ناجائز یہودی ریاست اسرائیل میں اس ماہ بڑی سیاسی تبدیلی رُونما ہوئی ہے۔و زیراعظم نیتن یاہوکے بارہ سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوگیا ہے اور اُنکی جگہ نیفتالی بینیت وزیراعظم منتخب ہوگئے ہیں۔ نیتن یاہو اسرائیل کے طویل ترین عرصہ تک وزیراعظم رہے ۔ انہوں نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست پر گہرے نقوش چھوڑے۔ نیفتالی بینیت بھی نیتن یاہو کی طرح ایک کٹر یہودی‘ فلسطینیوں کے سخت مخالف اور سخت گیر موقف رکھنے والے دائیں بازو کے سیاستدان ہیں۔ وہ نیتن یاہو کے معتمد ساتھی اور چیف آف اسٹاف رہ چکے ہیں۔ پاکستانی ریاست اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل مشرق ِوسطیٰ کی بڑی طاقت ہے اور امریکی سلطنت کا اہم ترین مہرہ۔اسکی پالیسیوں سے پُورا مشرقِ وسطیٰ متاثر ہوتا ہے۔اسرائیل اور انڈیا کا گہرا‘قریبی اتحاد ہے جس سے پاکستان کی سلامتی بھی متاثر ہوتی ہے۔ ستاسی لاکھ آبادی پر مشتمل اسرائیل مسلمان ملک اُردن کے مغرب میں واقع ہے۔اسکی ستانوے فیصد آبادی شہری علاقوں میں رہتی ہے۔اسرائیل کے مشرق میں بحیرہ روم ہے‘شمال میں لبنان اور جنوب میں مصر۔شمال میںکچھ سرحد شام سے ملحق ہے۔جنوب میں بہت چھوٹا ساحصہ خلیجِ عقبہ سے لگتا ہے۔اسرائیل کی آبادی کا ساٹھ فیصد یہودی جبکہ اٹھارہ فیصد فلسطینی عرب ہیں۔ چند فیصد مسیحی اور دروز مسلک پر مشتمل آبادی ہے۔ مغربی کنارہ اور غزّہ باقاعدہ طور پر اسرائیل کا حصہ نہیں ہیں ۔ وہاں ایک فلسطینی اتھارٹی قائم ہے۔ غزّہ کی چھوٹی سی پٹی بحیرہ روم سے متصل ہے جبکہ مغربی کنارہ اُردن سے۔اسرائیل ایک امیر ملک ہے۔ اسرائیل کی قومی دولت (جی ڈی پی) کا تخمینہ لگ بھگ چار سو ارب ڈالر ہے جو پُورے پاکستان کی دولت سے ستّر اسّی ارب ڈالر زیادہ ہے۔اسرائیل جدید علوم‘سائنس‘ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہے۔اسکی زراعت بہت جدید خطوط پر استوار ہے۔ اسرائیل میں جدید ترین اعلیٰ ٹیکنالوجی پر مبنی صنعتیں قائم ہیں جنکی پیداوار ‘ مصنوعات فروخت کرکے یہ خوب زرمبادلہ کماتا ہے۔اسرائیل کی اندرونی سیاست دلچسپی سے خالی نہیں۔یہاں جمہوری نظام ہے جو یہودی آبادی تک محدود ہے ورنہ اس ریاست کا وجود ہی فلسطینیوں کے جمہوری حقوق کچل کر رکھا گیا تھا۔اسرائیل کا سیاسی‘انتخابی نظام پارلیمانی لیکن متناسب نمائندگی کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ تمام اسرائیل ایک حلقہ ہے۔جو جماعت جتنے فیصد ووٹ لیتی ہے اسے اتنے فیصد سیٹیں مل جاتی ہیں۔ اسرائیل کی باقاعدہ حدود میں رہنے والے اٹھارہ بیس لاکھ عربوں کو بھی ووٹ دینے کا حق حاصل ہے۔ یہاں پر ایک درجن سے زیادہ بڑی‘ چھوٹی سیاسی جماعتیں ہیں۔ کچھ لبرل‘ سیکولر ہیں۔بعض بائیں بازو سے تعلق رکھتی ہیں۔ زیادہ تر دائیں بازو سے۔ دائیں بازو کی جماعتیں بھی مختلف یہودی مکاتب فکر کی نمائندگی کرتی ہیں۔ کچھ اعتدال پسند مذہبی ہیں‘ بعض کٹر مذہبی۔ بہرحال‘ دو بڑی سیاسی جماعتیں جو زیادہ عرصہ تک اسرائیل کی سیاست پرحاوی رہیںوہ لبرل جماعت لیبرپارٹی اور دائیںبازو کی صیہونی جماعت’لیکُڈ‘ہے۔بائیں بازو کی لیبر پارٹی خاصی کمزور ہوچکی ہے جبکہ دائیں بازو کی لیکڈ پارٹی کی مقبولیت پہلے کی نسبت قدرے کم ہوگئی ہے گو یہ اب بھی بڑی جماعت ہے ۔