آج سے تقریبا تیس سال قبل راولپنڈی کے نیٹ کیفے میں خفیہ ویڈیوز کا ایک سکینڈل منظر عام پر آیا تھا جس نے پاکستانی معاشرے کے ایک مکروہ اور غلیظ روپ کا پردہ چاک کیا تھا۔ اس دور میں نیٹ کی سہولت اتنی عام نہ تھی، اس لیے لوگوں نے جابجا نیٹ کیفے بنا کر رکھے تھے جن میں میں چھوٹے چھوٹے کیبنوں میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاںانٹر نیٹ کی سہولیات استعمال کرتی تھیں۔ ای میل یا دیگر ذاتی دستاویز تک رسائی کی وجہ سے ان کیبنوں کو ایک لفٹ کی طرح بند ڈبے کی شکل دے دی گئی تھی تاکہ صارف اطمینان سے کام کر سکے۔ انٹرنیٹ اپنے ساتھ جس فحاشی کے سیلاب کو لے کر آیا اس سے استفادہ کرنے کے لیے بھی یہ نیٹ کیفے مخصوص ہوتے چلے گئے۔ فحش فلموں اور تصاویر کا منبع و ماخذ وہ "عظیم "یورپ ہے جسکی تہذیب کی تعریف میں لکھتے ہوئے ہمارے دانشور نہیں تھکتے۔ اسی معاشرے کے اخلاقی زوال کی کوکھ سے پہلے برہنہ تصاویر کے رسالوں کا کاروبار نکلا، پھر فلموں میں ڈھکے چھپے جنسی مناظر دکھائے جانے لگے اور یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے کئی سو ارب ڈالر کی فحش میڈیا انڈسٹری تک جا پہنچا۔ شروع شروع میں یورپ پلٹ پاکستانی اپنے سامان میں اس غلاظت کو چھپا کر لاتے۔ اسکے بعد سینما گھروں میں چند منٹ کے لئے جاری فلم روک کر یہ فحش مناظر جنہیں "ٹوٹے" کہا جاتا تھا، دکھائے جانے لگے۔ وی سی آر نے تو اسے گھر گھر پہنچا دیا اور انٹرنیٹ اسے ہر شخص کے موبائل تک لے آیا۔ کیبن کی تنہائی اور فحش مواد کی دستیابی کی وجہ سے ، نوجوان جوڑے وہاں جانے لگے۔ نیٹ کیفے کے مالک نے ان کیبنوں میں خفیہ کیمرے لگائے اور پھر وہاں آنے والے نوجوان جوڑوں کی ایسے لمحوں کی ویڈیو بنائیں جب وہ فحش مواد کے زیراثر غیر اخلاقی حرکتوں میں ملوث تھے۔ اسکے بعد یہ ویڈیوز بیچی گئیں، اس کے ذریعے لڑکیوں اور لڑکوں کو بلیک میل کیا گیا۔ جیسے ہی ویڈیوز عام ہوئیں اس سے متاثرہ دو لڑکیوں نے خودکشی کرلی، ایک کو اسکے گھر والوں نے قتل کردیا، کچھ خاندانوں نے شہر چھوڑ دیے۔ یہ سکینڈل سامنے آیا تو پورا ملک تّھرا کر رہ گیا۔ کون ہے جس نے اس پر کالم نہ لکھا ہو یا اس المیے کا ماتم نہ کیا ہو۔ خفیہ ویڈیوز بنا کر بلیک میل کرنے کا یہ سلسلہ ویڈیو کیمروں کے زمانے سے چلا آ رہا ہے فیصل آباد کی نرسوں کے سکینڈل سے لے کر ہالہ فاروقی کی شوق میں بنائی گئی ویڈیوز تک۔ لیکن بلیک میلروں کے چہرے ہمیشہ پردے میں رہتے تھے ، اگر پکڑے جاتے تو ذلیل و رسوا ہوتے۔ لیکن پاکستانی معاشرے کو ذلت و رسوائی اور بے حیائی اور ڈھٹائی کا یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ ایسی ہی خفیہ طور پر بنائی گئی ایک ویڈیو کی بنیاد پر ایک خاتون سیاسی رہنما مریم نواز اپنے باپ کے مقدمے میں ایسی" غلیظ حرکت پر" بے گناہی " کی عمارت تعمیر کرتی ہے اور ڈھٹائی کیساتھ پریس کانفرنس کرتی ہے۔ جج ارشد ملک کے کیس میں اور کیا باقی رہ جاتا ہے اگر اس غیر اخلاقی ویڈیو کو بیچ میں سے نکال دیا جائے،نہ یہ ویڈیو ریکارڈ ہوتی اور نہ جج پر دباؤ کا تذکرہ نکلتا۔اور یہ ویڈیو وہ واحد ثبوت ہے جس پر جج ارشد ملک اور مریم نواز دونوں متفق ہیں۔ اس ویڈیو اور اس جیسی ویڈیو کو بنانے والے، اس سے اپنے مکروہ مقاصد کی تکمیل کرنے والے غلیظ کردار ہر معاشرے اور ہر دور میں پائے جاتے ہیں اور ہمیشہ انکی حیثیت ایک بلیک میلر سے زیادہ کبھی نہیں رہی۔ انسان خطا کا پتلا ہے، اس سے گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سید الانبیاء ﷺ کے دور میں حضرت مائز زنا کے جرم میں خود کو سنگسار ہونے کے لیے پیش نہ کرتے۔ ایسی مثالیں اور بھی ہیں کہ صحابہ میں سے کوئی فرد رسالت ماآب کے دربار میں آیا،، اپنے گناہ کا اقرار کیا اور آپ نے کہاں جاؤ اور اپنے اللہ سے معافی مانگو، وہ غفور الرحیم ہے۔ رسول اکرم ﷺکی اس معاملے میں احتیاط ملاحظہ ہو۔ آپؐ نے فرمایا، "اگر میں گواہوں کے بغیر کسی کو رجم کرتا تو فلاں عورت کو کرتا، اس لیے کہ اس کی بات چیت سے، اسکی شکل و صورت سے اور جو لوگ اسکے پاس آتے جاتے ہیں، اس سے اسکا فاحشہ ہونا ظاہر ہوچکا ہے" (ابنِ ماجہ)۔ کسی کے عیب کی جستجو کرنا اور اسکی ٹوہ میں رہنا تو قرآن پاک میں اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ سورہ الحجرات کی آیت نمبر 12 میں فرمایا :" تجسس نہ کیا کرو"، یعنی کسی کے عیب اور گناہ ڈھونڈنے میں وقت مت لگایا کرو۔ عیب چھپانے کا اجر اللہ کے ہاں کسقدر ہے ، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : "جس نے کسی کا کوئی مخفی عیب دیکھ لیا اور اس پر پردہ ڈال دیا تو یہ ایسا ہے جیسے کسی نے ایک زندہ گاڑی ہوئی بچی کو موت سے بچالیا ( ابو داؤد۔ الجصاص) ، اور کسی کے عیب اچھالنے کے بارے میں جو وعیداور وارننگ اللہ کے رسول ﷺنے اس خطبے میں ارشاد فرمائی ہے وہ لرزہ طاری کر دینے والی ہے۔ فرمایا : "مسلمانوں کے پوشیدہ حالات کی کھوج میں نہ لگا کرو، کیونکہ جو شخص مسلمانوں کے عیوب ڈھونڈنے کے در پے ہوتا ہے، اللہ اسکے عیوب کے درپے ہو جائے گا، اور اللہ جس کے در پے ہو جائے تو وہ اسے اسکے گھر میں رسوا کرکے چھوڑتا ہے (ابوداؤد)۔یہی وہ وارننگ تھی کہ یاد دلانے پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جیسا حکمران کانپ اٹھتا تھا۔ آپ نے ایک مرتبہ رات کے وقت ایک شخص کی آواز سنی جو اپنے گھر میں گا رہا تھا۔ آپ کو شک گزرا اور آپ دیوار پر چڑھ گئے۔ دیکھا، وہاں شراب بھی موجود تھی اور ایک عورت بھی۔ آپ نے پکار کر کہا "اے دشمنِ خدا کیا تو نے سمجھ رکھا ہے کہ اللہ کی نافرمانی کرے گا اور اللہ تیرا پردہ فاش نہ کرے گا۔ اس نے جواب دیا، امیرالمومنین جلدی نہ کریں، اگر میں نے ایک گناہ کیا ہے تو آپ نے تین گناہ کیے ہیں۔ اللہ نے تجسس سے منع کیا تھا اور آپ نے تجسس کیا۔ اللہ نے حکم دیا تھا کہ گھروں میں انکے دروازوں سے آؤ اور آپ دیوار پر چڑھ کر آئے۔ اللہ نے حکم دیا تھا اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اجازت لئے بغیر نہ جاؤ اور آپ میری اجازت کے بغیر میرے گھر تشریف لائے۔ حضرت عمر جواب سن کر کانپ گئے، اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور بغیر سزا کا نفاذ کیے واپس لوٹ گئے (مکارم الاخلاق لابی بکر محمد بن جعفر الخزائلی)۔ معاملے کی حساسیت، معاشرے کے زوال، گناہ کی شدت اور پاکستانی سیاست میں قیادت کی پست اخلاقی کی وجہ سے مجھے اس گندے اور غلیظ ترین موضوع پر قلم اٹھانا پڑا اور قرآن وحدیث میں بیان کیے گے انتباہ کا بھی ذکر کرنا پڑا۔یوں تو عزتیں اچھالنے اور ذاتی کردار کو معاشرے میں عام کرنے کی روش عام رہی ہے لیکن میرے نزدیک یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بدترین اور بد اخلاق واقعہ ہے۔ لوگوں پر الزام لگتے تھے، پس پردہ پمفلٹ بھی پھینکے جاتے تھے ، تصویریں اور ویڈیوز بھی پھیلائی جاتی تھیں لیکن کوئی اس گناہ کو سر عام فخر سے تسلیم نہیں کرتا تھا۔ لیکن حیرت ہے کہ ایک لیڈر خصوصاً خاتون رہنما اپنے سارے مقدمے کی بنیاد ایک ایسی ویڈیو پر بنائے جو اخلاقاً، مذہباً اور تہذیبی طور پر ایک گھناؤنی حرکت ہے۔ کیا فرق ہے اس میاں طارق اور مریم نواز میں، جس نے یہ ویڈیو بنائی اور جج کو بلیک میل کرکے اپنے بھائی کی سزا میں تخفیف کروائی۔ میرے ملک کا دانشور اس دن سے بول اور لکھ رہا ہے کہ اگراس جج کی یہ ویڈیو آگئی تھی تو اس نے سپریم کورٹ کے انچارج جج کو کیوں نہیں بتایا۔ایسی حالت میں کیا ایسا ممکن تھا۔ ایسے عالم میں بدنامی کے خوف سے عقل ماؤف ہو جاتی ہے اور پھر وہ سفاک اور غلیظ معاشرہ جہاں میڈیا پرسن بھی بلیک میلروں کی صف میں کھڑے ہوں، وہاں ایسی ویڈیو سامنے آنے پر لوگ خودکشیاں کرتے ہیں، بچیاں آگ لگاکر مرتی ہیں۔ مریم نواز کو ایک لمحے کے لئے بھی اللہ کا خوف نہ آیا کہ جس جج کے سولہ سالہ پرانے جرم کی ویڈیو پر وہ اپنے لئے انصاف کی ساری عمارت تعمیر کر رہی ہے، ہو سکتا ہے اس جج کی بھی اسکی اپنی بیٹی ماہ نور جیسی کوئی بیٹی ہوگی جو اپنے باپ سے بہت پیار کرتی ہو گی۔ میں نے آج تک کسی سیاستدان کے چہرے پر اللہ کے غیظ و غضب کی علامتیں اسقدر نہیں پڑھیں جسقدر مریم کے چہرے پر دیکھی ہیں۔ جوں جوں میں آپکی پریس کانفرنس دیکھتاجاتا ، خوف کانپتا جاتا۔ مجھے رسول اکرم ﷺ کا وہ خطبہ بار بار یاد آتا رہا، فرمایا "اللہ جسکے درپے ہوجائے اسے اس کے گھر میں رسوا کرکے چھوڑتا ہے۔ ڈرو اس وقت سے، استغفار کرو۔