آج سیاست سے دل اچاٹ ہے۔موضوعات میرے سامنے قطار اندر قطار اذن باریابی کے لئے منتظر کھڑے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ قلم و قرطاس کو لبھانے والا موضوع سیاسی آرڈیننس فیکٹری سے یکبارگی ڈھل کر آنے والے ایک دو نہیں پورے آٹھ آرڈیننس ہیں۔ اس کے بعد اسمبلیوں اور سینٹ پر سالانہ اربوں روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ اس پر اہل سیاست و اہل ریاست چاہیں تو غور فرما لیں۔ اپنی طبیعت تو آج سیاست کی طرف مائل نہیں۔ دوسرا موضوع ہے حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات کی ڈوبتی ابھرتی نیا اور اپوزیشن کے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا آپشن۔ اسی طرح ہمارے عدالتی نظام کے بارے میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی چارج شیٹ بھی قابل غور ہے۔ آج ارادہ یہ تھا کہ اپنے قارئین کو کوئی دل خوش کن گل و بلبل کی داستان سنائوں کہ اس میں بین السطور کوئی حکمت و دانائی کی بات بھی ہو۔ اللہ نے بھی قصہ یوسف کو احسن القصص قرار دیا ہے۔ تاہم ایک خبر اور ایک تصویر نے میرے اداس دل کو مزید افسردہ اور میری آنکھوں کوغمناک کر دیا ہے۔ تصویر میں ہزاروں مرد و خواتین ٹیچرز گزشتہ ایک ہفتے سے اسلام آباد کے ڈی چوک میں اپنے مطالبات کے لئے دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور اسلام آباد میں آغاز سرما کی سرد راتیں کمبلوں اور چادروں میں گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کا ایک مطالبہ تو یہ ہے کہ انہیں کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی۔ ذرا دل تھام کر سنیے کہ ان اساتذہ کی تنخواہ کتنی ہے صرف 8ہزار روپے ماہانہ جو کہ وفاقی حکومت کی طرف سے مزدور کے لئے کم سے کم مقررہ کردہ اجرت سے بھی نصف ہے۔ یہ منظر دیکھ کر میرے اندر کا معلم بے چین ہو گیا ہے اور قارئین کو کوئی خوبصورت ’’غیر سیاسی‘‘ کہانی سنانے کا رومانٹک موڈ کافور ہو گیا ہے۔ اگرچہ استاد کی عظمت سیاست سے ماورا ہے مگر اس کا کیا کیجیے کہ وطن عزیز میں تازہ ہوا ‘ خالص دودھ دہی اور صحت بخش سبزیوں کی بات بھی کریں تو اس میں بھی بہت سی سیاست در آتی ہے حاکم وقت اکثر اوقات دوسرے ملکوں کی مثالیں دیتے رہتے ہیں اور پاکستان میں وہی سسٹم لانے کی باتیںکرتے ہیں اور تعلیم وصحت کے شعبوں میں انقلابی اصلاحات لانے کے دعوے کرتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ایک ہفتے سے انہوں نے اپنے دفتر سے چند قدم اور اپنے گھر بنی گالہ سے چند منٹ کی مسافت پر ان معماران قوم کی دکھ بھری داستان سننے کے لئے آنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ بنی گالہ سے تو دور بین سے بھی بوریا نشین مرد و خواتین ٹیچرز کی کسمپرسی کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ جناب وزیر اعظم نگر نگر کی تعلیم وترقی کے بارے میں قصے سناتے رہتے ہیں۔ آج مجھ سے سنیں کہ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں اساتذہ کا بے حد احترام کیا جاتا ہے اور صرف ان کے شاگرد ہی نہیں بلکہ ساری سوسائٹی ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ جب آپ استاد اور طبیب کو قابل احترام نہیں سمجھیں گے اور اسے جاب سکیورٹی نہیں دیں گے تو وہ مطمئن ہو کر کیسے خدمت انجام دے گا۔ اس وقت غالباً دنیا میں سب سے زیادہ استاد کا احترام فن لینڈ میں کیا جاتا ہے۔ فن لینڈ کے سکولوںمیں دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ نظام تعلیم رائج ہے۔ تربیت یافتہ مہذب اساتذہ بچوں سے نہایت شفقت کے ساتھ پیش آتے ہیں اور بچے اساتذہ کا دل و جان سے احترام کرتے ہیں۔ فن لینڈ میں استاد کا سٹیٹس بہت بلند ہے۔ سوسائٹی اور حکومت کی طرف سے استاد کو ڈاکٹروں‘ وکیلوں اور انجینئروں سے کہیں بڑھ کر احترام دیا جاتا ہے۔ ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول کے میئر کے دفتر کے باہر ہم پہنچے تو ڈرائیور مناسب پارکنگ کی تلاش میں تھا گارڈ نے اسے بیٹھے بیٹھے گاڑی وہاں سے ہٹانے کا اشارہ کیا۔ میرے ترک دوست نے بآواز بلند کہا مہمان استاد۔ یہ سننا تھا کہ گارڈ اپنی جگہ سے اٹھا میرے قریب آیا اور اس نے کہا مرحبا استاد! اور نزدیک ہی پارکنگ کے لئے ایک مناسب جگہ کی نشاندہی بھی کردی۔ ترقی یافتہ قومیں یونہی وجود میں نہیں آ جاتیں وہ اپنے بچوں کی نگہداشت‘ ان کی تعلیم و تربیت اساتذہ کرام کی ٹریننگ اور ان کی خدمت گزاری اور عزت افزائی سے یہ بلند مقام حاصل کرتی ہیں۔ جاپان ‘یورپ‘ امریکہ‘ ترکی اور ملائشیا وغیرہ کے کنڈر گارٹن سکولوں میں بچوں کو مؤدب ‘ مہذب اور منظم بنا دیا جاتا ہے۔ یہ مقدس فریضہ وہ اساتذہ کرام انجام دیتے ہیں جنہیں حکومت ملازمت کا تحفظ اور عزت و احترام دیتی ہے۔ ہمارے یہی سرکاری مدارس ماضی میں تو علم کا گہوارہ تھے وہ اخلاق و تہذیب کی تربیت گاہیں تھیں۔ استاد شاگرد کی تعلیم و تربیت کو اپنی اولیں ترجیح گردانتے تھے۔ آج بھی ہمارے بہت سے سرکاری ادارے حکومتی سرپرستی نہ ہونے اور طبقاتی تعلیم کی بالادستی کے باوجود بڑے بڑے گوہر ہائے تابدار وجود میں لاتے ہیں جن میں سے بعض نگینے گورنمنٹ کالج لاہور جیسے اداروں کی زینت بنتے ہیں۔ ہمارے انہی سرکاری سکولوں کالجوں سے پڑھ کر نوبل پرائز یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام اور نابغہ روزگار محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان فارغ التحصیل ہوئے تھے۔ مشرق ہو یا مغرب طلبہ اپنے اساتذہ کا بے حد احترام کرتے ہیں میں طائف میں بیمار ہوا تو میری کلاسوں کے بہت سے طلبہ اس غریب کی عیادت کو آئے جنہیں اضافی نمبروں کا کوئی لالچ نہ تھا۔ یہی احترام مجھے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف سرگودھا میں ملا۔ سلام ٹیچرز ڈے کے موقع پر راولپنڈی کے معزز خاندان کے اعلیٰ عہدے پر فائز افسر نے بھابھڑہ بازار کے لئے اپنے غریب استاد کے گھر بینڈ کے ساتھ جا کر انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا۔ گزشتہ دنوں ایک ویڈیو ساری دنیا میں وائرل ہوئی کہ جب ترکش ایئر لائن کے پائلٹ کو دوران پرواز معلوم ہوا کہ اس کا فلاں پروفیسر بھی جہاز میں سفر کر رہا ہے تو وہ کنٹرول کو پائلٹ کو دے کر خود پھول لے کر اور سر جھکا کر استاد کی سیٹ پر انہیں خراج تحسین پیش کرنے کو حاضرہوا۔ اس پر تمام مسافروں نے نہایت پرجوش طریقے سے تالیاں بجائیں۔یہاں وطن عزیز کی حکومتیں بھی استاد کا احترام کرتی ہیں۔ کبھی انہیں نیب لاہور کی عدالتوں میںہتھکڑیاں لگا کر‘ کبھی انہیں کراچی کی سڑکوں پر لاٹھیاں برسا اور تیز پانی کی بوچھاڑ سے پچھاڑ کر اور کبھی اسلام آباد کے ڈی چوک میں کسمپرسی اور بیچارگی کی تصویر معلمین و معلمات سے لاتعلقی اور عدم دل چسپی ظاہر کر کے۔ہمارے سیاست دان ٹیچرز ڈے کے موقع پر انہی مجبور و لاچار اساتذہ کے گن گاتے اور قصیدے پڑھتے ہیں۔ یہی حکمران تھے جو پچھلی حکومتوں کے زمانے میں ہڑتالی اساتذہ اور ناراض ڈاکٹروں کے کیمپوں میں پلک جھپکنے میں پہنچ جایا کرتے تھے۔ نہ جانے کیا معاملہ ہے کہ ہمارے سیاست دان حکمران بنتے ہی موم دل سے سنگ دل ہو جاتے ہیں۔ بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکول کے یہ اساتذہ صرف آٹھ ہزار روپے ماہانہ کے افسوسناک معاوضے پر دو دہائیوں سے خدمات انجام دے رہے ہیں مگر آج تک انہیں مستقل نہیں کیا گیا۔ اب حکومت انہی اساتذہ کے بل بوتے پر اڑھائی کروڑ بچوں کو ’’زیور تعلیم سے آراستہ‘‘ کرنا چاہتی ہے۔یہ معلمین و معلمات ایک ہفتے سے خنک راتوں میں کھلے آسمان تلے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں مگر ان کی نہ کہیں رسائی ہے نہ شنوائی۔ تاریخ کے اوراق مثالیں دینے والے حکمرانوں کو یاد دلادوں کہ جب عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں کوئی عالم یا معلم آتا تو وہ کھڑا ہو کر ان کا استقبال کرتا تھا۔ اس پر خلیفہ کے درباریوں نے کہا کہ یوں کھڑے ہونے سے آپ کا جاہ و جلال ماند پڑ جاتا ہے۔ اس پر خلیفہ نے کہا۔ جاہ و جلال جاتا ہے تو جائے مگر میں علماء اور معلمین کے احترام میں ذرا کمی نہ کروں گا۔ اسلام آباد کے حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب تک بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ عمل کی سند نہ ہو اس وقت یہ سعی لاحاصل ہے۔ ہم اپیل ہی کر سکتے ہیں کہ اقتدار کے تخت پر متمکن حکمران ڈی چوک میں مجبور و لاچار اساتذہ کی فی الفور دل جوئی کریں اور ان کے مسئلے کو ہمدردی سے بلا تاخیر حل کریں۔