مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی جناب افتخار گیلانی لکھتے ہیں کہ بھارت کے سابق وزیراعظم منموہن سنگھ بنیادی طور پر سیاستدان نہیں بلکہ ایک ٹیکنوکریٹ تھے اور فطرتاً نہایت شرمیلے اور نستعلیق۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب نوے کی دہائی میں وہ آنجہانی پی وی نرسمہاراؤ کی حکومت میں وزیر خزانہ مقرر ہوئے۔ ملک کی اقتصادی حالت دگرگوں تھی اور معیشت کو پٹڑی پر لانے کے لیے تلخ فیصلے کرنا لازم تھا۔ تاہم اپوزیشن کا یہ حال تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں حکومت کی ایک نہ چلنے دیتی اور مالی معاملات کے حوالہ سے ہر وقت اسے زچ کیے رکھتی۔ یہ ہلڑ بازی اس وقت اپنے عروج پر جا پہنچتی جب منموہن سنگھ کسی پالیسی بیان کے لیے اپنی نشست سے اٹھتے یا پھر اپوزیشن کے کسی استفسار کا جواب دے رہے ہوتے۔ انہیں برملا سخت سست کہا جاتا اور بہت سی ناخوشگوار باتیں سننے کو ملتیں۔ منموہن سنگھ اس مزاج کے شخص نہیں تھے۔ بالآخر ایک دن وہ وزیر اعظم نرسمہا راؤ کے چیمبر میں جا پہنچے اور اپنا استعفی پیش کر دیا۔ نرسمہا راؤ نے ان کی پوری بات سنی اور پھر استعفی ان کو واپس لوٹاتے ہوئے ان سے چند روز کے لیے اسے التوا میں ڈالنے کی درخواست کی۔اگلے ہی روز منموہن سنگھ کو لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی کا پیغام ملا کہ وہ ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ واجپائی اسی اپوزیشن کے سربراہ تھے جس نے ان کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ بہرحال من موہن سنگھ اپوزیشن لیڈر کے دفتر میں ملاقات کے لیے پہنچ گئے۔ ان کی امیدوں کے برخلاف، واجپائی صاحب نے انکا پرتپاک استقبال کیا اور خوب آؤ بھگت کی۔ اس کے بعد انہوں نے من موہن سنگھ سے کہا کہ اپوزیشن کا کام شور شرابا کرنا ہوتا ہے کیونکہ انہیں اپنی سپورٹ بیس کیلئے کام کرنا ہوتا ہے اور ظاہر ہے یہ ان ووٹرز پر مشتمل ہے جو حکومت مخالف ہیں۔ یہ سیاست ہے۔ لیکن دوسری طرف ملک کو درپیش مسائل ہیں اور وہ ہم سب کی مشترک ذمہ داری ہے۔ ہمیں مل جل کر ان کا حل نکالنا ہے۔ تم بخوبی سمجھتے ہیں کہ جو کام آپ کر رہے ہیں وہ ملک کی بہتری میں ہے اس لیے آپ بے فکر ہو کر اسے جاری رکھیں۔۔۔ لوک سبھا میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کا خود پر کوئی بوجھ نہ لیں ، جب فیصلہ کن موڑ آئے گا تو ہم ان اقدامات کو پاس ہونے دیں گے۔ جمہوریت کا یہ خاصہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن بالعموم بھینسوں کی طرح سینگ پھنسائے رہتی ہیں۔ لیکن انہیں ایک دوسرے کے ساتھ مناسب تعلقات کار بھی رکھنا ہوتے ہیں تاکہ امور مملکت آگے بڑھتے رہیں۔ ویسے بھی پنجابی کی مشہور کہاوت ہے کہ جتنا مرضی سینگ پھنسائیں آخر کو ایک بھینس دوسری بھینس کی بہن ہی ہوتی ہے۔ انسانوں کی دنیا میں اس کی بہترین مثال غالباً جمہوریت میں اپوزیشن اور حکومت کا باہمی معاملہ ہے۔ حکومت اور اپوزیشن بخوبی سمجھتی ہیں کہ سیاست کے ساتھ ساتھ اپنے "ہاؤس" کو ان آرڈر اور مقتدر رکھنے کا یہی طریقہ ہے کہ وہاں امورِ مملکت کسی تعطل کا شکار نہ ہوں۔ خود مندرجہ بالا مثال میں آپ دیکھیے کہ منموہن سنگھ کی اصلاحات پر بی جے پی کی پہلی حکومت نے شائننگ انڈیا کی بنیاد رکھی اور پھر کانگریس نے اسے اور آگے بڑھایا۔ یعنی پالسی کے تسلسل نے ملکی معیشت کو آگے بڑھایا جس کا فائدہ بی جے پی نے بھی اٹھایا اور کانگریس نے بھی ، سب سے بڑھ کر عوام نے۔ اور خود ملک کی ساکھ میں بے پناہ اضافہ ہوا جس کا بڑا مظہر وہاں ہونے والی بیرونی سرمایہ کاری ہے۔دراصل اس بہتر تعلق کی وجہ سے ہی ملک میں سیاسی استحکام کا تاثر نمایاں ہوتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ خود حکومت کو رہتا ہے اور وہ ہر وقت ایمرجنسی موڈ میں رہنے کے بجائے معمول کے کام زیادہ بہتر طور انجام دے کر نہ صرف اپنی خود اعتمادی کے تاثر کو بڑھاتی ہے بلکہ عوام میں اپنے لیے خیرسگالی کو بھی فروغ دیتی ہے۔ داخلی صورتحال کے ساتھ ساتھ خارجہ تعلقات پر بھی اس کا بہت مثبت اثر ہوتا ہے۔وزیراعظم صاحب کو اس بابت بھی کچھ غور کرنا چاہیے۔ حکومت میں آ جانا اور بات ہے اور حکومت کو برقرار رکھنا ، یا حکومت میں رہ کر کارکردگی دکھانا بالکل اور بات۔ اس کے لیے انہیں اپنے حلیفوں کے ساتھ ساتھ گاہے اپوزیشن کی ضرورت بھی پڑے گی، خاص طور پر قانون سازی سے متعلق معاملات میں۔ پبلک اکاؤنٹ کمیٹی والے قصے کی طرح چڑھائی اور پسپائی کا رویہ خود حکومت کے لیے بہتر نہیں۔ اس کے لیے یہ بھی ہرگز ضروری نہیں کہ احتساب سے پیچھے ہٹا جائے، لیکن یہ بھی کیا ضروری ہے کہ ہر وقت نقارہ ہی بجتا رہے۔بعض لوگوں کی رائے میں خان صاحب غالباً اس وقت "گائے" کی دوستی کو زیادہ انجوائے کر رہے ہیں اسی لیے بہن کو لفٹ نہیں کروا رہے۔ یہ دوستی کوئی بری بات نہیں ، خاص طور پاکستان کے معروضی حالات کے تناظر میں تو یہ بہت اہم فیکٹر ہے کہ آپس میں جس قدر ہم آہنگی زیادہ ہو اسی قدر حکومت کی ورکنگ بہتر ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ بھی اپنی جگہ درست ہے کہ دوستی میں تو اتار چڑھاؤ آ سکتا ہے۔۔۔ لیکن "بہن" کے ساتھ تو سب دکھ سکھ سانجھے ہیں۔ خود اپوزیشن والوں کی بھی گائے سے بہت دوستی رہی۔۔۔۔ بقول شاعر : میں نے بھی کیا تھا پیار کبھی ، آئی تھی یہی جھنکار کبھی۔۔۔۔ اب گیت میں گاتی ہوں غم کے ! )دوسری بات یہ کہ اگر ہر کام کے لیے دوست پر ہی تکیہ کیے رہیں گے تو 50 کی دہائی کی طرح وہ یہ بھی سوچ سکتا ہے کہ اگر سارے کام میں نے ہی کرنے ہیں تو پھر میں ہی کیوں نہ… ؟ خان صاحب۔۔۔ کامیابی کا نسخہ یہی ہے کہ "ہاؤس" کے رشتے بھی نبھائیں اور بیرون ہاؤس دوستی بھی۔