حکومت اور اسٹیٹ بنک چھوٹے اور درمیانے کاروبار کیلئے ایک منفرد اسکیم سامنے لا رہے ہیں یہ ایک سستے قرضوں کی نئی اسکیم ہے اس اسکیم کی بڑی خصو صیت یہ ہے ایک کروڑ روپے تک کا قرضہ بغیر کسی ضمانت کے مل سکے گا یہ قرضہ ان لوگوں کو ملے گا جو چھوٹا یا درمیانہ کارو بار کرنا چاہتے ہیں لیکن پاکستان کے بنک سسٹم میں ان لوگوں کیلئے قرضہ حاصل کرنا،اسکی ضمانت دینا یہ سب نا ممکن تھا اس سے پہلے چھوٹااور درمیانے درجے کا کاروبار شروع کرنے کیلئے کبھی کوئی قرضہ نہیں ملا نہ ہی کسی حکومت نے کبھی اس پر توجہ دی۔ اب یہ کیفیت یکسر بدلنے جا رہی ہے۔ ایس ایم ای سیکٹر پاکستان کی جی ڈی پی میں 40 فیصد اور ملکی برآمدات میں 25 فیصد حصہ ڈالتا ہے لیکن سکیورٹی نہ ہونے پر زیادہ تر چھوٹی صنعتیں اور کار خانے بنکنگ فنانس نہیں لے پاتے ،یہی وجہ ہے کہ مارچ 2021 تک ایس ایم ای فنانسنگ 444 ارب روپئے جو ملکی پرائیو یٹ سیکٹر میں کل کریڈٹ کا صرف 6.6 فیصد ہے۔وزیر خزانہ پر عزم ہیں کہ حکومت چھوٹی صنعتوں کیلئے قرضوں کا اجرا آسان بنا رہی ہے، وزیر خزانہ کے مطابق اسمال اینڈ میڈیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ سمال اینڈ میڈیم بہت زیادہ ہے یہ 80 لاکھ لوگ ہیں اور ان کے لئے قرضہ ایک لاکھ 80 ہزار ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ سارا کریڈٹ75 فیصد کارپوریٹ سیکٹر لے جاتا ہے اور سمال ایند میڈیم کو صرف6فیصد ملتا ہے، اسے ہم نے ٹھیک کرنا ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق اس اسکیم میں حکومت قرض وصولی کے ممکنہ نقصانات میں بنکوں کو 40 سے 60 فیصد رسک کوریج دے گی۔گورنر اسٹیٹ بنک رضا باقر کا کہنا ہے کہ حکومت کی رسک گارنٹی کے بعد اب ایس ایم ای کی نقصان کی پریشانی نہیں رہے گی ۔ انکا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بنک عنقریب ایک نئی اسکیم شروع کرے گا جو ایس ایم ای کیلئے لئے ہوگی،ایس ایم ای میں جو بہت بڑی دقت پیش آتی ہے اگر وہ بنک سے قرضہ لینے جاتے ہیں تو بنک کہتا کہ آپ گارنٹی کے طور پر کچھ دیں۔ ایس ایم ای والوں کے پاس ایسا کچھ ہوتا نہیں اب حکومت اسٹیٹ بنک کے ساتھ مل کر ایک نئی اسکیم لا رہی ہے جس میں گارنٹی کی ضرورت نہیں ہو گی۔اسٹیٹ بنک کے مطابق اب ایس ایم ای والے سالانہ 20یا 25 فیصد مارک اپ کی بجائے 9 فیصد ریٹ پر ایک کروڑ روپئے تک کے قرضے لے سکیں گے۔ اس میں کمرشل بنکنگ کے ساتھ شریعہ کمپلائنٹ پروڈکٹ بھی ہونگی،اسٹیٹ بنک کے مطابق جب بنک کسی کو قرضہ دے گا تو بنک اس شخص کو پوری طرح جائزہ لے گاکچھ، لوگ ایسے ہیںجن کے پاس پہلے سے کچھ سرمایہ ہے تووہ اپنا سرمایہ بتائے گا ،بنک پوری جانچ پڑتال کرینگے کیونکہ بنک کا اپنا بھی رسک ہو گا اگر 60 فیصد حکومت کی گارنٹی ہے تو 40 فیصد رسک تو بنک کے پاس ہے اور بنک اپنا 40 فیصد بچانے کیلئے جانچ پڑتال کرینگے۔ اگر کوئی بنک کا لون واپس نہیں کرے گا تو پھر اس کیخلاف قانونی کارروائی بھی ہو گی، بنک کی اس اسکیم سے پہلے یہ لوگ شخصی لون لیتے تھے یا مڈل مین سے سامان لیتے تھے تو پہلے تو ان کا کاروبار یوں چل رہا تھا ا اور وہ قرضے اتنے بڑھ جاتے تھے کہ وہ واپس کرنے کے قابل نہیں رہتے تھے ،بنک انکی مدد کرے گا۔ہم کوشش کر رہے ہیں کہ بنکوں کے مسئلے بھی حل ہوں اور لوگوں کے بھی، دونوں طرف سے کام بہتر رہے۔اسٹیٹ بنک دوسرے بنکوں کو پیسہ دے گا وہ عام آدمی کو قرض د یں گے۔ اسٹیٹ بنک یہ پیسہ تین سال تک دیتا رہے گا اس وقت تک دوسرے بنک اپنا کام خود کرنا شروع کردینگے اور اپنا سسٹم بڑھائیں گے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ لوگوں کے پاس آئیڈیاز ہوتے تھے کچھ کرنے کی صلاحیت ہوتی تھی لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ کچھ نہیں کرپاتے تھے۔ اب لوگوں کے پاس آئیڈیاز ہیں، بنک انکی اسپورٹ کرے گا وہ لوگ اپنا ذاتی کاروبار شروع کرسکیں گے۔اسٹیٹ بنک کے مطابق اسٹیٹ بنک ہر بنک کو پیسے نہیں دے گا بنک بولی لگا ئیں گے جو زیادہ اچھی بولی دے گا اور لوگوں کو بہتر انداز میں قرض دینے کی صلاحیت رکھے گا۔ اسٹیٹ بنک صرف اسی بنک کو پیسے دے گا ۔ اس میں 8 بنک ہونگے جو لوگوں کو قرضے دینگے،بنکوں سے یہ سوال ہوگا کہ وہ کتنے لوگوں کو کتنا قرضہ دینگے جو اسٹیٹ بنک کو مطمئن کرے گا اس بنک کو اسٹیٹ بنک سپورٹ کرے گا۔علاوہ ازیں پنجاب حکومت نے صوبے میں کاٹیج انڈسٹریز اور چھوٹی صنعتوں کے فروغ کیلئے آسان شرائط پر قرضے کا پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے خطیر رقم بھی مختص کر دی ہے۔آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی سے صوبے کی صنعت ترقی کرے گی،سرمائے کی کمی کے باعث کاروبار کو وسعت نہ دینے والی صنعتوں کو ان قرضہ سکیموں سے بہت فائدہ ہوگا اور نوجوان نہ صرف ہنر سیکھیں گے بلکہ انہیں روزگار بھی ملے گا۔آسان شرائط پر قرض دینے کے پروگرام کیلئے 30 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ کاٹیج انڈسٹریز کو فروغ دینے کیلئے 3 لاکھ روپے تک کا قرضہ دیا جائے گا۔ قرضے کی واپسی 3 برس میں ہوگی جبکہ3 ماہ کا گریس پیریڈ ہوگا۔ اسی طرح سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کیلئے 6 ارب روپے کی لاگت سے قرضے کی سکیم شروع کی جائے گی جس کے تحت 30 لاکھ روپے تک کا قرضہ دیا جائے گا اور 6 ماہ کا گریس پیریڈ ہوگا۔ دوسری طرف آئی ایم ایف نے ممبر ممالک کیلئے 650 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کو شروع کر دیا ہے۔ پاکستان کو 2 ارب 77 کروڑ ڈالر قرضہ مل گیا۔ یہ قرضہ غیر مشروط طور پر دیا گیا ہے پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں جو 27 ارب 40 کروڑ ڈالر ہیں۔ اس رقم کی منتقلی سے عالمی معیشت میں اعتماد اور استحکام آئے گا۔ اس قرض سے عالمی معیشت دوبارہ ابھرے گی قرض لینے والے ممالک پر منحصر ہے وہ اس رقم کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ یہ رقم زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے‘ قرض کی ادائیگی کیلئے استعمال کی جا سکتی ہے۔کسی بھی ملک میں حکومت کے لیے آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ محصولات یعنی ٹیکسز ہوتے ہیں لیکن ان کا ناروا بوجھ جہاں عوام کے لیے مسائل کا باعث بنتا ہے وہیں لوگوں کے غیر ضروری محصولات سے بچنے سے استعمال کیے جانے والے ہتھکنڈوں کی وجہ سے حکومت کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں حکومت کی ٹیکس کی مد میں ہونے والی آمدنی اس کے اخراجات سے کہیں کم ہوتی ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ٹیکسوں کی وصولی کے نظام کو درست کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اور اس حوالے سے کئی اہم اقدامات بھی کیے جارہے ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک اقدام یہ بھی ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) نے ملک بھر سے ایسے 72 لاکھ افراد کا مستند ڈیٹا اکٹھا کیا ہے جو ٹیکس گزار کی حیثیت سے ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ، اس طرح ٹیکس گزاروں کی چھان بین کا کام ایف بی آر کی بجائے آڈٹ کمپنیاں سرانجام دیں گی اور نئے ٹیکس گزاروں کا اولین سطح پر ایف بی آر کے ساتھ براہ راست تعلق قائم نہیں ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسی پالیسیاں بنائے جن سے عام آدمی پر محصولات کا بوجھ کم ہو اور ایسے افراد اور ادارے ٹیکس نیٹ میں آئیں جن کی آمدن کروڑوں اور اربوں میں ہے لیکن ان کی طرف سے ٹیکس کی مد میں ایف بی آر کو ہونے والی ادائیگیاں اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہیں۔