’’اسلام آباد کی ایک سڑک‘‘ کے عنوان سے امجد اسلام امجد نے ایک دل میں اتر جانے والی نظم لکھی ہے۔ پہلے اسی نظم کی چند سطریں شیئر کر لیتے ہیں۔ بلند و بالا وسیع و عریض، پرہیبت /یہ سنگ و خشتِ تراشیدہ سے بنے ایواں!/یہ جگمگاتی کھڑکیوں کے رنگِ رواں!/وہ بت کدے ہیں جہاں جو کوئی غور سے دیکھے عجب تماشے ہیں!/کسی کے کام نہ آئیں یہ وہ دلاسے ہیں!/یہ لوگ پانی میں رکھے ہوئے تراشے ہیں!/یہیں پر بٹتی ہے امن و سکون کی دولت!/یہیں شجاعت و صدق و صفا کے مکتب ہیں/یہیں پر رہتا ہے اہلِ دعا کا مستقبل/ یہیں ہے عدل کی کرسی، یہیں مناصب ہیں!/یہاں زمیں کا سِرا آسمان سے ملتا ہے/سوائے خیر کے، سب کچھ یہاں سے ملتا ہے!! یہیں پارلیمنٹ لاجز میں دو تین ماہ تک میرا قیام رہا اور یہیں ایک پارلیمنٹ لاج میں عمران خان مقیم تھے۔ جہاں ان سے میری پہلی باضابطہ ملاقات غالباً 2005ء کے لگ بھگ ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عمران خان 2002ء والی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے اکلوتے رکن اسمبلی تھے اور یہیں میں عمران خان کی سادگی، بے ساختگی اور تصنع سے پاک دینداری سے متاثر ہوا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب جنرل پرویز مشرف کا اقتدار نصف النہار پر تھا۔ تب میں چھ سات برس تک اسلام آباد میں مقیم رہا اور درس و تدریس اور صحافت، چینلز سے وابستہ رہا۔ مگر اب ہمیں امجد اسلام امجد کی بیان کردہ سڑک پر جانے کا یارا تھا اور نہ ہی دل افسردہ آزردہ وہاں جانے پر آمادہ تھا لہٰذا ہم نے اپنے ایک روزہ قیام کے دوران زیادہ سے زیادہ پرانے دوستوں اور اکا دکا نئے حکمرانوں سے ملاقات کے لیے اسلام آباد کلب کو ٹھکانا بنایا۔ اسلام آباد کے دوست بالعموم پبلک مقامات پر سرگوشیوں اور اشاروں کنایوں میں بات کرتے ہیں۔ لب لباب یہ تھا کہ پاک بھارت ٹکرائو کے پہلے رائونڈ میں پاکستان کی شاندار کامیابی کا طمطراق اب ماند پڑتا جا رہا ہے اور اب پاکستان کے اصل مسائل و معاملات پوری شدت کے ساتھ سر اٹھائے ہوئے سامنے آن کھڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا اس وقت نمبرون مسئلہ گرتی پڑتی معیشت ہے۔ یہ معیشت موجودہ حکمرانوں کے ہاتھ سے بار بار پھیلتی جا رہی ہے اور سنبھالے نہیں سنبھل رہی۔ اسد عمر ایک کامیاب سیاست دان اور کسی کمپنی کے اچھے منتظم تو ہو سکتے ہیں مگر ہرگز ہرگز ماہر اقتصادیات نہیں۔ اسلام آباد کے باخبر دوستوں کی یہی خبر ہے۔ جمعرات کے روز میں شہر اقتدار میں تھا اور اسی روز اسلام آباد کے اکثر اخبارات کے صفحۂ اول پر تین خبریں جلی سرخیوں کے ساتھ اوپر نیچے شائع ہوئیں۔ پہلی خبر یا ’’خوش خبری‘‘ سمائیلنگ وزیر خزانہ اسد عمر کی طرف سے عوام کے لیے یہ تھی ابھی ملک میں مزید مہنگائی بڑھے گی بلکہ اتنی بڑھے گی کہ چیخیں دور تک سنی جائیں گی۔ بندۂ مزدور کی تلخیٔ ایام، اس کی بے روزگاری، مہنگائی کی چکی میں اس کی پیسائی اور ناقابل برداشت بجلی و گیس کے بلوں کے بارے میں ایلیٹ کلاس وزیر خزانہ بالکل بے خبر ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ عوام کی چیخیں تو پہلے ہی بلند ہو رہی ہیں۔ عسکری خاندان کا بیک گرائونڈ رکھنے والے اسد عمر نے پہلے کرنل اور پھر جنرل شفیق الرحمن کی کتابیں تو ضرور جوانی میں پڑھی ہوں گی۔ شفیق الرحمن کی ایک کتاب کا نام تھا ’’حماقتیں‘‘ اور اس کے بعد آنے والی کتاب کا ٹائیٹل تھا ’’مزید حماقتیں‘‘۔ اسی وزن پر وزیر خزانہ کے آدم بیزار ڈرامے کے پرومو کا عنوان تھا ’’چیخیں‘‘ اور اب ڈرامے کی باقاعدہ پہلی قسط کا ٹائیٹل ہے ’’مزید چیخیں‘‘ اخبارات کے صفحۂ اول پر دوسری خبر پنجاب اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں اور مراعات میں تین گنا اضافہ وزارتِ اعلیٰ چھوڑتے ہوئے اگر وزیر اعلیٰ کے پاس لاہور میں گھر نہیں ہو گا تو اسے گھر اور گاڑی دی جائے گی۔ تیسری اہم خبر یہ تھی کہ یو اے ای سے 3.2ارب ڈالر ادھار تیل کی فراہمی کا معاہدہ منسوخ ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ معاہدہ منسوخ ہو جاتا ہے تو بگڑتی ہوئی معیشت مزید ابتر ہو جائے گی۔ اب ذرا پنجاب اسمبلی میں اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی اندرونی کہانی ایک رکن پنجاب اسمبلی کی زبانی سینئے۔ میرے یہ رکن اسمبلی دوست گزشتہ 15برس سے منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ پنجاب اسمبلی میں تنخواہوں کا معاملہ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی اور ڈپٹی سپیکر دوست مزاری بالخصوص تحریک انصاف کی خواتین ارکان اسمبلی کی طرف سے اٹھایا گیا۔ ان ارکان کا کہنا تھا کہ اسمبلی میں تحریک انصاف کے 80فیصد ارکان اسمبلی کا تعلق متوسط اور غریب طبقے سے ہے۔ میرے ذرائع کے مطابق یہ ناممکنات میں سے ہے کہ عمران خان اس اضافے سے بے خبر تھے۔ عمران خان کی اجازت سے بل پرورکنگ شروع کی گئی۔ اس ابتدائی اجازت کے بعد پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی نے مسلم لیگ(ن) کے ارکان اسمبلی سے رابطہ قائم کیا اور ان سے درخواست کی وہ لیڈر آف دی اپوزیشن حمزہ شہباز سے اس اضافے کے لیے اجازت لے لیں جیسے ہم نے عمران خان سے اجازت لی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے ارکان پنجاب اسمبلی نے حمزہ شہباز کو اعتماد میں لینے کے لیے بات کی تو میرے دوست کے مطابق حمزہ صاحب نے ہاں کی نہ ہی نہ کی۔ لہٰذا خاموشی کو نیم نہیں بلکہ مکمل رضا سمجھا گیا۔ یوں یہ معاملہ آگے بڑھا۔ اس حقیقت سے بچہ بچہ آگاہ ہے جناب عمران خان کی رضا کے بغیر پنجاب میں پتہ بھی نہیں ہلتا۔ پہلے منظوری اوپر سے آتی ہے پھر بزدار صاحب رسمی کارروائی پوری کرتے ہیں۔ ہمیشہ سچ بولنے والے اس رکن پنجاب اسمبلی کے مطابق باقی سب کچھ تو عمران خان کی رضا مندی سے ہی ہوا البتہ سابق وزیر اعلیٰ کے لیے گھر، گاڑی اور گارڈ وغیرہ کا اضافہ شاید خان صاحب کے علم کے بغیر ہوا ہو۔ ارکان اسمبلی کی بنیادی تنخواہ 18ہزار روپے تھی جو اب 80ہزار روپے کی گئی ہے، ڈیلی الائونس پہلے ایک ہزار تھا جو اب 4ہزار کیا گیا ہے۔ ہائوس رینٹ 29ہزار سے بڑھا کر 50ہزار کیا گیا ہے۔ مہمان داری کا الائونس 10ہزار سے بڑھا کر 20ہزار روپے ماہانہ کیا گیا ہے۔ باخبر رکن اسمبلی کا کہنا ہے کہ ایم پی اے ہوسٹل میں صرف 65ارکان کے پاس کمرے ہیں جبکہ 371کی اسمبلی کے باقی ارکان 30ہزار رینٹ سے کہیں مکان کرائے پر حاصل نہ کر سکے اس لیے کسی نہ کسی سرکاری ٹھکانے میں کوئی کمرہ حاصل کر کے ’’سرچھپا‘‘ رہے ہیں۔ اب یہ ہائوس رینٹ 30ہزار سے پچاس ہزار کیا گیا ہے۔ تحریکِ انصاف کی متوسط کلاس سے تعلق رکھنے والی خواتین ارکان کا کہنا ہے کہ اس اضافے کے بعد بھی بمشکل گزارہ ہو گا۔ البتہ لگتا یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے بعض ’’خیر خواہوں‘‘ نے ان کی ہچکولے کھاتی کشتی میں مزید سوراخ کرنے کے لیے ان کی تنخواہ کو 59ہزار سے بڑھا کر 3لاکھ 75ہزار کروا دیا، لاہور میں تا حیات گھر، 5سکیورٹی اہل کار 25سو سی سی گاڑی، ڈرائیور، پرسنل سیکرٹری وغیرہ کی مراعات کو بل میں شامل کروا دیا۔ شاید وزیر اعلیٰ کے یہ شاہانہ اضافے عمران خان کے علم میں نہ ہوں۔ باقی سب کچھ ان کی رضا مندی سے ہوا۔ اس وقت خان صاحب کی حکمرانی میں دو عناصر کو فیصلہ کن حیثیت حاصل۔ ایک خان صاحب کے کان بھرو تحریک والے یعنی ان کے مقربین اور دوسرے سوشل میڈیا، خان صاحب نے جب سوشل میڈیا پر ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے پر طوفان اٹھتا دیکھا تو انہوں نے اپنا فرمان واپس لے لیا۔