اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا بین الاقوامی سطح پر خیرمقدم کیا گیا ہے، اسرائیل کی طرف سے کیے گئے غزہ کی پٹی کے محا صرہ اور گیارہ دن تک جاری رہنے والی مسلسل بمباری کے بعد مصر کی سفارتی کوششوں کے زریعے جمعہ کے دن کے اوائل وقت میں جنگ بندی ہوئی ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے دفتر نے جنگ بندی کا اعلان کیا۔ ایک بیان میں کہا گیا کہ ان کی سکیورٹی کابینہ نے یکطرفہ طور پر مصری ثالثی کی تجویز کو منظوری دے دی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ، دونوں فریقوں کے اتفاق پر کابینہ کے فیصلے کے محض تین گھنٹوں کے بعد جمعہ کی صبح 2 بجے سے مصالحت عمل میں آ چکی ہے۔ 2008 کے بعد سے، اسرائیل نے فلسطین کی سرزمین پر چار جنگیں کیں، جس میں ہزاروں افراد ، زیادہ تر عام شہری ہلاک ہوئے۔ غزہ پرحالیہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 65 بچوں سمیت 232 فلسطینی جابحق ہوگئے ہیں۔ اسرائیل کے بقول، اس کے دو بچوں سمیت 12 افرادہلاک ہوئے ہیں۔ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے امور کے لئے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے دفتر نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل کے حالیہ حملوں کے نتیجے میں فلسطینیوں کی اضافی نقل مکانی بھی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد (آئی ڈی پیز) کی مجموعی تعداد میں اضافہ کے بعد غزہ میں قائم فلسطینی مہاجر ایجینسی کے 58 اسکولوں میں 66000 افراد نے پناہ لی ہوئی ہے جبکہ000 25 سے زیادہ افراد میزبان خاندانوں کے ساتھ رہ رہے ہیں جبکہ اسرائیلی حملوں نے کم از کم 51 تعلیمی سہولیات کو نقصان پہنچایا ہے جن میں 46 اسکول ، دو کنڈر گارٹن ، ایک اقوام متحدہ کی امدادی تنظیم برائے فلسطینی مہاجرین کا تربیتی مرکز اور اسلامی یونیورسٹی کے کچھ حصوں کو نقصان پہنچا ہے۔جنگ بندی کے بعدسوال یہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو تشدد کی موجودہ لہر سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے؟ اور دوسرے یہ کہ 11 دن کی لڑائی سے کیا سبق سیکھا جاسکتا ہے؟ سب سے پہلے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسرائیل نے حماس کی صلاحیتوں کو آزمانے کا اپنا مقصد حاصل کرلیا ہے ، اور کیا حماس اس پیغام کو سمجھتی ہے کہ اس کے اسرائیل کی طرف داغے جانے والے راکٹ اسرائیل کے " آئرن ڈوم" نامی مؤثر دفاعی نظام کے سامنے اب اپنا اثر برقرار نہیں ر کھ سکتے۔ مزید برآں ، نیتن یاہو نے عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور خود کو اسرائیلی عوام کے مفادات کے تحفظ کے لئے ڈٹ جانے والے کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے دباؤ کو بقول ان کے حماس کو سبق سکھانے کے لیے 11 دن تک برداشت کیا ہے۔ حماس کے خلاف موجودہ لڑائی کے دوران حاصل ہونے والی اس عوامی حمایت کونیتن یاہو اسرائیل میں نئے انتخابات ہونے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔ دوسری بات ، صدر بائیڈن کے دورحکومت میں بھی امریکہ، فلسطین اور اسرائیل کے تنازعہ کو حل کرنے میں اپنے نقطہ نظر میں کوئی خاص تبدیلی نہیں اپنائے گا۔ اگرچہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ٹیلیفون پر گفتگو میں "جنگ بندی کے راستے پر ایک اہم حد تک اضافے" کی توقع کی لیکن نتن یاہو نے بائیڈن کے فون کال کے فورا بعد ہی کہا تھا کہ وہ جنگ جاری رکھنے کے لئے "پرعزم" ہیں اوراسرائیل کے "مقصد کی تکمیل" تک غزہ پر بمبارجاری رکھی جائیگی۔ دریں اثنا ، اسرائیل اور غزہ کے حماس کے درمیان صلح کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کوششیں بھی تعطل کا شکار رہیں کیونکہ امریکہ نے اس معاملے پر ویٹو کارروائی جاری رکھی۔ تیسر ع بات یہ کہ امریکی قانون سازوں کے درمیان اسرائیل کے لئے حمایت مستحکم ہے ، حالانکہ ترقی پسندوں کے ایک گروہ نے اسرائیل کے لئے زیادہ سے زیادہ تنقیدی انداز اپنانے کا مطالبہ کیا ہے جسے امریکہ ہر سال تقریبا 3.8 ارب ڈالر غیر مشروط امداد فراہم کرتا ہے۔ امریکہ میں اب تک اسرائیل کو امریکی اسلحے کی فروخت اور فوجی مدد کی فراہمی کے بارے میں کچھ قانون سازوں نے عوامی طور پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ایوان میں اسلحے کی حالیہ فروخت کو روکنے کے لئے قانون سازی کرنے کے بعد ، ترقی پسند نمائندے الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز نے ٹویٹ کیا کہ "امریکہ کو اسرائیلی حکومت کو ہتھیاروں کی فروخت پر محض ربڑ کی مہرنہیں لگانا چاہئے کیونکہ اسرائیل، بین الاقوامی میڈیا اور اسکولوں کو نشانہ بنانے کے لئے ہمارے وسائل استعمال کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ، ڈیموکریٹس ارکان کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد فلسطینیوں کے سیاسی حقوق کا مطالبہ کررہی ہے۔ یونیورسٹی آف مشی گن کے پروفیسر جوآن کول، جو مشرق میں امریکی خارجہ پالیسی کے بارے میں ایک بلاگ ، انفارمیڈ کمنٹ کے بانی ہیں، کا خیال ہے کہ لوگ Lives Black کے معاملہ اور فلسطین کے مابین روابط استوار کر رہے ہیں۔ اور جب "عرب دنیا" عرب آمریت کی وجہ سے تقسیم اور خاموش ہوگئی ہے تو ، فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی عالمی سطح پر آن لائن منتقل ہوگئی ہے۔ چہارم یہ کہ مسلم ممالک ، خاص طور پر ٹرمپ کے حمایت یافتہ معاہدوںکے دستخط کنندگان کو ، اس بات کا احساس کرنا چاہئے کہ توانائی اور تیل کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے ، تجارتی اور معاشی روابط کے قیام سمیت، اسرائیل کو کسی بھی طرح کی رعایتیں دینا فلسطین اسرائیل تنازعہ کے منصفانہ حل کے امکانات کو ختم کردے گا اور فلسطین اسرائیل تنازعہ کے دو ریاستی حل کا دروازہ مستقل طور پر بند کردیگا۔ تاہم ، اسرائیل کی تازہ جارحیت کے دوران فلسطینی بھائیوں کی حمایت میں پاکستان کا کردا رہمیشہ کی طرح فعال اور قابل تحسین رہا ہے۔