصرار کیا تو منظوری ہوگئی لیکن بعد میں کابینہ کے ایجنڈے سے ڈراپ کرادیاگیا۔ 31تاریخ کی شام تک سب کچھ بکھر چکا تھا۔آزادکشمیر کے سرکاری حلقوں میں مایوسی کے بادل چھا چکے تھے۔وزیراعظم راجہ فاروق حیدر سے ملاقات ہوئی ۔انہوں نے بوجھل دل سے بتایا کہ وہ آئینی اختیارات کے حصول کی لڑائی کا آخری معرکہ ہارچکے لیکن ایک بار پھر بھرپور تیاری اور زیادہ مطالبات کے ساتھ میدان میں اتریںگے۔محدود سی اس نشست میں موجود افراد کی آنکھوں میں نمی اترآئی۔ برسوں کی جدوجہداور کشمکش کا ماحاصل کچھ بھی تو نہ تھا۔ یہ سوال بار بار اٹھتا رہا کہ آخر فاٹا اور گلگت بلتستان کے شہریوں کے مطالبات پورے کیے جاسکتے ہیں تو آزادکشمیر کے کیوں نہیں۔ شام تک سوشل میڈیا کی دنیا میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی کہ وفاقی کابینہ نے آزادکشمیر کو آئینی اختیارات دینے کا فیصلہ ترک کردیا۔ایک کہرام سا مچ گیا کہ ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں؟ اس مرحلے پر میاں محمد نوازشریف خود متحرک ہوئے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور قریبی رفقا کو ہدایت کی کہ وہ اس مسودہ قانون کی منظوری کو یقینی بنائیں۔وزیرعظم نے ایک بار پھر مقتدر حلقوں کے ساتھ مکالمہ شروع کیا۔ ان کے خدشات اور تحفظات پر انہیں مطمئن کیا۔ آزادکشمیر حکومت کے سینئر بیوروکریٹس دن بھر وزیراعظم ہاؤس میں ڈٹے رہے۔یہ گمنام ہیروز ہیں جن کا نام میڈیا کی سرخیوں کی زینت نہیں بنتا۔ آخر کار شام کے اجلاس میں آزادکشمیر کی اصلاحات کا ایجنڈا پیش ہوا تو ماحول سازگار ہوچکا تھا۔نون لیگ کے وزراء حتیٰ کہ وزیرامور کشمیر برجیس طاہر نے بھی حمایت کردی۔ اس طرح قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا ہوگیا۔دوستوں کے طعنوں کے باوجود میں اکثر کالموں اور سوشل میڈیا پر شاہد خاقان عباسی کی لیڈرشپ کی تعریف کرتارہاہوں ۔ انہوں نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ ایک بہترین مذاکرات کار ہیں ۔وہ سیاسی امنگوں اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے جائز خدشات کو پیش نظر رکھ کر درمیانہ راستہ نکال لیتے ہیں جو تمام اسٹیک ہولڈرزکے لیے قابل قبول ہوتاہے۔ میری نظر میں پاکستان کو ایسے ہی لیڈر کی ضرورت ہے جو تصادم نہیں بلکہ مسائل اور تنازعات کے حل کے لیے سرگرم ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ اس فیصلے سے آزادکشمیر کو کیا ملے گا؟ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آزادکشمیر کے شہریوں کو کامیابی اور بااختیار ہونے کا احساس ملا۔سرشاری کی ایک کیفیت ہے کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ اب یہ اعتراض نہیں رہا کہ اسلام آباد سے ان پر حکمرانی کی جاتی ہے۔ ان کے وسائل کو بے دردی سے برتاجاتاہے۔ منتخب حکومت اور اسمبلی کے اختیارات کو تسلیم نہیں کیاجاتا۔ اب کشمیر کونسل آزادکشمیر میں کوئی متوازی حکومت قائم نہیں کرسکے بلکہ اس کے اسٹاف اور ارکان کو اپنے اخراجات کے لیے بھی مظفرآباد میں محکمہ مالیات سے رجوع کرنا ہوگا۔ وہ کوئی ترقیاتی سیکم دے سکے گی اورنہ الیکشن میں اثر ہوسکے گی ۔ کونسل کی حیثیت محض ایک مشاورتی ادارہ کی رہ گئی ہے۔ آزادکشمیر کو مالی طور پر مضبوط بنانے کے لیے بھی نئے آئینی پیکج میں موثر اصلاحات کی گئی ہیں۔ کونسل کے پاس موجود اربوں روپے کے اثاثہ جات حکومت آزادکشمیر کی ملکیت میں چلے گئے ہیں ۔ ٹیکس جمع کرنا اور ان لینڈ ریونیو کے محکمہ جات آزادکشمیر حکومت کے حوالے ہو گئے ہیں ۔ماضی کے برعکس اکاؤنٹنٹ جنرل سمیت مالیات سے متعلقہ تمام معاملات حکومت آزادکشمیر کے پاس چلے گئے ہیں۔ آزادکشمیر کے قدرتی وسائل اورپانی کے استعمال پر بھی دوٹوک آئینی پوزیشن لی گئی ۔ مقامی سطح پر پیدا کی جانے والی بجلی آزادکشمیر اپنی مرضی سے استعمال کرسکے گا ۔نیلم جہلم اور منگلا ڈیم جیسے منصوبوں کے واٹر یوزج چارجز یا رائیلٹی خیبرپختون خوا یا پنجاب کے برابر ملے گی۔ اب جو بھی نیا منصوبہ لگے گا اس کی منظوری آزادکشمیر اسمبلی سے لینا ضروری ہوگا۔ حکومت پاکستان کے پاس کشمیر کونسل کے ذریعے ماضی میں 52سبجیکٹ ہوتے تھے جن پر آزادکشمیر کی حکومت یا اسمبلی کو قانون سازی یا انتظامی اختیار حاصل نہ تھا۔ اب محض 33امور حکومت پاکستان کے پاس ہیں جن پر بھی آزادکشمیر اسمبلی حکومت پاکستان کی اجازت سے قانون سازی کرسکتی ہے۔ یہ وہ امور ہیں جو اگر حکومت آزادکشمیر کے حوالے بھی کردیئے جائیں تو اس کے کسی کام کے نہیں ۔ نئے آئین کے مطابق بلدیاتی اداروں کے الیکشن کرانا بھی اب حکومت کی آئینی ذمہ داری بن چکی ہے۔ الیکشن کمیشنر کے بجائے ایک سہ رکن الیکشن کمیشن کاا دارہ بھی قائم کیاگیا ۔ علاوہ ازیں سیاسی اصلاحات بھی نئے آئینی پیکج کا حصہ ہیں۔وزراء اور مشیروں کی بھی ایک حد مقرر کی گئی جو کہ ایک مثبت قدم ہے۔ آزادکشمیر شہریوں کو وہ تمام بنیادی حقوق بھی دے دیئے گئے جو 1973کے آئین میں پاکستان کے شہریوں کو حاصل ہیں۔ حرف آخر کے طور پر عرض ہے کہ موجودہ آئینی ترامیم میں ابھی کچھ خلاء موجود ہیں جنہیں اگلے مرحلے پر دور کیاجاسکتاہے۔ موجودہ حالات میں جو کچھ حاصل کرنا ممکن تھا وہ حاصل کرلیاگیا۔