جغرافیائی اعتبار سے صوبہ آسام تین حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ لور (نشیبی) آسام جو مغربی علاقہ ہے، اَپر (بالائی) آسام جو مشرقی علاقہ ہے اور بارک ویلی جو جنوب میں واقع ہے۔ 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ریاست کے 14 میں سے سات پارلیمانی حلقوں میں کامیابی حاصل کی۔ اسکے دو سال بعد بی جے پی نے ریاستی اسمبلی میں بھی اکثریت حاصل کرکے حکومت بنا لی۔ آسام کی آبادی کے تناسب پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر ایک قبائلی ریاست ہے جہاں کی تقریباً40 فیصد آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے، مگر ان کو زبردستی ایک تو ہندو بنا کر رکھا گیا ہے اور دوسرے مسلمانوں اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے نام پر ان کو خوف میں مبتلا کرکے بی جے پی زمین اپنے حق میں ہموارکر نے میں کامیاب ہوگئی۔ انتخابات سے قبل تقریباً پانچ لاکھ بنگالیوں کو مشتبہ ووٹر قرار دے دیا گیا تھا۔جولائی 2012ء میں بوڈو قبائلی کونسل کے زیر انتظام کوکرا جھار اور گوپال پاڑا اضلاع میں بوڈو انتہا پسندوں نے پْرتشدد حملے کئے جن کے نتیجے میں تقریباً چار لاکھ افراد کو عارضی کیمپوں میں جان بچا کر پناہ لینا پڑی تھی۔ بی جے پی کی زیر قیادت والی پچھلی حکومت نے 2003ء میں بوڈو لبریشن ٹائیگرز سے معاہدہ کرکے بوڈو علاقائی کونسل قائم کی۔ یہ معاہدہ جنوبی افریقہ کی سفید فام اقلیت کے نسلی حکمرانی (اپارتھیڈ رول) کی یاد دلاتا ہے کیونکہ جن اضلاع میں یہ کونسل قائم کی گئی‘ ان میں بوڈو قبائل کی تعداد محض 28 فیصد ہے۔اسی پس منظر میں بنگالی بولنے والی آبادی نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے 80ء کی دہائی میں یونائیٹڈ مائنارٹیز فرنٹ کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنائی تھی لیکن یہ تجربہ باہمی اختلافات کی وجہ سے زیادہ کامیاب نہ ہو سکا‘ حالانکہ اسے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں قابل ذکر کامیابی ملی تھی۔ فرنٹ سے منتخب ہونے والے رکن پارلیمان بیرسٹر ایف ایم غلام عثمانی (مرحوم) اور دیگر لیڈر کانگریس میں چلے گئے۔ ریاست کے حالات اور کانگریسی حکومت کے رویے سے مایوس ہو کر اکتوبر 2005ء میں اس تجربے کا احیا کیا گیا: چنانچہ صوبے کی 13 ملی تنظیموں نے ایک نیا سیاسی محاذ آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے نام سے تشکیل دیا۔ اس کی تشکیل میں ایڈووکیٹ عبدالرشید چودھری کا اہم رول رہا، لیکن انہوں نے اس کی قیادت قبول نہیں کی کیونکہ سیاسی جماعت چلانے کے لئے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے: چنانچہ قرعہ فال عْود اور عطر کے بڑے تاجر مولانا بدرالدین اجمل قاسمی کے نام نکلا۔ ان کی قیادت میں فرنٹ ریاست میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت بن گیا‘ اور پارلیمنٹ میں بھی اس کی نمائندگی ایک سے بڑھ کر تین ہو گئی۔ ویسے آسام میں ابتدا سے جمعیت العلماء ہند کا خاصا اثر رہا ہے اور ہر چپے پر مدارس نظر آتے ہیں۔ آل انڈیا یونائٹیڈ فرنٹ کے صدر اور رکن پارلیمان مولانا بدرالدین اجمل نے جو جمعیۃ علماء ہند صوبہ آسام کے صدر بھی ہیں ، حالات کے لئے آسام کی سابق کانگریسی حکومتوں اور اس کی قیادت کو سب سے زیادہ ذمہ دارقرار دیتے ہیں۔ اجمل نے جو لوک سبھا میں ریاست کی ڈھبری حلقہ سے پارلیمنٹ میں نمائندگی کرتے ہیں نے سابق کانگریسی وزیر اعلی ترون گو گوئی کو خاص طور سے نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے پندرہ سالہ دور حکومت میں (2001-16ئ) ریاست کی لسانی اور مذہبی اقلیتوں پر تین کاری ضربیں لگائیں۔ پہلے انہوں نے 2005ء میں آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ کا سپریم کورٹ میں کمزور دفاع کرکے اس کو منسوخ کرایا جس کے تحت کسی شخص کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری انتظامیہ پر تھی۔ بنگلہ دیشی دراندازوں کا پتہ لگانے اور شناخت کرنے کی غرض سے آئی ایم ڈی ٹی ایکٹ 1983ء میں پاس کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے تحت کسی فرد کو غیر ملکی ثابت کرنے کی ذمہ داری استغاثہ پر تھی اب یہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد ختم کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد ان کی حکومت نے آسام میں ’’بارڈر پولس ڈیپارٹمنٹ‘‘ تشکیل دے کر اسے اس بات کا مکمل اختیا دے دیا کہ وہ جسے چاہے غیر ملکی قرار دیکر گرفتار کر سکتا ہے۔ ہزاروں معصوم لوگ اس ڈیپارٹمنٹ کے ظلم و ستم کا شکار ہو چکے ہیں۔۔ واضح رہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں اس طرح کا کوئی محکمہ نہیں ہے۔ مزید ستم یہ کیا گیا کہ جن لوگوں کو گرفتار کرکے ـ حراستی مراکز میں ڈالا گیا ان سے راشن کار ڈ چھین لیے گئے۔ آسام کے مسلمانوں کو روہنگیا مسلمانوں کی طرح بے حیثیت کر نے کی سازش چل رہی ہے تا کہ ان کے شہری حقوق چھین لئے جائیں اور ان سے ووٹنگ کا حق بھی سلب کر لیا جائے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ برمحل ہوگا کہ اسلام آسام کا دوسرا بڑا مذہب ہے جہاں 13ویں صدی میں سلطان بختیار خلجی کے دور میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسوقت تک آہوم سلطنت وجود میں بھی نہیں آئی تھی۔جب برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1757ء کی جنگ پلاسی کے بعد بنگال پر قبضہ کیا تو اس کے زیر تسلط آسام کا علاقہ بھی آیا۔ کمپنی نے یہاں بڑے پیمانے پر بنگالیوں کو لاکر بسانا شروع کیا اوران لوگوں نے معاشی وجوہات سے اپنے رشتہ داروں کو یہاں بلانا شروع کیا۔ کیونکہ آسام میں زمینیں زرخیز تھیں۔مشرقی بنگال سے بڑی تعداد میں بے زمین کسان یہاں آکر آباد ہوگئے جن میں 85 فی صد مسلمان تھے۔ آج انہی صدیوں سے آباد مسلمانوں کو غیر ملکی یا بنگلہ دیشی قرار د یکر ان کیلئے زمین تنگ کی جارہی ہے۔ (ختم شد)