سربراہ پاک فوج جنرل قمر جاوید باجوہ نے سپیشل سروسز گروپ(ایس ایس جی) کے ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے سپیشل سروسز گروپ کے کمانڈوز کو قوم کا فخر قرار دیا۔ آرمی چیف نے کہا کہ پاک فوج کسی قیمت پر ملکی استحکام کو بگڑنے نہیں دے گی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ملکی استحکام کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا وہ ان کے ماضی میں کیے گئے فیصلوں کی روشنی میں سچ ثابت ہوتے رہے ہیں۔ کوئی ریاست اداروں کے مابین مضبوط اور خوشگوار تعلقات کے بغیر ترقی نہیں کرتی۔ خطے میں سکیورٹی کی صورت حال نے پاک فوج کی ملکی پالیسیوں میں مشاورت و معاونت کی ضرورت دوچند کی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے حوالے سے آنے والے مختصر فیصلے اور پھر تفصیلی فیصلے نے اداروں کے درمیان تعلقات کو بجا طور پر متاثر کیا ہے۔ تفصیلی فیصلے میں ایسے کئی جملے شامل ہیں جو بظاہر قانونی زبان و لہجے کے خلاف معلوم ہوتے ہیں۔ ایک ایسے موقع پر جب ہمارا دشمن ہمسایہ اپنی انتہا پسندانہ روش کے باعث جہنم کا منظر پیش کر رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر سے لے کر آسام، ممبئی اور دہلی تک احتجاج اور ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں پاکستان میں سکیورٹی اور استحکام کے ذمہ دار اداروں کو اشتعال دلا کر مخصوص صورت حال پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ فیصلے میں دکھائی دے رہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت کے حامی ججز غصے کی کیفیت میں ہیں۔ ڈی چوک میں لاش لٹکانے اور مرنے کے بعد بھی پھانسی دینے جیسے جملوں پر قانونی اور اخلاقی پہلو سے مثبت تبصرے کی گنجائش کہاں رہتی ہے۔ پاکستان کے عوام جمہوریت چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ ایسے جمہوری معاشرے کو پروان چڑھتا دیکھیں جہاں منتخب نمائندے قانون اور عوام کے سامنے جوابدہ ہوں، جہاں معاشی ترقی کے ثمرات حکمران خاندانوں اور ان کے متعلقین تک محدود رہنے کی بجائے ہر پاکستانی کے لیے مساوی ہوں۔ ایسا پرامن پاکستان ہماری آرزوئوں میں دھڑکتا ہے جہاں قانون کی بالادستی ہو اور ہر ہجوم کو سزا ملے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسے سیاست دان جن پر سنگین بدعنوانی، اراضی پر قبضے اور اختیارات سے تجاوز کے الزامات ہیں۔ وہ ایک ایک کر کے جیلوں سے باہر آ رہے ہیں۔ بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کرنے والوں کو کہیں نہ کہیں سے ایسی مدد مل رہی ہے جس کے ذریعے وہ قانون کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ بلا شبہ پاکستان ایک سکیورٹی سٹیٹ ہے۔ جس ریاست کے ہمسائے میں بھارت جیسے ہمسائے ہر وقت سازشوں میں مصروف ہوں وہ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن سے نمٹنے کے لیے تمام پالیسیوں کی تشکیل سکیورٹی کے پہلو کو مدنظر رکھ کر کرے گی۔ تجارت، صنعت، ثقافت اور بین الاقوامی تعلقات کے ضمن میں پاکستان کو موقع ہی نہیں مل سکا کہ وہ اپنی استعداد اور صلاحیت سے فائدہ اٹھا سکے۔ تاریخ نے کبھی موقع دیا بھی تو امریکہ جیسے اتحادی نے پھر سکیورٹی کے دائرے میں کھینچ لیا۔ پاکستانی قوم نے آزادی کے بعد آدھے سے زیادہ وقت سکیورٹی تنازعات میں گزار دیا۔ اس سارے وقت میں چند امور بہت واضح طور پر سامنے آئے، پہلی بات یہ کہ جمہوری عمل کو پروان چڑھانے کی خاطر بلدیاتی اداروں سے لے کر پارلیمنٹ تک جتنے تجربات ہوئے وہ فوجی سربراہوں نے کیے۔ 1973ء کا آئین ان تجربات کا حتمی نتیجہ قرار دیا جاتا ہے جس کے لیے منتخب نمائندوں کی خدمات بھی شامل اعتراف ہیں۔ دوسرا یہ کہ پاکستان میں ترقیاتی انفراسٹرکچر کی بنیاد فوج کے ہاتھوں رکھی گئی۔ کسی منصوبے کی منظوری اگر سیاسی قیادت نے دی تو اس کے لیے ماہر افرادی قوت پاک فوج کی کام میں لائی گئی۔ گھوسٹ سکولوں و اساتذہ کی نشاندہی، بجلی چوری کے خلاف آپریشن، انسداد پولیو مہم، سیلاب و زلزلے کے دوران ہنگامی امدادی کارروائیاں، ووٹر لسٹوں کی پڑتال، پولنگ کے دوران حفاظتی ذمہ داریاں اور سب سے اہم کام ملکی سرحدوں پر چوکس رہ کر فرائض کی ادائیگی پر افواج پاکستان سے اظہار تشکر ضروری ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان نے بنیادی اصلاحات کے کئی پروگرام شروع کیے ہیں۔ معاشی اصلاحات کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں۔ درآمداتی بل کم ہوا ہے۔ ایک سال کے دوران حکومت نے ساڑھے نو ارب ڈالر کا قرض واپس کیا ہے، پسماندہ علاقوں میں تعمیر و ترقی کا عمل تیز کیا گیا ہے۔ کشمیر پر سفارتی سرگرمیوں کو تیز کر کے بھارت کے لیے عالمی برادری کے سوالات کا جواب دینے میں مشکل پیدا کر دی گئی ہے۔ افغانستان میں غیر متعلق ہو چکا پاکستان ایک بار پھر فیصلہ سازی میں شریک ہے۔ عرب ممالک ہوں یا غیر عرب مسلم ممالک پاکستان نے ایک سال کے عرصے میں ان سب سے رابطے بڑھا کر اپنی فعال موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ یہ بات فراموش نہیں کی جا سکتی کہ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو دیوالیہ قرار دلانے کے لیے بھارت کی کوششیں گزشتہ ایک برس کے دوران حکومتی تدابیر کے نتیجے میں ناکام ہوئیں۔ مسلسل بحران اور تنازعات کا سامنا کرنے والے پاکستانیوں کے لیے مہنگائی ایک پریشان کن بات ہے مگر مجموعی صورت حال چونکہ استحکام کی طرف بڑھ رہی ہے اس لیے عوامی سطح پر امید افزا احساسات ہیں۔ اس امید بھری فضا کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری پارلیمنٹ اور سیاستدانوں کی ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ملک پر جب کبھی بحران آیا سیاسی رہنما عوام کو چھوڑ کر بیرون ملک جا بیٹھے ہیں۔ اس صورت حال میں اگر پاک فوج اپنی معاونت و مشاورت کے ذریعے استحکام برقرار رکھنے کا عزم دہراتی ہے تو اسے سراہا جانا چاہئے۔