کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔۔۔ ؟ اگر ہمارے محترم وزیر اعظم عمران خان بغیر کسی سیاق و سباق یہ حساس موضوع نہ چھیڑتے کہ دنیا بھر کو مطلوب دہشت گرد اسامہ بن لادن کی ہلاکت میں پاکستان کی پرائم ایجنسی ISIنے بھی ہاتھ بٹایا تھا۔تو برسوں سے گڑے مردے کو اکھیڑنے کے بجائے کالم کا موضوع سینئر صحافی عرفان صدیقی ہی ہوتے۔ محترم وزیر اعظم نے جب خود برسوں سے ڈسٹ بِن میں پڑی اس خبر کو ’’زندہ کردیا‘‘تو کتابوں کی شیلف میں ہاتھ ڈالتے ہی Seymour M. Hershکی کتاب The Killing of Ossama bin Ladenپر سے گرد جھاڑنی پڑی۔ کتاب کیا ہے۔ ایک طلسم ہوشربا ہے۔یقین نہیں آتا کہ 2010ء سے2012ء تک ہماری سرزمین کے دارالحکومت اسلام آباد میں اتنی بڑی تاریخ رقم ہورہی تھی۔اور ہمارا چیختا باخبر میڈیا اس سے بے خبر تھا۔مگر چلتے چلتے ذرا القاعدہ اور طالبان کی قیادت کا بھی ذکر ہوجائے کہ جو اِن دنوں دوہا ،جدہ،اسلام آباد اور واشنگٹن کا دورہ کرتے سفید براق شلوار قمیض کے ساتھ واسکٹیں پہنے ،سرپر پگڑیاں باندھے، اسکرینوں پر سرخ و سفید چہروں کے ساتھ مسکین صورت بنائے افغان مسئلے کا پر امن حل نکالنے پر پاکستانیوں اور امریکیوں سے مذاکرات کرتے نظر آتے ہیں۔انہیں دیکھ کر مجھے 55ہزار شہید پاکستانی ،7ہزار فوجی جوان خاص طور پر آرمی پبلک اسکول کے وہ سینکڑوں معصوم بچے یاد آجاتے ہیں جنہیں انہی ’’معصوم ‘‘ صورت افغانی، پنجابی، پاکستانی طالبان اور القاعدہ کے عربی امیروں کے حکم پر خون میں نہلایا گیا تھا۔حیرت ہوتی ہے کہ امن کا سفید پرچم میز پر رکھے، اِن ملّان ِ کرام سے کوئی یہ مطالبہ بھی نہیں کرتا کہ اپنے لئے اپنی پسند کی حکومت مانگنے سے پہلے کم از کم وہ اپنے ماضی میں کئے مظالم اور دو لفظوں میں معافی ہی مانگ لیں۔مگر اقتدار کی کرسی ہوتی ہی ایسی ہے۔جس پر بیٹھتے ہی حکمرانوں کے خون سفید اور دل سفاک ہوجاتے ہیں۔(خان صاحب سے کم از کم یہ امید نہ تھی) ۔ یہ تو ان شہیدوں کے پیاروں اور عزیزوں سے پوچھے کہ سب اسکرینوں پر ان ملا ہیبت ،ملا دہشت کو دیکھ کر اُن پر کیا گذرتی ہوگی؟ جی، تو اسامہ بن لادن کے پکڑنے اور ہلاک کرنے کی کہانی اگست 2010ء سے شروع ہوتی ہے۔The Guardianاور New York Timesجیسے معتبر تبصرہ نگاروں کے مطابق سیمور ہرش جو "one of America's great investigative reporters"کہلائے جاتے ہیںاسلام آباد میں سی آئی اے کے اسٹیشن ہیڈ Jonathan Bankکے حوالے سے لکھتے ہیں۔ ایک خوشگوار صبح پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی کا ایک سابقہ افسر اُن سے رابطہ کرتے ہوئے یہ خبر دیتا ہے کہ اگر اسامہ کے سر کی قیمت سے لگے 25ملین ڈالر میں سے ایک معقول رقم دی جائے تو وہ یہ بتا سکتا ہے کہ اسامہ بن لادن کہاں پناہ لئے ہوئے ہے۔ہرش لکھتے ہیں کہ یہ جاننے کے بعد کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد کے پر فضا پہاڑوں میں گھرے ایک قلعے میں اپنے خاندان سمیت موجو دہے پہلے توجوناتھن بینک سناٹے میں آجاتا ہے اور پھر مزید معلومات کے بعد واشنگٹن میں اپنے ہیڈ کوارٹر کو یہ اطلاع پہنچاتا ہے۔ سیمور ہرش کے مطابق جوناتھن کو سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہوتی ہے کہ اگر یہ خبر پاکستانی اعلیٰ حکام کو لیک ہوگئی تو وہ اسامہ کو کسی اور مقام پر منتقل نہ کردیں ۔