کچھ عرصہ سے ان دونوں میں سے کسی ایک جماعت کوالیکشن میں واضح اکثریت نہیں ملتی نہ اتنی نشستیں حاصل ہوتی ہیں کہ آسانی سے مخلوط حکومت بنالیں۔ اسرائیلی قومی سیاست بُری طرح منقسم ہوگئی ہے۔ پچھلے دو برس میں چار مرتبہ عام انتخابات ہوچکے ہیں۔ پہلے تین عام انتخابات کے نتیجہ میں کوئی حکومت تشکیل نہیں پاسکی۔ اس سال مارچ میں چوتھا الیکشن ہوا جسکے بعد نیتن یاہو کے مخالفین اکٹھے ہوگئے ۔ انہوں نے بڑی مشکل سے بھان متی کا کنبہ جوڑ کرمخلوط حکومت بنائی ہے کیونکہ اسرائیل کے عوام بار بار عام انتخابات سے تنگ آچکے تھے۔سیاسی جماعتیں بھی فوری طور پر نیاا لیکشن نہیں چاہتیں۔ نیتن یاہو گزشتہ تیس برسوں سے لیکڈ پارٹی کے سربراہ ہیں لیکن انکے طرزِ حکمرانی اوراُن پر بدعنوانی کے سنگین الزامات کے باعث انکی جماعت سے کئی گروہ الگ ہوکر نئی پارٹیاں بناچکے ہیں۔ نیتن یاہو کی بیوی پر بھی سرکاری فنڈز کے بے جا استعمال اور رشوت خوری کے الزامات پر فردِ جرم عائد ہوچکی ہے۔بدعنوانی کے ایک مقدمہ میں انہیںسزا ہوئی اور انہوں نے اچھی خاصی رقم دیکرپلی بارگین کیا۔ اسرائیلی پارلیمان کو کینیسٹ کہا جاتا ہے جو عبرانی زبان کا لفظ ہے۔ اسکا مطلب ہے اجتماع یا اسمبلی۔ کینیسٹ120 ارکان پر مشتمل ہوتی ہے۔ مارچ کے عام انتخابات میں نیتن یاہو کی جماعت کوصرف تیس سیٹوں پر کامیابی ملی۔یہ پارلیمان کی سب سے بڑی پارٹی ہے لیکن متعدد چھوٹی پارٹیاں اسکے ساتھ ملکر حکومت بنانے کو تیار نہیں۔ صرف نیتن یاہو کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے بائیں بازو اور انتہائی دائیںبازو کی جماعتوں نے ملکر حکومت تشکیل دی ہے۔ معاہدہ ہے کہ دو سال نیفتا لی بینیٹ وزیراعظم ہونگے جنکی جماعت کو پارلیمان میں سات نشستیں ملی ہیں۔ اگلے دو سال کیلیے ایک اتحادی جماعت کے سربراہ یائیر لَپیڈ وزیراعظم ہوں گے جو دائیںاور بائیں کے درمیان چلنے والے ‘ سیکولر نظریہ کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم یہ خدشہ موجود ہے کہ مخلوط اتحاد زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گا کیونکہ اتحادی جماعتوں کے اندرونی معاملات پر اختلافات خاصے زیادہ ہیں۔عرب آبادی کی نمائندہ ایک جماعت متحدہ عرب فہرست (یونائٹڈ عرب لسٹ) المعروف ’رعام‘ بھی اس حکومتی اتحاد میں شامل ہے جو اس ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔اس پارٹی کی پارلیمان میں چار نشستیں ہیں۔ رعام پارٹی کا خیال ہے کہ وہ حکومت میں شامل ہوکر اسرائیل میں رہنے والے فلسطینیوں کے حالات زندگی بہتر بنانے کیلیے کام کرسکتی ہے۔ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل کے عوام میں تیرہ فیصد ووٹروں کی حمایت بعض کٹر مذہبی جماعتوں کو حاصل ہے۔ ان جماعتوں کا خیال ہے کہ یہودی ریاست کو صرف اسی وقت قائم ہونا چاہیے جب یہودی عقائد کے مطابق ’مسیحا‘ کا ظہور ہوجائے اسلیے وہ یہودی ریاست کے قیام کو توہینِ مذیب سمجھتی ہیں ۔ انکے ارکان اسرائیل کی فوج میں لازمی سروس بھی انجام نہیں دیتے۔ جہاں تک خارجہ پالیسی اور فلسطینیوں کیلئے الگ ریاست کے قیام کے بارے میں نیتن یاہو اور نیفتالی بینیٹ کی پالیسی میں کوئی فرق نہیں۔ صرف لبرل‘ سیکولر جماعتیں الگ فلسطینی ریاست کی حامی ہیں وہ بھی بہت چھوٹے سے علاقہ میں۔باقی سب جماعتوں کا منشور ہے کہ صرف ایک اسرائیلی ریاست کا وجود ہونا چاہیے جس میںغزّہ اور مغربی کنارہ شامل ہوں۔