مبارک، خوشخبری مارچ کی چھ تایخ کو یہ ملی کہ وزیر اعظم نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے۔ اپنے 181حامیوں میں سے انہیں 178ووٹ ملے۔ ایوان میں اپوزیشن موجود نہیں تھی البتہ اس کے بعض ارکان انصاف پسند حلقوں سے یک طرفہ مار کھا رہے تھے جبکہ غیر جانبدار حلقے قریب ہی کھڑے کامل غیر جانبداری کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ وزیر اعظم نے اعتماد کا ووٹ اپوزیشن کی وجہ سے نہیں لیا۔ اپوزیشن نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی اس کی طرف سے تحریک عدم اعتماد لائے جانے کا کوئی اعلان ہوا تھا۔ یعنی وزیر اعظم نے یہ ووٹ ازخود نوٹس پر لیا۔زمانہ قدیم کی بات ہے‘ کراچی سے مشرق اور انجام نام کے اخبارنکلا کرتے تھے۔ انجام حالات کی’’غیر جانبداری‘‘ کی وجہ سے اس مقام پر پہنچ گیا کہ مزید اشاعت کے قابل نہ رہا۔ متعلقہ حکام نے اس کی ’’وفات‘‘ کا اعلان کرنے کے بجائے اسے مشرق میں ضم کر دیا‘ یوں بہت سے کارکن بے روزگاری سے بچ گئے۔ انجام بند ہو گیا لیکن کئی ماہ تک مشرق کی پیشانی میں یہ سطر جلی حروف میں شائع ہوتی رہی کہ :اس میں روزنامہ انجام بھی شامل ہے۔ مشرق میں انجام کی شمولیت تب یاد آئی جب پتہ چلا کہ وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ دینے والے ارکان میں وہ 16ایم این اے بھی شامل تھے جو سینٹ کے الیکشن میں زرداری سب پہ بھاری کے ہاتھوں بک گئے تھے۔ اگرچہ اس خریدوفروخت کا کوئی ثبوت ابھی تک منظر عام پر نہیں لایا گیا لیکن جب خاں نے کہہ دیا کہ بک گئے تو بک گئے۔ جب خاں نے کہہ دیا کہ ہر ایک کو کروڑوں کی رقم دی گئی تودی گئی۔ جب یہ بات خان نے کہہ دی تو پھر تحقیقات غیر ضروری ہے اور ثبوت تو ازحد غیر ضروری۔بہرحال’اعتماد کے ووٹ کی اس تاریخی فتح کی تاریخ ساز سرخی میں اصولاً یہ بات شامل ہونی چاہیے تھی کہ اس فتح میں 16بکائو بھی شامل ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ان 16بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق سترہ فروخت شدگان کے خلاف ابتداً بہت انتباہی اشارے ملے تھے کہ ایجنسیوں سے ان کے بارے میں معلومات لینے کو کہہ دیا گیا ہے اور سخت کارروائی ہو گی لیکن خان صاحب نے اعتماد کی تاریخی فتح سے ایک شام پہلے انہیں تاریخ ساز معافی دے دی۔ یہ بھی فرمایا کہ جس کی مرضی ہو مجھے ووٹ دے جس کی مرضی ہو مجھے ووٹ نہ دے لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جو مجھے ووٹ نہیں دے گا‘ پارٹی سے نکال کر اسے نااہل کر دوں گا‘ بالکل اصولی بات ۔ ساتھ ہی ایک وزیر کے منہ سے یہ بھی فرموا دیا کہ ووٹ نہ دینے والوں کو نشان عبرت بنا دینا چاہیے۔بکائو مال اگر اچھائی کی طرف پلٹ آئے تو پھر سابق حساب اور کتاب سب صاف اور صاف۔ یہی تو تبدیلی کا حسن ہے‘ جمہوریت کا حسن البتہ کچھ اور ہوا کرتا تھا۔الجبرا میںقاعدہ ہے کہ دو جمع اکٹھے ہو جائیں تو حاصل جمع منفی آتا ہے اور دو منفی اکٹھے ہو کر مثبت کو جنم دیتے ہیں۔ الجبرا کی مساوات میں ادھر منفی ہو تو ادھر آنے سے مثبت ہو جاتا ہے۔ تبدیلیاتی الجبرا میں بھی یہی قاعدہ نافذ ہے۔ ادھر ہو تو کرپٹ‘چور‘ ڈاکو‘ ٹھہرا ،لیکن ادھر آئے تو سب کیا کرایا معاف‘ دامن صاف جو سزا وار دشنام تھا‘ اب انعام اس کا استحقاق ٹھہرا۔ ٭٭٭٭٭ ایوان کے باہر انصاف پسند حلقے کچھ ہی فاصلے پر کھڑے غیر جانبدار حلقوں کی موجودگی میں اپوزیشن کے ان رہنمائوں کی دھلائی کر رہے تھے جو پریس کانفرنس کرنے کے لئے آ رہے تھے۔یہ پریس کانفرنس ایک دن قبل طے ہو چکی تھی ایک حملہ آور نے خاتون رہنما مریم اورنگزیب کے پیٹ میں لات دے ماری‘ دوسرے نے احسن اقبال کی طرف جوتا پھینکا۔ خاصا ایمان افروز نظارہ تھا لیکن رنگ میں بھنگ تب پڑی جب باطل قوتوں سے تعلق رکھنے والے ان چھ سات رہنمائوں نے پانچ صد کے قریب اہل صدق و صفا پر جوابی حملہ کر دیا۔ جس پر سینکڑوں افراد کا قافلہ حق و سچ پر ستگان راہ فرار اختیار کر کے محفوظ مقامات کی طرف نکل گیا۔ بعض اوقات راہ فرار ہی راہ صواب ہوتی ہے ٭٭٭٭٭ ازخود نوٹس پر حاصل ہونے والی تاریخ ساز فتح کے بعد وزیر اعظم نے ایک اور تاریخی خطاب کیا اور یہ اعلان دو ہزار تین سو اٹھاسیوی بار دھرایا کہ ہرگز این آر او نہیں دوں گا۔ مزید فرمایا‘ آصف زرداری کرپٹ ہے‘ مسٹر ٹین پرسنٹ ہے۔ فلاں ہے اور فلاں ہے اور اس کی سینٹ میں فتح پر لوگ خوش ہو رہے ہیں۔ کسی نے اس پر طعنہ سازی کی کوشش کی اور کہا کہ جب چیئرمین سینٹ کے الیکشن کے موقع پر اور اس سے پہلے بلوچستان میں نواز حکومت کی بیخ کنی کے لئے تحریک انصاف اور پی ٹی آئی اتحادی بنے تھے تو کیا زرداری اس وقت مسٹر ٹین پرسنٹ نہیں تھے۔ بالکل تھے لیکن ہو سکتا ہے تب خاں صاحب کے ذہن سے یہ بات نکل گئی ہو۔ بھوک چوک سبھی سے ہو جاتی ہے‘ خان صاحب سے بھی ہو گئی۔ اور دیکھو‘ سینٹ کا وہ معرکہ ختم ہوتے ہی خاں صاحب کو بھولی ہوئی بات پھر سے یاد آ گئی۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ صبح کا بھولا شام کو یاد آ جائے تو وہ بھولا نہیں رہتا۔ ویسے بھی آئینی شقیں بعض اوقات عارضی طور پر معطل کر دی جاتی ہیں اور یہ قومی مفاد کے لئے مفید ہوتا ہے‘ ویسے بھی کوئی’’اخلاقی‘‘ شق بھی قومی مفاد کے فائدے کے لئے عارضی طور پر معطل کر دی جائے تو کیا مضائقہ ہے؟ ٭٭٭٭٭ شیخ رشید نے اعتماد کا ووٹ دینے کے موقع پر ایوان سے باہر اخبار نویسوں کو یہ اطلاع دی کہ اسٹیبلشمنٹ پوری طرح عمران خان کے ساتھ ہے۔کچھ دن پہلے‘ غیر جانبدار‘ ہونے کی خبریں چلی تھیں‘ وہ کیا تھیں؟بہرحال‘سو باتوں کی ایک بات۔معاملہ مزید تب کھل جائے گا جب چیئرمین سینٹ کے الیکشن ہوں گے۔اپوزیشن کے چھ ووٹ زیادہ ہیں‘ یوسف رضا گیلانی کو جیت جانا چاہیے لیکن غیر جانبدار قوتیں اسی طرح غیر جانبدار ہیں توحکومتی امیدوار، صادق سنجرانی ہی جیتیں گے۔ صادق سنجرانی گراں قدر قومی اثاثہ ہیں اور قومی اثاثے ہارا نہیں کرتے۔