ایک بار پھربہت باتیں ہو رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان آنے والے انتخابات میں ان کی فتح کے امکانات کو معدوم کر سکتی ہیں۔ ریحام خان کی انکشافات سے بھر پور کتاب کے بارے میں توقع یہ ہے کہ یہ جولائی میں ہونے والے انتخابات میں پی ٹی آئی کے نتائج پہ زلزلہ خیز انداز میں اثر انداز ہو گی۔ احساس توہین کی شکار ایک سابقہ بیوی کس قدر رنگین تفصیلات سے پردہ اٹھا سکتی ہے؟ اس بارے میں ہم کوئی رائے زنی نہیں کر سکتے۔ تاہم یہ ضرور سمجھ سکتے ہیں کہ اس سے عمران خان کی شہرت پہ اثر ضرور پڑے گا کیونکہ انتخابات سے ذرا قبل ایسی کتاب کی اشاعت کا اور کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ اگر تو ریحام خان اپنی کوشش میں کامیاب ہوئی تو ایک عورت کی وجہ سے یہ عمران خان کی دوسری انتخابی شکست ہو گی۔ 2009ء کے موسمِ گرما میں ہم نے عمران خان کا ایک انٹرویو کیا تھا اور ہم نے ان سے پوچھا تھا کہ 1996 ء کے انتخابات کے وقت ان کی مقبولیت عروج پہ تھی۔ تاہم انتخابات سے ذرا قبل پی ٹی وی پہ خان صاحب کے معاشقے اور ناجائز اولاد کے بارے میں خبریں چلیں اور اس کے بعد سیتا وائٹ کا نام تقریباً سبھی کی زبان پہ تھا۔خان صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تھا کہ سیتاوائٹ والے معاملے سے زیادہ نقصان انھیں یہودی مخالف لابی کے اس پراپیگنڈے نے پہنچایا تھا کہ ان کے سابق سسر جمی گولڈ سمتھ نے ان کی انتخابی مہم کے لئے چالیس ملین ڈالرز دئیے تھے۔خان صاحب نے مزید یہ بھی کہا کہ ’’جہاں تک سیتا وائٹ کا تعلق ہے تو میں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں ایک فرشتہ ہوں۔اپنی ذاتی زندگی کو میں نے کبھی چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی۔مجھے اپنی غلطیوں کا اعتراف ہے لیکن اب اندرونی طور پر مجھ میں کافی تبدیلی آ چکی ہے۔ روحانیت نے مجھے ایک بہتر انسان بنا دیا ہے۔‘‘ عمران خان جب سے سیاست میں داخل ہوئے ہیں ٹیریان جیڈ کا نام کسی آسیب کی مانند ان کے ساتھ لگا رہا ہے۔پہلے پہل خان صاحب نے تردید کی تھی کہ ٹیریان ان کی بیٹی نہیں ہے۔بعد میں مبینہ طور پر انہوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ وہ ان کی ناجائز اولاد ہے۔اصل کہانی کیا ہے؟ ہم نہیں جانتے ، سومزید اس معاملے میں کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہوگا۔تاہم 1996ء کے انتخابات میں نواز شریف کی پراپیگنڈہ مشین پوری طرح عمران خان کی جان کے درپے تھی اور بالآخر اس کی کاوشوں نے خان صاحب کی فتح کے تمام تر امکانات کی راہ کامیابی سے مسدود کر دی تھی۔اس کے علاوہ ایم کیو ایم والے بھی خان صاحب کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔ہمارا اگلا سوال خان صاحب سے یہ تھا کہ ’’ایم کیو ایم نے آپ کے خلاف جو میڈیا ٹرائل شروع کیا تھا اس میں آ پ کے کردار پہ سوالات اٹھائے گئے۔ سابق کرکٹر سرفراز خان بھی ان کے ساتھ مل گئے تھے اور وہ الطاف حسین سے ملاقات کے لئے لندن بھی گئے۔آپ نے جواباًایم کیو ایم کی قیادت پہ دہشت گردی کے الزامات لگائے تھے لیکن ان پہ مزید پھر آپ آگے نہیں بڑھے۔ کیوں؟‘‘خان صاحب نے جواب دیا کہ ’’میرے پاس ثبوت موجود ہیں لیکن میرے گواہ خوف کی وجہ سے آگے نہیں آ رہے۔میں نے درخواست کی تھی کہ سکاٹ لینڈ یارڈ والے پاکستان آکر ان کے بیانات ریکارڈ کرلیں لیکن چونکہ اس وقت حکومت بھی ایم کیو ایم کی تھی لہٰذا سکاٹ لینڈ یارڈ والوں کو ویزے نہیں دئیے گئے۔‘‘اس کے بعد موضوع بدلنے کے لئے ہم نے ان سے پوچھا کہ خان صاحب، آپ تو 57 برس کی عمر میں بھی کافی فِٹ اور پرکشش ہیں تو کیا آ پ کی زندگی میں اس وقت کوئی خاتون موجود ہیں؟جواب میں خان صاحب ہنسنے لگے اور کہا کہ ’’ سیاست میری زندگی ہے اور کسی چیز کے لئے میرے پاس وقت ہی نہیں۔ میرے لئے سب سے زیادہ خوشی کا باعث میری اولاد ہے۔ان کا باپ ہونا مجھے ایک تکمیل کا احساس دیتا ہے۔تاہم یہ بات مجھے اداس کرتی ہے کہ میرے بیٹے میرے پاس نہیں رہتے۔ان کی خاطر میں دوبارہ کبھی شادی نہیں کروں گا۔