سی آئی اے کے بڑے فوری طور پر اس نتیجے پر پہنچے کہ جب ایجنسی کا ایک ریٹائرڈ اہلکار اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد میں قیام کی خبر رکھتا ہے تو لازمی طور پر آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ اس سے ضرور باخبر ہوں گے۔یاد رہے کہ اس وقت آرمی کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا تھے۔سیمور ہرش اسلام آبادمیں مقیم سی آئی اے کے اسٹیشن ہیڈ سے ملنے والی انفارمیشن کو بڑے افسانوی انداز میں لکھتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں کہ ’’یہ خبرملتے ہی سی آئی اے ایبٹ آباد میں اسامہ کی رہائش گا ہ کی سیٹلائٹ سے surveillanceشروع کردیتے ہیں۔ساتھ ہی اس کے گھر کے قریب ہی ایک کرائے پر گھر لے کر ایک مختصر پاکستانی و غیر ملکی اسٹاف پر مشتمل کیمپ آفس قائم کردیا جاتا ہے۔بتدائی تحقیق مکمل کرنے کے بعد اکتوبر 2010ء کو امریکی صدر باراک اوبامہ کو بریفنگ دی جاتی ہے۔سپر پاور امریکہ کا صدر یہ سن کر بھونچکا رہ جاتا ہے۔اور دوٹوک الفاظ میں اُن سے کہتا ہے’’اس پر مزید گفتگو کرنے سے پہلے مجھے اس بات کے ثبوت فراہم کریں کہ ایبٹ آباد میںرہائش پذیر شخص اسامہ بن لادن ہی ہے‘‘۔سی آئی اے افسران امریکی صدر کے اس محتاط ریمارکس کو سن کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ انہیں سب سے پہلے مقامی پاکستانی انفارمرکو اعتماد میںلینا ہوگا۔اور اسکی ابتداء ایبٹ آباد میں اسامہ کے گھر میں مقیم مکینوں کے ڈی این اے ٹیسٹ سے ہوگی۔مگر یہ ڈی این اے ٹیسٹ کس طرح لیا جائے ۔یہ ایک مشکل ٹاسک تھا۔یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ اس دوران امریکی حکام جب بھی پاکستانی آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے اسامہ کے بارے میں گفتگو کرتے تو وہ سختی سے اس بات کی تردید کرتے کہ انہیں اس کا علم نہیں۔۔۔کرتے بھی کیسے کہ اسامہ بن لادن جیسے دہشت گرد کوپناہ دینا ایسا ہی ہے جیسے ایٹم بم کو چھپایا جائے۔سیمور ہرش لکھتے ہیں کہ تورا بورامیں بمباری کے بعد اسامہ بن لادن 2001ء سے 2006ء کے دوران ہندو ستان کے پہاڑوں کے غاروں میں اپنے خاندان اور محافظوں کے ساتھ چھپا ہوا تھا۔آئی ایس آئی کے اہلکار مقامی قبائلیوں کو معاوضہ دے کر اسامہ بن لادن تک پہنچ جاتے ہیں۔اور پھر اپنے مطابق محفوظ ترین مقام یعنی ایبٹ آباد کی فوجی چھاؤنی کے قریب ایک قلعہ نما گھر میں اسے اپنے تئیں محفوظ کردیتے ہیں۔ جی ہاں،2006ء سے 2010ء یعنی چار سال تک دنیا کو سب سے زیادہ مطلوب شخص ایبٹ آباد میں مقیم رہا۔ہرش لکھتے ہیں کہ اس دوران اسامہ شدید بیمار ہوگیا۔جس کے علاج کے لئے آئی ایس آئی نے ایک میجر کے ساتھ ایک سینئر ڈاکٹر کو علاج کے لئے بھیجا ۔سی آئی اے کے لئے ایک ایک لمحہ بڑا قیمتی تھا۔مگر وہ یقینا اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ تہران میں امریکن ایمبیسی کی طرح اپنے چھاتہ بردار اتار دیتے۔ہر صورت میں انہیں پاکستانی ملٹری قیادت کو اعتماد میں لینا تھاکہ جو ان دنوں امریکی امداد میں رکاوٹ کے سبب واشنگٹن سے ناراض تھی۔اس سے بھی اہم مسئلہ سعودی عرب کا تھا۔کہ اسامہ بنیادی طور پر سعودی شہری تھا۔اور جسے افغان جنگ کے دوران سعودیوں نے بے پناہ مالی و عسکری وسائل سے ،مالا مال کرکے افغان جنگ جیتنے کے لئے جھونک دیا تھا۔(جاری ہے)