جب اچھے اچھے تصورات بھی نعرے بن کر رہ جائیں اور نیکی کے کام کمائی کا ذریعہ طے پائیں تب دنیا سے خیر کا عمل اٹھ جاتا ہے۔ یہ تمہیدی جملہ میں نے اس لئے عرض کیا ہے کہ کل یوم مئی تھا‘ مزدوروں کا عالمی دن۔ عجیب بات ہے کہ شکاگو کا یہ واقعہ اشتراکیوں کا نعرہ بن گیا۔ دنیا بھر کی ٹریڈ یونین اس دن کو بڑی آب و تاب سے مناتیں اور سرمایہ دار دانشور یہ سمجھتے کہ اس سے مزدور کا کتھارس ہو جاتا ہے اور وہ انقلاب کی راہ پر گامزن ہونے سے باز رہتا ہے۔ چنانچہ جب نام نہاد سول سوسائٹی یعنی این جی او کا تصور پیش کیا گیا تو پیچھے یہ استحصالی تصور تھا کہ جس طرح ٹریڈ یونین نے دنیا کو انقلاب سے بچایا ہے‘ اس طرح این جی اوز تیسری دنیا کو چھوٹی چھوٹی نیکیوں کے پیچھے لگا کر کسی بڑی انقلابی تبدیلی سے دور کر دیں گی۔ ہم اس پورے عمل سے گزرے ہیں۔ ہمارے ہاں جب بھٹو کا چرچا ہوا تو شہر شہر ٹریڈ یونین تنظیمیں بننے لگی۔ ہر سال سرخ جھنڈوں کی بہار میں یہ دن منایا جاتا۔ کیسے کیسے انقلابی اشراکی دوکان سجائے بیٹھے تھے۔ بتایا جاتا تھا کہ یہ سب گویا بابائے سوشلزم ہیں۔ جواب میں پہلے تو متبادل تنظیمیں بنیں جنہوں نے اپنی نیک نیتی سے ٹریڈ یونین کی شکل بدل دی۔ مجھے یاد ہے ایک زمانہ تھا کہ پی آئی اے میں سرخ انقلاب والی ایک تنظیم کا قبضہ تھا۔ جواب میں پیاسی کے نام پر ایک اسلامی ذہن والی تنظیم بنی جس نے سرخ انقلاب کا بوریا بستر گول کر دیا۔ ملک کے تین بڑے اداروں یعنی ریلوے ‘پی آئی اے‘ سٹیل ملز میں ان اسلامی لوگوں نے پانسہ بدل کر رکھ دیا۔ان دنوں لاہور میں بڑے معروف لیڈر ہوتے تھے‘ کراچی میں بھی ایسا تھا۔ سروے کیا تو پتا چلا کہ ان نامور تنظیموں کے پیچھے برائے نام قوت ہے۔ کراچی میں کے پی ٹی سے لے کر شہر کے دونوں تینوں صنعتی علاقوں میں پانچ سو کے قریب وہ تنظیمیں تھیں جو اسلامی ذہن رکھتی تھیں۔ آہستہ آہستہ بھٹو صاحب نے بھی اپنے رنگ دکھانا شروع کئے۔ سیاست دان کو اقتدار سے غرض ہوتی ہے۔ انقلاب تو بس سامنے کا چہرہ ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو غالباً ایک فیکٹری میں باقاعدہ مسلح چڑھائی کر دی گئی۔ پتا نہیں ذہن میں کیوں آتا ہے‘ ٹینک چڑھا دیے گئے۔ ایسا نہیں ہوا ہو گا۔ کوئی اس طرح کی بات ہوئی جس کا ایسا شدید تاثر بنا ہو گا۔ مجھے یاد ہے اس پر حلقہ ارباب ذوق لاہور میں بڑی دھواں دھار انقلابی بحث ہوئی۔ ان دنوں ہمارے پڑوس میں سرمایہ دار سامراج کا سب سے بڑا گماشتہ شہنشاہ ایران تھا جو اردگرد انقلابی سرگرمیوں پر نظر رکھتا تھا۔ مگر اپنے ہاں انقلابی قوتوں کا نہ روک سکا مجھے یاد ہے ان دنوں اس واقعے پر ہم نے اس انقلاب دشمن کے کردار کو اس حوالے سے دیکھا اور پرکھا۔ پھر جب اقتصادی ضرورت بڑھتی گئی‘ ملک میں ٹریڈ یونین سرگرمیاں ماند پڑتی گئیں حتیٰ کہ دنیا میں فری مارکیٹ اکانومی کا چلن ایسا ہوا کہ کامیاب صنعتی اور تجارتی ترقی کے لئے ٹریڈ یونین سرگرمیوں کا منہ بند رکھنا ضروری ہو گیا۔ دور جدید کے یہ تقاضے ہمارے ہر حکمران نے پورے کئے۔ پھر یہ ہوا کہ برلن کی دیوار گر گئی اور سویٹ یونین بکھر کر رہ گیا۔ کم از کم اس ملک میں اشتراکی انقلابیوں کا پشتی بان کوئی نہ رہا۔ دوسری طرف ایک آواز یہ بھی اٹھی کہ مزدوروں کا دن منانا ہے تو یکم مئی کیوں۔ کیوں نہ اس دن کو منایا جائے جب غزوہ خندق کے موقع پر حضور نبی کریمؐ نے پیٹ پر دو دو پتھر باندھ کر خندق کھودی تھی۔ بہرحال اصل تصور یہ تھا کہ اسلام میں محنت کی عظمت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا گیا ہے اور اسے کم تر اور حقیر نہیں گردانا گیا۔ اصل بات اچھے اچھے تصورات کی ہے نہ کہ صرف لفظوں سے کھیلنے کی۔مسلم دنیا میں ان تصورات کی ابتدا اس دن ہی سے ہو گئی تھی جب ریاست مدینہ کا آغاز ہوا تھا۔ حضور ؐ نے مدینہ میں قدم رکھتے ہی مہاجروں اور انصارمیں سے ایک ایک کو بھائی بنا دیا۔ اس وقت قربانی کی جو مثالیں قائم ہوئیں ‘ تاریخ انہیں فراموش نہیں کر سکتی۔ اسے مواخات کہتے ہیں۔ مواخات کا یہ تصور ہماری تاریخ میں ہمیشہ قائم رہا۔ آج بھی غزہ کی پٹی میں جب اسرائیل بمباری کر کے گھر تباہ کر دیتا ہے تو شام کو گردو نواح کے لوگ اپنے اپنے گھروں سے دستیاب کھانا لے کر گلی میں آ جاتے ہیں جہاں سب مل کر ایک کنبے کی طرح کھا لیتے ہیں۔ کسی کو احساس نہیں ہوتا کہ اس کی مدد کی جا رہی ہے۔ سب بھائی بھائی ہوتے ہیں۔ ایسا بھائی چارہ مسلم معاشرے کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ ہمارے ہاں خلافت عباسیہ کے زمانے سے اوقاف کا ایک تصور ہے۔ غلام ہندوستان میں بھی ہمارے قائد اعظم نے مسلم اوقاف کا قانون پاس کرانے میں غیر معمولی حصہ لیا تھا۔ مواخات ‘ اوقاف‘ اخوت یہ سارے تصورات آج بھی جاری و ساری ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چند سال پہلے ایک بین الاقوامی ادارے نے سروے کیا تو پتا چلا کہ پاکستان سب سے زیادہ چیرٹی دینے والے ممالک میں سے ہے۔ آج مجھے البتہ دکھ ہے جب میں نے یوم مئی کے موقع پر مزدوروں کو دیہاڑی کے لئے سڑکوں پر بیٹھے دیکھا۔ کسی نے کہا آپ نے تعمیراتی صنعت کو رعایت دی‘ مگر اس کا فائدہ ہم تو مزدوری کے انتظار میں اب تک بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہمیں بھیک نہیں مزدوری چاہیے۔ پھر اگر ریاست اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا چاہتی ہے تو بتائے اس نے 12,12ہزار کس کو دیے۔ یہ تو سرکار تسلیم کرتی ہے کہ اس کے جدید ڈیٹا بیس میں ان روزانہ مزدوری کرنے والوں کا ڈیٹا نہیں۔ عمران خاں نے جانے کس نیت سے کہا کہ سب سے زیادہ یہ رقم سندھ میں تقسیم کی گئی۔ مطلب یہ کہ بے نظیر انکم سپورٹ کی رقم تھی۔ اسے اس زمانے میں زیادہ تر سندھ میں بانٹا گیا۔ ہم نیک کام کو بھی سیاست بنا دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں یہ خرابی ذرا زیادہ ہی ہے کہ وہ اپنے اپنوں ہی کو نوازتی ہے۔اس نے جو بھرتیاں کیں یا جو امداد دی اس میں اس کا اہتمام رکھا کہ فائدہ جیالوں کو پہنچے وہ جیالے زیادہ سندھ میں تھے۔ بعد میں ایم کیو ایم کا بھی یہی رویہ تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کئی ادارے تباہ ہو گئے اور حق دار کو حق نہ مل سکا۔ وفاقی حکومت کہتی ہے کہ ان کے پاس ڈیٹا نہیں ہے۔ کیا حرج تھا کہ آج کارکن جا کر سڑکوں پر بیٹھے ان منتظر فردا لوگوں کے کوائف اکٹھے کر لیتے۔ بعد میں اسے کنفرم کیا جاتا‘ مگر یہ حکومت تو صرف ٹھنڈے کمروں میں کمپیوٹر رکھ کر کام کرنا جانتی ہے۔ جو کام کرتی ہے‘ سب سے پہلے کہتی ہے ہم نے ایپ بنا دی‘ پورٹل بنا دیا ۔ خدا کا خوف کرو اور ذرا باہر نکل کر کچھ ثواب کما لو۔ جانے وہ سارے مزدور لیڈر کہاں چلے گئے۔ کم از کم وہی اس سلسلے میں حکومت کی مدد کو آتے۔ حکومت نہ چاہتی تو بھی آتے اور حکومت کو مجبور کرتے کہ مت وقار اپنا تو کھو ہم بے وقاروں سے نہ کھیل محنت کی عظمت اسی میں ہے کہ سماج نے جنہیں بے وقار کر رکھا ہے‘ انہیں ان کا وقار واپس دلایا جائے‘ وگرنہ اس دھرتی کے نام نہاد باوقار لوگوں تم سے بھی سب کچھ چھن جائے گا۔