پیشکی معذرت کہ آج تلخ تحریر لکھ رہا ہوں۔ پھر معذرت کراچی میں اسرائیل مخالف جو ریلی مولانا فضل الرحمان نے پیش کی، اس میں جمعیت العلمائے اسلام کے جھنڈوں کی بھرپور نمائش ہوئی۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی مولانا فضل الرحمان کے ہمرکاب تھے اور پی پی پی کے دوسرے تیسرے درجے کے کچھ لوگ بھی۔ بلاول بھٹو اور مریم نواز نے اس اسرائیل مخالف اجتماع میں شرکت نہیں کی۔ مولانا عبدالغفور حیدری بھی اسرائیل مخالف بیانات دے رہے ہیں۔ حیرت اور تعجب ہے کہ مولانا فضل الرحمان اور ان کے ہمنوا ایسے نامناسب موضوع پر خامہ فرسائی اور سیاست کر رہے ہیں جس کا نہ موقع ہے نہ ہی محل، میری نظروں میں مولانا اور ان کے ہمنوا اسرائیل مخالف ریلی، احتجاج، جلسہ، جلوس پیش کرکے عملاً ہوا اور فضا میں تلواریں چلا رہے ہیں۔ اسرائیل کو نہ اس کا کوئی نقصان ہے نہ ہی یہود کو۔ بس مولانا اپنی سیاسی قوت کے اظہار، اسرائیل کے حوالے سے عوامی جذبات میں استعمال پیدا کرکے اپنی ذات کی اہمیت پیدا کر رہے ہیں۔ مولانا کی اس سیاسی حرکت سے ریاست اسرائیل کو معمولی سا بھی نقصان نہیں ہو رہا۔ مجھے متعدد بار وجدانی کیفیت رکھنے والے لاہور میں مقیم بزرگ نے کہا کہ لبنان کی حزب اللہ جس کے سربراہ حسن نصراللہ ہیں، اسرائیل مخالف کردار کے سبب طلوع اور مقبول ہوئے تھے۔ مگر حسن نصراللہ نے، حزب اللہ نے عملاً اسرائیل کو کیا نقصان پہنچایا ہے؟ بشارالاسد، حافظ الاسد اسرائیل مخالف رہے۔ مگر انہوں نے اسرائیل کوکیا نقصان پہنچایا؟ اسی طرح اسرائیل کو جس نے سب سے پہلے تسلیم کیا وہ تو شاہ ایران تھے یا ترکی کے اتاترک پاشا تھے۔ عربوں نے تو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا قدم بہت دیر بعد اٹھایا، مگر حافظ الاسد اور پھر بشارالاسد نے صرف اپنے ذاتی اقتدار کو اپنے عوام پر جبرو ظلم کے پہاڑ توڑ کر مسلط کیا۔ جبر و ظلم شامی عوام پر، باتیں اسرائیل مخالف کی۔ حزب اللہ اور حسن نصراللہ کی کہانی بھی یہی ہے۔نام اسرائیل دشمنی اور مخالفت کا مگر قبضہ لبنانی سیاست و اقتدار پر، میں وجدانی کیفیات رکھتے بزرگ کی یہ باتیں کئی بار سن چکا ہوں۔ یعنی جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہ عملاً ہوتا نہیں ہے۔ بلکہ اس کی آڑ میں ذاتی اقتدار یا ذاتی سیاسی مقاصد کی تحصیل اور تکمیل ہوتی ہے اور پھر ان سے مادی فوائد، انعامات بطور چندہ، ڈونیش حاصل ہوتے ہیں۔ جب جنرل پاشا کو قومی اسمبلی میں بلوایا گیا تھا اور مولانا فضل الرحمان نے ریاستی ادارے اور فوج کے کردار پر بہت زیادہ تنقید اور تضحیک پر مبنی تقریر کی تھی، تو جنرل پاشا، ڈی جی آئی ایس آئی نے صرف اتنا کہا تھا کہ مولانا صرف اتنا بتا دیں کہ لیبیا سے، کرنل قذافی سے، وہ جو کچھ لیتے تھے وہ کیا ہے؟ اس کی تفصیل اور اصلیت پر بھی تو گفتار پیش کریں؟ تب مولانا کی زبان جواب دینے کی بجائے گنگ ہوگئی تھی۔ میں مولانا کے حوالے سے ماضی بعید کی قومی اسمبلی میں ہونے والی تقریر اور جواب میں جنرل پاشا کا قذافی سے مولانا کے تعلقات اور چندے وصول کرنے کی بات ہرگز نہ لکھتا اگر مولانا شائستہ سیاست دان بنے رہتے مگر وہ تو ریاستی اداروں اور فوج سے وابستہ شخصیات کے جس طرح کپڑے اتارنے میں مصروف ہیں، جواب آن غزل بھی تو آئے گا۔ مولانا کے چندوں کی تفصیل اور وصولی جو وہ خلیجی ممالک میں کرتے تھے۔ جب وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے ایک سفارت کار نے تو اس کی حکایت اپنی کتاب میں لکھ رکھی ہے(حافظ حسین احمد نے حال ہی میں کرنل قذافی اور صدام حسین سے مالی فوائد حاصل کرنے کا مبینہ الزام مولانا پر لگایا ہے) اسی طرح نوابزادہ نصراللہ کی اصلیت بھی اس سفارت کار نے لکھ دی ہے۔ یہ سابق سفارت کار ،مصنف کرامت غوری ہیں۔ آجکل یہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ بات ذرا دور چلی گئی، اسرائیل سے قرب کی داستان میں مولانا کے ہی مکتب فکر کے مولانا اجمل قادری خان آتا ہے جو مولانا عبید اللہ انور کے بیٹے ہیں۔ کیا یہ دیوبندی حنفی انداز فکر کا حصہ نہیں؟ ذاتی حوالہ دینا اچھا نہیں لگتا مگر میں جنرل مشرف کے عہد کے آغاز سے جب اہل کتاب،مسیحی اور یہودی دنیا سے مسلمانوں کے اچھے تعلقات، انسان دوستی کی اہمیت پر لکھتا تھا تو میرے کالم یورپی و مغربی سفارت خانوں میں پڑھے جاتے تھے مجھ سے کئی اطراف سے رابطہ کرکے وضاحت طلب ہوتی تھی میرا مقصد مادی تھا نہ ہی سیاسی تھا، چھپنے والے کالموں کو یورپ میں اہل فکر پڑھتے تھے، ایک صاحب مجھے اسلام آباد میں ملے جو جرمنی اور برطانیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے کالم اہل فکر یورپ میں پڑھتے اور ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ اسی کا نام تشکیل رائے عامہ ہے۔ دو مرتبہ مجھے ای میل پر پیغام ملا کہ ’’ہم یہودی ہیں اور اسرائیل کے دوست ہیں، اسلام آباد میں ہیں ۔ آپ سے ملنا چاہتے ہیں وقت اور جگہ بتائیں۔‘‘ میں نے دونوں مرتبہ نہ ملنے کا فیصلہ کیا حالانکہ میں آج بھی یہود اور مسیحی دنیا، دیگر ادیان سے مکالمے، مفاہمت، بقائے باہمی کے نظرئیے کے فروغ پر قائم ہوں۔ افسوس کہ میں نے فاضل درس نظامی ہونے کے باوجود جبکہ میری سند میں ’’ المولوی محی الدین‘‘ لکھا ہوا ہے مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے آج سخت تنقید تحریر کی ہے۔ اسرائیل کو مولانا کی طرف سے ہرگز نقصان نہیں ہو رہا، صرف ہو یہ رہا ہے کہ مولانا اپنے ریاستی اداروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور ذاتی اقتدار و سیاست کے قلعے تعمیر کرکے عوام میں پذیرائی حاصل کر رہے ہیں۔ عوامی پذیرائی کا مطلب مادی فوائد بھی ہوتا ہے۔ ٭٭٭٭٭