شام فراق یار نے ہم کو اداس کر دیا بخت نے اپنے عشق کو حسرت ویاس کر دیا خوئے جفائے ناز پر اپنا سخن ہے منحصر ہم نے تو حرف حرف کو حرف سپاس کر دیا یہ اداسی بھی عجیب شے ہے کہ اسے محسوس کیا جا سکتا ہے مگر بیان کرنا مشکل ہے۔ اس کی کوئی خاص وجہ بھی نہیں ہوتی وہی کہ جیسے ناصر کاظمی نے اسے دیکھا تھا۔ ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر، اداسی بال کھولے سو رہی ہے۔ سچ مچ ایسا ہی منظر دکھائی دیتا ہے۔ ایک بے برکتی ہر طرف ہے۔ اوپر سے وبا اور خوفزدہ لوگ۔ شب و روز زندگی تنگ ہو تی اور بڑھتی ہوئی بھوک۔ وہی کہ‘ اعضا کہیں اعضا کو نہ کھالیں۔ بہرحال اداسی ہے‘ لب یہ اوڑھے میں پیاس رہتا ہوں۔ کیا سمندر کے پاس رہتا ہوں۔ حل نکالا ہے یہ اداسی کا، اب مکمل اداس رہتا ہوں۔ حالات آنے والے دنوں کا جبر بتا رہے ہیں۔ آپ عالمی اداروں کو ہاتھ کاٹ کر دے چکے ہیں۔ وہ ہاتھ آپ کا گلہ کاٹیں یا رحم کھائیں‘ ان پر ہے۔ عوام حالات کے رحم و کرم پر ہیں۔ ڈسکہ کا الیکشن اور اس سے پہلے کے ضمنی الیکشن عوام کے موڈ کا پتہ دے رہے ہیں۔ سیدھی بات یہ کہ ن لیگ کی سیٹ تھی وہ لے گئے۔ مانیں یا نہ مانیں‘ آپنجاب کو نظر انداز کیا گیا: ایک خلقت ہے کہ نفرت سے بھری بیٹھی ہے ایک طوفان ہے کہ لوگوں نے دبا رکھا ہے دیکھئے خوبصورت باتیں کرنا اور بات ہے کہ ہمارے ایک غصیلے دانشور جو گالی سے بات آغاز کرتے ہیں ایک خاتون پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے تھے کہ اس نے بڑی بات کہہ دی کہ جس قوم کو 35 سال کرپشن نظر نہیں آتی اسے تین سال میں تبدیلی کیسے نظر آئے گی۔ خدا کے لیے سچ بولیں۔ کیا واقعتاً پنتیس سال کرپشن ہوتی رہی اور اب نہیں ہورہی۔ یہ تو خود خان صاحب کہہ چکے ہیں کہ کرپشن بڑھ گئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ 35 سال کیوں پورے ستر سال کیوں نہیں۔ آپ کی زبان لڑ کھڑا کیوں جاتی ہے۔ کون سا پاکستانی ہے جو حالات میں تبدیلی نہیں چاہتا۔ مگر ان کی تو اپنی حالت بدتر سے برتر ہوتی جا رہی ہے۔ وہ بے چارہ تو بجلی اور گیس بلوں کی نذر ہو ر ہا ہے۔ مہنگائی کی کوئی شرح بھی ٹھہر نہیں رہی۔ اب یہ جو پروگرام کوئی بھوکا نہ سوئے گا یعنی موبائل لنکر پروگرام یہ غلط نہیں ہے ، پھریوں ہوا کہ ہاتھ سے کشکول گر گیا خیرات لے کے مجھ سے چلا تک نہیں گیا غریب لوگوں کو سہولت بہم پہچانا خیراتی اداروں کا کام ہے۔ اس کے علاوہ مخیرحضرات ہیں۔ یہاں کئی فلاحی ادارے ہیں جنہوں نے کئی کام اپنے سر لیے ہوئے ہیں۔ ابھی کل ہی ایک پروگرام میں میں مدعو تھا کہ الخدمت دستر خوان پروگرام کا افتتاح نامور کالم نگار اور دانشور اوریا مقبول جان کر رہے تھے۔ خوشی اس بات کی تھی کہ ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی کے بیٹوں نے ان کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے ایسے کاموں کا بیڑا اٹھایا ہے۔ خاص طور پر طیب اقبال صدیقی جوکہ پنجاب یونیورسٹی کے ناظم بھی رہے ہیں انہوں نے یہ دستر خوان کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ میں دیکھ رہا تھا وہاں امیرالعظیم اور ذکراللہ مجاہد کا نام بھی نظر آ رہا تھا۔ مشرف اقبال صدیقی کے گھر پر یہ پروگرام تھا جس میں سو کے لگ بھگ لوگ ہوں گے جو ماسک پہنے ہوئے تھے۔ سٹیج پر مگر اس وقت ماسک اتر گئے جب تصاویر بنیں۔ مرکزی شخصیت اوریا مقبول جان تھے اور ان کی پر مغز باتیں ہم نے سنیں۔ یقینا اوریا صاحب ذہن رسا رکھتے ہیں۔ انہوں نے سائنس کی روح سے وائرس پر بات کی کہ یہ قدرت کے لشکرہیں یہ وائرس بے جان ہوتا ہے مگر جب یہ ہمارے اندر آتا ہے تو زندہ ہو جاتا ہے یعنی ایکٹو۔ تفصیل میں نہیں جائوں گا۔ ایک بات کہنا ضروری ہے کہ ہر مرض اللہ کے اذن سے آتی ہے اور دوسری بات یہ سمجھنا کہ دوا اورخدا مل کر کسی کو شفا دیں گے شرک ہے۔ دوا سنت ہے توکل بھی آخر کوئی شے ہے۔ توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا نتیجہ اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر سٹیج پر ڈاکٹر طارق شریف زادہ‘ مبشر اقبال صدیقی‘ انور گوندل اور احمد بلوچ تھے جو اعوان ٹائون جماعت اسلامی کے صدر ہیں۔ توصیف احمد عوان جنرل سیکرٹری ہیں۔ نصیر اعوان نے دعا کروائی۔ اوریا مقبول جان نے غریبوں اور مسکینوںکے لیے الخدمت دستر خوان کے کرتا دھرتا کو بہت سراہا۔ چائے پر بیٹھے تھے کہ اوریا صاحب نے مجھ سے کہا کہ ذرا غور کرو کہ اللہ نے سورۃ ماعون میں کہا ہے کہ وہ جو مسکینوں کو کھانا کھانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ کہنے لگے کہ میں اس پر سوچتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں۔ اللہ اپنے بندوں کے بارے میں کس قدر محبت رکھتا ہے۔ یعنی غریب اور مسکین کو کھانا کھلانا تو ہے ہی وہ بھی قصور وار ہے جو کسی کو ترغیب نہیں دیتا۔ تو یقینا طیب اقبال صدیقی نے یہ ترغیب کا کام ہی شروع کیا ہے۔ میں پھر وہی بات کرنا چاہوں گا کہ یہ کام تنظیموں کے ہیں۔ جماعت اسلامی اس کام میں شہرت رکھتی ہے۔ ہمیں بھی پروگرام میں شاعری سنانا پڑی‘ تو دو شعر: اپنی اپنی انا کو بھلایا جا سکتا تھا شاید سارا شہر بچایا جا سکتا تھا دھوپ میں جلنے والو آئو بیٹھ کے سوچیں اس رستے میں پیڑ لگایا جا سکتا تھا