چلئے کچھ دوٹوک بات کرتے ہیں۔ وہ بات جو یکطرفہ نہیں دو طرفہ ہو اور جو تصویر کے ایک رخ پر ہی ساری توجہ مبذول نہ کرتی ہو بلکہ تصویر کے اس رخ کا بھی احاطہ کرتی ہو جو ہمارے نام نہاد لبرل ڈیموکریٹس کی حقیقت پسندی کا پول کھولتی ہو۔یہ ایک حقیقت ہے کہ کبھی کم تو کبھی زیادہ لیکن اس ملک میں سنسر شپ ہر دور میں رہی ہے۔ اور صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں دنیا کے ہرملک میں ہر دور میں موجود رہی ہے۔ آزادی کا سب سے بڑا علمبردار امریکہ ہی ہے نا؟ کیا کوئی بتا سکتا ہے سرد جنگ کے دور میں امریکی میڈیا میں ’’سوویت موقف‘‘ پیش کرنے کی کتنی آزادی تھی ؟ پروپیگنڈے کی دنیا میں آئرن کرٹن تو سوویت یونین کا ہی مشہور تھا مگر کیا یہی آئرن کرٹن خود لبرل مغربی میڈیا میں موجود نہ تھا ؟ کیا مغربی میڈیا ہمیشہ سے لبرلزم کے مخالفین کے خلاف یک طرفہ مہم نہیں چلاتا آرہا ؟ کیا امریکہ میں قانون موجود نہیں کہ سی آئی اے کی بدمعاشیوں پر مشتمل حقائق بیان کرنے کے لئے دو دو اور چار چار عشرے انتظار کرنا پڑے گا ؟ کیا جان ایف کینیڈی کے قتل سے متعلق حقائق کو قانون کی مدد سے ستر سال تک چھپائے رکھنے کا بند و بست موجود نہیں ؟ کینیڈی قتل کا ’’سچ‘‘ـ چھپانے کے لئے قانونی پابندی سنسرشپ نہیں ؟ کیا یہ سچ کا گلا گھونٹنا نہیں؟ کیا اس پابندی کے ذریعے یہ بند وبست نہیں کیا گیا کہ کینیڈی کے اصل قاتلوں کو طبعی موت مرنے کا پورا موقع فراہم کرتے ہوئے انہیں ستر برس تک آزادنہ زندگی جینے کا موقع فراہم کیا جائے ؟ مردہ کینیڈی پر ہی کیا موقوف، آپ ڈونلڈ ٹرمپ کا ہی معاملہ دیکھ لیجئے ! وہ تمامتر توقعات کے برخلاف جیت گیا تو امریکی اسٹیبلیشمنٹ اور میڈیا اس کا کیا حشر کر رہے ہیں ؟ وہ منتخب صدر ہونے کے باوجود نشانے پر نہیں ؟ اس نے ابھی حلف بھی نہ اٹھایا تھا کہ دھمکی دیدی گئی کہ ہم اس کا مواخذہ کرکے چلتا کردیں گے۔ کیا اسی امریکہ میں گوانتاناموبے کے قیدیوں کو اپنا قانونی موقف دنیا کے سامنے رکھنے کی اجازت تھی ؟ کیا انہیں صرف اس لئے امریکہ سے باہر قید نہیں کیا گیا کہ خود امریکی عدالتوں کے دائرہ اختیار سے بھی وہ باہر رہیں اور امریکی عدالتیں بھی انہیں آزادی اظہار یا رہائی نہ دے سکیں ؟ اگر یہ سب جبر اور سینسرشپ نہیں تو پھر کیا ہے ؟امریکہ کرے تو ’’لبرٹی‘‘ اور کوئی اور کرے تو جرم ؟ دنیا کے ہر ملک میں وہاں کے اپنے ماحول، کلچر، تہذیبی و ثقافتی روایات کے مطابق جمہوریت کا اپنا ورژن موجود ہے۔ کہیں جمہوریت صدارتی نظام کی صورت موجود ہے تو کہیں پارلیمانی نظام کی صورت۔ کہیں صدر حاکم ہے تو کہیں وزیر اعظم ۔ یہاں تک کہ کئی جمہوری ملکوں میں بادشاہتوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا مگر علامتی طور پر ہی سہی کئی جمہوری ملکوں میں بادشاہ اور ملکہ کو پوری باقاعدگی و کر و فر کے ساتھ موجود رکھا گیا ہے۔ صرف موجود ہی نہیں رکھا گیا بلکہ ایک خطیر رقم سے انہیں پالا پوسا بھی جا رہا ہے۔ یہی جمہوریت اپنے ملک کے تہذیبی، ثقافتی و فکری تقاضوں کے مطابق ایران یوں ایجاد کرلے کہ باقاعدہ انتخابات کے ذریعے صدر اور شوریٰ کا بندوبست کرلے اور ’’منتخب صدر‘‘ کو حاکم بنالے مگر ساتھ ہی ’’روحانی پیشوا‘‘ کے عنوان سے ریاست کی بزرگ ہستی کا بند و بست بھی کردے تو یہ جمہوریت عوامی حمایت کے باوجود جرم بن جاتی ہے، اور اس کے خلاف دبا کر یکطرفہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ مغرب پروپیگنڈہ کرے تو یہ ’’آزادی اظہار‘‘ لیکن سوال یہ ہے کہ پروپیگنڈہ کرنے والے مغربی میڈیا میں ایرانی موقف کے لئے بھی کوئی گنجائش ہے ؟ آپ جس کی دھجیاں اڑا رہے ہوں اسے اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت ہی نہ دے رہے ہوں تو یہ سنسر شپ نہیں ؟ اسی طرح اپنے ماحول اور فکر ی تقاضوں کے مطابق پاکستان ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ بن جائے تو آپ کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے دستور کو ڈنڈے کے زور پر تبدیل کارنے کی مہم آپ چلاتے ہیں اور ڈنڈے کے زور پر شریعت کے نفاذ کا الزام مذہبی فکر پر دھرتے ہیںاور پھر بھی آپ ہی مہان ؟ آپ ایک طرف قانون کی بالادستی کی بات کرتے ہوں ۔ اور یہ کہتے ہوں کہ عافیہ کا کیس عدالت میں ہے اس میں حکومت مداخلت نہیں کر سکتی لیکن پاکستان میں مقدمہ آسیہ پر عدالت میں چل رہا ہوتا ہے اور آپ وزیر اعظم سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ آسیہ کو سزا ہوئی تو پاکستان کی خیر نہیں۔ ہم تمہارے تجارتی معاہدوں سمیت ہر چیز کا تیا پانچا کردیں گے۔ کیا یہی نہیں وہ لبرل ڈیمو کریسی جسے ’’حریت‘‘ کی ضمانت دینے والا اکلوتا نظام بتایا جاتا ہے ؟ مغربی میڈیا حافظ سعید کے خلاف تو ڈھول پیٹتا رہے جو انتخابات میں ایک سیٹ تک جیتنے کی سکت نہیں رکھتے لیکن بھارت میں مذہبی جنونی اور گجرات کے قاتل حکومت میں آجائیں تو یہ بالکل ٹھیک ہے۔ اس پر مغربی میڈیا کوئی طوفان نہیں اٹھاتا کہ ایک مذہبی جنونی کو انتخابات لڑنے کی اجازت کیسے دیدی گئی ؟ اور وہ وزیر اعظم کیسے بن گیا ؟ یہاں پاکستان میں گینگ ریپ کا ایک واقعہ ہوجائے تو اسے تو مغربی میڈیا بیس بیس سال تک اچھالتا نظر آتا ہے لیکن اسی مغربی میڈیا میں گجرات کا پورا قتل عام جگہ پانے میں ناکام رہ جاتا ہے، کیا یہ سنسر شپ نہیں ؟ خود ہمارے انگریزی اخبارات کے کچھ بڑے بڑے پنڈت کہلاتے تو آزادی اظہار کے چیمپئن ہیں لیکن کیا یہ اپنے اخبارات میں مذہبی فکر کو اپنا مؤقف پیش کرنے کی اجازت اور جگہ دیتے ہیں ؟ کیا یہ سنسرشپ نہیں ؟ میں بس یہ سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک ہی طرح کے جرم میں آپ کے پیمانے مختلف کیوں ہیں ؟ کوئی حساس سرکاری ادارہ آپ کو اپنے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈے سے روکے تو آپ بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر داد شجاعت کو نکل آتے ہیں لیکن الطاف حسین ڈنڈے کے زور پر آپ کی سکرینوں پر تین تین گھنٹے قابض رہے تو آپ کی شجاعت گھاس چرنے چلی جاتی ہے، کیوں ؟ میں کسی بھی سنسر شپ کی ہرگز ہرگز حمایت نہیں کر رہا اور نہ اس کا سوچ سکتا ہوں لیکن معیار ایک ہی رکھنا ہوگا۔ دوغلا پن لبرل ڈیموکریسی تو ہوسکتا ہے لیکن آزادی اظہار نہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ آپ حق گوئی کرتے ہیں مسئلہ آپ کا دوغلا پن اور وہ ایجنڈا ہے جو کرائے کا ایجنڈا ہے۔