‘‘ تاہم نو سال پہلے بڑے مضبوط لہجے میں اس عزم کے اظہار کے باوجود آج وہ ایک بار نہیں بلکہ دو بار شادی کر چکے ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے بھی یہ دھمکی دی ہے کہ وہ خان صاحب کی ناجائز اولاد کا معاملہ آئین کی دفعات 62 اور 63 کے تحت جانچ کے لئے عدالت میں اٹھائیں گے ۔ خان صاحب پہ انگلی اٹھانے سے پہلے چودھری صاحب کوذرا اپنے گریبان میںبھی جھانک لینا چاہئے۔ان کے اپنے کارنامے بھی کچھ کم نہیں، ان کے بیٹے ارسلان کے بزنس معاملات تو خاص طور پر مشکوک ہیں۔یہاں معاملہ جنسی بے راہ رو ی کا نہیں بلکہ کرپشن جیسے زیادہ سنگین جرم کا ہے۔ ہم چودھری صاحب کو یہ کہنا چاہیں گے کہ جب جنرل مشرف نے آپ کو برطرف کیا تھا کہ تو آپ نے بڑی کامیابی سے ہم سب کو بے وقوف بنا کر یہ باور کروایا تھا کہ اکیلے آپ ہی پاکستان کی نمائندگی کے لئے موزوں ترین فرد ہیں۔ آپ کے دفاع کے لئے پورا ملک اٹھ کھڑا ہوا تھا۔آپ کا کیس لڑنے کے لئے عورتوں نے اپنے زیور بیچ دئیے تھے۔آپ ہمارے ہیرو تھے لیکن اپنی بحالی کے بعدآپ ایک زیرو بن گئے۔چودھری صاحب، ہماری بات مانیے! جو لوگ خود شیش محل میں رہتے ہیںانھیں دوسروں پہ سنگ زنی نہیں کرنی چاہئے مطلب یہ جب آپ کا اپنا دامن داغدار ہے تو دوسروں پہ انگلی اٹھانا آپ کو زیب نہیں دیتا۔آپ ایک غیر معروف سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔آپ جانتے ہیں کہ اس وقت عوام کی نظروں میں آنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ خان صاحب کی ذاتی زندگی کے معاملات کو عوامی سطح پر اچھالا جائے۔اپنے ایک انٹرویو میں افتخار چودھری نے کہا تھا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ جو کوئی بھی اس ملک کا لیڈر ہو اس کے خلاف ایسے الزامات نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ یہ معاملہ اعتماد کا ہے۔ہم سابق چیف جسٹس سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا اپنی اس بات کے ذریعے وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ خود انھیں اس ملک کا حکمران ہونا چاہئے کیونکہ صرف انہی کا کردار صاف ہے؟اس قدر جوشیلے پن کا مقصد کیا ہے؟اپنے انٹرویو میں انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ اس معاملے کو کبھی بھی عدالت میں نہیں اٹھایا گیا لیکن اب وقت ہے کہ اس پہ عدالت کوئی فیصلہ کرے۔بقول ان کے نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے نے اس ضمن میں معیار مقرر کر دیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ وقت کاعنصر اس مقدمے میں قابل توجہ اس لئے نہیں ہے کہ سیاستدان ہمیشہ قابل احتساب اور عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ہمیں تو یہ اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں کہ بعض ٹی وی چینلز جو پہلے عمران خان کی حمایت میں بولتے تھے اب ان کا لہجہ اچانک بدل گیا ہے اور وہ خان صاحب کے خلاف بول رہے ہیں۔کہا جا رہاہے کہ آصف زرداری نے کی پراپرٹی ٹائیکون کے ساتھ مل کر بعض ٹی وی چینلوں کے مالکان کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد یہ تھا کہ عمران خان کو انتخابات میں شکست سے دوچار کروانے کے لئے ان کے کردار کو ہدف بنانے کی پوری منصوبہ بندی کی جائے۔ ایک اردو روزنامے کے مالک بھی انتخابات کے نتائج پہ اثر انداز ہونے کے لئے بڑا گندا کھیل کھیل رہے ہیں۔ اپنے پورے میڈیائی ادارے کو وہ اس مقصد کے لئے کام پہ لگائے ہوئے ہیں کہ عوام میں اس تاثر کو فروغ دیا جائے کہ عمران خان انتخابات لڑنے کے اہل نہیں ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ پوری دنیا اس سازش میں شریک ہے کہ کسی طرح خان صاحب اور ان کی جماعت کو انتخابات میں ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا جائے۔اس صورت میں زرداری صاحب اور ان کے فرزند ارجمند بلاول ہی اقتدار پہ قابض ہوں گے۔ یہ ایک بڑی ہی بری صورتحال ہو گی کیونکہ جمہوریت کو زرداری صاحب سے زیادہ نقصان شاید ہی کسی اور نے پہنچایا ہو۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ماضی میں کئی غلطیاں کر چکے ہیں۔ عورتوں کے انتخاب میں بھی ان سے ہمیشہ غلطیاں ہوئی ہیں۔یہی عورتیںپھر انھیں دلدل میں دھنسا دیتی ہیں۔