کیا فرق ہے ہم میں اور کسی دور افتادہ‘ جنگل کے درمیان واقع ایک وحشی قبیلے میں! اگر ترقی کا مطلب وسیع شاہراہیں‘ میلوں لمبے شاپنگ مال اور جدید ترین ہوائی اڈے ہوتا تو ایک دنیا شرق اوسط کے ملکوں میں زندگی بسر کرنے کی خواہش مند ہوتی! یہ سب کچھ وہاں موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ!مگر کسی کے دل میں امنگ نہیں اٹھتی کہ وہاں جا کر بسے۔ اس لئے کہ ٹریفک کا حادثہ ہو گیا تو پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ مقامی کون ہے اور غیر مقامی کون؟ ایک پاکستانی نژاد امریکی نے جو واقعہ سنایا وہ ہزار کتابوں اور تقریروں پر بھاری ہے یہ سمجھانے کے لئے کہ ترقی کیا ہے؟ مدینہ منورہ سے پاکستان آنے کے لئے یہ پاکستانی نژاد امریکی‘ ہوائی اڈے پر قطار میں کھڑا تھا۔ پاسپورٹ چیک ہو رہے تھے، بورڈنگ کارڈ ایشو ہو رہے تھے۔ دھاندلی میں لپٹا ایک عرب آیا‘ قطار سے گزر کر سیدھا کائونٹر پر گیا۔ کائونٹر والے نے قطار والوں کو پس پشت ڈال کر پوری توجہ اس پر مرتکز کی اور پھر کیے رکھی۔ اس پاکستانی نژاد امریکی نے کہ عربی میں قدرتِ کلام رکھتا تھا۔ احتجاج کیا، شدید احتجاج! کائونٹر والا اس پر چلایا! تب مسافروں نے اسے سمجھایا کہ میاں! پکڑ کر جیل میں ڈال دیں گے۔ وہ جو قطارکو روند کر گیا ہے‘کوئی بڑا آدمی ہے! خاموش رہو اور گزارا کرو! ان ریاستوں میں اگر سونے کی شاہراہیں بن جائیں‘ ٹیکسیوں کی جگہ ہیلی کاپٹر لے لیں! صحرا کے دور درازگوشوں میں جدید ترین فاسٹ فوڈ دکانیں کھل جائیں‘ پھر بھی ترقی یافتہ نہیں کہلائیں گی! ڈھیلے ڈھالے کسرتی لباس میں ملبوس ایک شخص ورزش کے لئے دوڑ رہا تھا۔ شرطے نے پاسپورٹ مانگا۔ اس نے کہا میں جاگنگ کے لئے نکلا ہوں۔ پاسپورٹ گھر پر ہے اور میں فلاں ملک کا سفیر ہوں! شرطے نے اسے زنداں میں ڈال دیا۔ ایک دن گزرا۔ پھر دو دن۔ بیگم نے شور مچایا۔ حکومت نے حکومت سے رابطہ کیا۔ سفیر کو ڈھونڈا جائے۔ تب شرطے کو یاد آیا کہ ایک گہرے سانولے رنگ کا پستہ قد شخص سفیر ہونے کا دعویٰ کر رہا تھا! نہیں! یہ ترقی نہیں! پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے! ہر سرکاری ادارہ‘ عام پاکستانی سے وہی سلوک کرتا ہے جو شرطہ غیر ملکی سے کرتا ہے بشرطیکہ غیر ملکی کے بدن پر چمڑی سفید نہ ہو! کیا اس سے بھی زیادہ بے کسی اور بے بسی ہو سکتی ہے کہ ایک پاکستانی اپنے سر پر دو ہتھڑ مارتا ہے! ہتھکڑیوں بھرے دو ہتھڑ! وہ اپنا سر پیٹتا ہے۔ زخمی ہو جاتا ہے! اس پر اسے مارا جاتاہے! یہ ایک قیدی ہے جسے اڈیالہ جیل سے پیشی کے لئے دارالحکومت میں لایا جاتاہے۔ جہاں رکھا جاتا ہے وہاں بلیک ہول کا منظر ہے۔ جانوروں کی طرح ٹھونسے گئے انسان! پنکھا تک نہ تھا، دم گھٹنے لگا، اس نے اہلکار سے فریاد کی، اہلکار نرم دل تھا۔ چنگیز خان سے کسی نے پوچھا کبھی رحم بھی کیا کسی پر؟ کہا! ہاں! ایک عورت کا بچہ زمین پر تڑپ رہا تھا۔ اسے نیزے میں پرو کر عورت کو دے دیا ؎ وہ شہسوار بہت نرم دل تھا میرے لیے چبھو کے نیزہ زمیں سے اٹھا لیا مجھ کو نرم دل اہلکار نے کہا کہ مٹھی گرم کرو تو ایسی جگہ کھڑا کروں گا جہاں ہوا لگے۔ افسوس! ہتھکڑی لگے قیدی کے پاس رقم نہ تھی! شور وہ مچاتا رہا کہ اس کا دم گھٹ رہا ہے۔اس پر نرم دل اہلکار نے اسے تھپڑ مارے پھر اس کی ملاقات آئی۔ پانچ منٹ کی ملاقات کے عوض پھر’’خدمت‘‘ طلب کی گئی۔ خدمت کرنے سے وہ قاصر تھا ہی‘ اس پر انکار کر دیا گیا۔ اب اس نے احتجاجاً اپنے سر کو لوہے کی ان ہتھکڑیوں سے پیٹ ڈالا جو اس کی کلائی میں پڑی تھیں اس پرنرم دل اہلکاروں نے دو ایکشن فوری لئے ایک تو اسے مزید مارا۔ سر پر مکے اور چہرے پر چانٹے۔ دوسرے اس کے خلاف ایک اور مقدمہ اس جرم کا دائر کر دیا گیاکہ اپنے آپ کو ہلاک کرنے کی کوشش کر کے یہ بدبخت کارِ سرکار میں مداخلت کا مرتکب ہوا ہے!۔ یہ وہی کچہری تھی جہاں کچھ عرصہ پیشتر سینیٹ کے ایک سابق چیئرمین سے پولیس والے نے شناخت مانگی اور چیک کرنے کی کوشش کی تو پولیس والے کو تھپڑ رسید کئے گئے۔ وہ 2016ء تھا۔ آج 2019ء ہے۔ تب مسلم لیگ نون کی حکومت تھی۔ آج تحریک انصاف مقتدر ہے۔ اس وقت میاں نواز شریف وفاق کے سربراہ تھے۔ آج عمران خان حکمران ہیں! تب بھی پتھر کا زمانہ تھا۔ آج بھی پتھر کا زمانہ ہے! تب بھی ہم پس ماندہ اور وحشی تھے۔ آج بھی ہم پس ماندہ اور وحشی ہیں۔ ایک نہیں لاکھ سی پیک آ جائیں۔ ایک ارب نہیں‘ کھربوں درخت لگا دیے جائیں‘ ایک موٹر وے نہیں‘ سارے ملک کے ایک ایک گائوں کو موٹر وے سے منسلک کر دیجیے۔ ہر تحصیل ہیڈ کوارٹر میں ہوائی اڈہ تعمیر کر دیجیے۔ ہم پھر بھی وحشی رہیں گے۔ اس لئے کہ افریقہ کے وحشی قبائل میں صرف سردار مراعات یافتہ ہوتا ہے‘ باقی کسی کی جان مال عزت کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں! وہ جو کفار کے ملک ہیں‘ ان میں پولیس آپ کو ہاتھ نہیں لگا سکتی! گرفتار کرنے کے بعد ملزم یا مجرم کو سب سے پہلے اس کے حقوق پڑھ کر سنائے جاتے ہیں۔ اسے وارنٹ دکھا کر گرفتار کیا جاتا ہے۔ وارنٹ بغیر گھر کی تلاشی نہیں لی جا سکتی؟ جیل میں اس کے الگ حقوق ہیں۔ کھانا اسے صاف ستھرا دیا جاتا ہے! مسلمان ہے تو جمعہ اور عید کی نماز باجماعت کا انتظام کرنا جیل والوں کی ڈیوٹی میں شامل ہے۔ نصرانی ہے تو پادری اس کے پاس آئے گا۔ اسے چرچ لے جانے کا انتظام کیا جائے گا! اگر وہ مشقت کرتا ہے تو اس کا معاوضہ دیا جائے گا۔ ڈیڑھ سوبرس پہلے اس سفید ریش شخص نے کہ اپنی قوم کے لئے مجنوں بنا پھرتا تھا، رات دن کڑھتا تھا اور خون کے آنسو روتا تھا، کہا تھا کہ ہم ہندوستانی وحشی ہیں۔ اس پر اسے نفرین بھیجی گئی تھی۔ تعصب کی کمان سے فتوئوں کے زہر آلود تیر اس کے بوڑھے سینے میں پیوست کئے گئے تھے ہائے افسوس! بات اس کی سچ تھی! سفید سچ۔ موتیوں جیسا چمکدار سچ۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ہم آج ڈیڑھ سو برس بعد بھی وحشی ہیں! پلس والا ملاقات کے لئے رشوت مانگتا ہے۔ کچہری والا انتقال زمین کے لئے کہتا ہے میرے منہ میں ہڈی ڈالو! گیس والا کہتا ہے میرے منہ میں سؤر کا ٹکڑا ڈالو، رات کو آ کر کنکشن دے جائوںگا۔ اس پروردگار کی قسم! جو اس ملک کی بستیوں کو آن کی آن میں اوپر لے جا کر اوندھے منہ گرا سکتا ہے۔ اس ملک میں پھانسی چڑھنے والے ملزم کے لواحقین سے ’’خدمت‘‘ مانگی جاتی ہے کہ جان جلدی نکلوانی ہے یا دیر سے! پھانسی کے رسے اور نیچے پڑے ہوئے تختے کے درمیان فاصلے کا مسئلہ ہوتا ہے! نفرت سے ناک سکوڑ کر کہتے ہیں کہ فلاں ملک میں سانپ کھاتے ہیں۔ زندہ بندر کا مغز کھاتے ہیں۔ چیونٹیوں کا سُوپ پیتے ہیں کتے اور گدھے کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ خنزیر کھاتے ہیں! تو اس ملک میں کیا کھایا جا رہا ہے؟؟ اُس سپاہی سے لے کر جو قیدی کو جیل سے کچہری لاتا ہے‘ اُس گیس والے سے لے کر جو آدھی رات کوکنکشن مہیا کرتا ہے‘ اہلکار سے لے کر جو انتقال کے کاغذات تیارکرتا ہے، اس کھڑ پنچ تک جو ملک کے اندر اور باہر ہر جائیدادوں اور فیکٹریوں کے انبار جمع کر رہا ہے۔ سب کتے اور سؤر کا گوشت کھا رہے ہیں! پس ماندگی ایک نرم لفظ ہے۔ ہم اسفل السافلین سے بھی بدتر ہیں! ترقی انفراسٹرکچر کا نام ہے نہ شرحِ نمو کا! ترقی یافتہ ملک وہ ہیں جہاں عام انسان کو حقوق حاصل ہیں۔ اسے ہاتھ کوئی نہیں لگا سکتا!!