تھکا دینے والے سفر کے بعد ، جنگل عبور کر کے اوپر پہاڑی پر بوہڑ ی کے چشمے کے ساتھ ایک گھنے درخت کی چھائوں میں سستانے بیٹھے تو بیٹی نے پوچھا : ان پہاڑوں کو مارگلہ کیوں کہتے ہیں ؟ راول جھیل کے ماہی گیر چاچے بشیر اور گوکینہ کے داستان گو علی احمد سے جتنی کہانیاں سن رکھی تھیں یا آرکائیوز سے پڑھ رکھی تھیں، جنگل کی اس خاموش دوپہر میں بچوں کو سنا دیں۔ پہلی کہانی کا تعلق قدیم ہندو داستان سے ہے جس کے کچھ نقوش مہابھارتا میں ملتے ہیں۔مارگلہ کا پہاڑی سلسلہ ہندو اور بدھ مت تہذیب میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ہندوئوں کے مطابق وشنو کے ساتویں اوتار ، راجہ راما چندرا نے جلاوطنی کے ایام اسی پہاڑ کے ایک گائوں سید پور میں گزارے تھے جہاں ان کی یاد میں رام کنڈ نامی مندر بھی قائم ہے اور رام کنڈ ، لچھمن کنڈ، سیتا کنڈ اور ہنومان کنڈکے نام سے تازہ پانی کے چار چشمے بھی موجود ہیں۔اپریل مئی میں ہی یہاں ہندوئوں کا ایک میلہ بھی لگا کرتا تھا۔’مارگلہ ‘ کا تعلق بھی ایسی ہی ایک داستان سے ہے۔ روایت ہے کہ پرانے وقتوں میں ایک ناگ ہوتا تھا جس کا نام ’ ٹکشاکا ‘ تھا۔ ہندواور بدھ مت کی داستانوں کے علاوہ چینی اور جاپانی داستانوں میں اس کا ذکر پایا جاتا ہے۔ہندو روایت کے مطابق ٹکشاکا ایک ایسے ناگ قبیلے کا بادشاہ تھا جو آدھے انسان اور آدھے ناگ تھے اور جنگل میں رہتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ارجن اور کرشنا نے اگنی دیوتا سے مل کر ان سے جنگ کی اور انہیں شکست دینے کے بعد ان کے جنگل کو جلا دیا۔ شکست کا غصہ ٹکشاکا نے یوں اتارا کہ اس نے ایک زہریلے ناگ کی شکل اختیار کی اور ارجن کے پوتے پرکشت کو ڈس لیا اور وہ مر گیا۔ اس کے بعد یہ اپنے ناگ قبیلے کو لے کر’ ٹکشاکا ‘ ان پہاڑوں میں آ گیا جہاں بیٹھ کر ہم کہانی سن رہے ہیں۔ مارگلہ کے آخری کونے پر ناگوں نے بسیرا کیا جہاں آج کل ٹیکسلا ہے۔ روایت ہے کہ ٹیکسلا کا شہر اسی ناگ بادشاہ ’‘ ٹکشاکا ‘‘ سے منسوب ہے۔مہابھارتا کے مطاابق پرکشت کا بیٹا جب بادشاہ بنا تو اس نے ٹکشاکا کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ اس جنگ میں’ ٹکشاکا ‘ کی فوج کے دفاعی مورچے مارگلہ کے پہاڑوں میں قائم کیے گئے۔ ٹکشاکا کو شکست ہوئی لیکن استیکا نامی ایک سادھو بابا کی مداخلت سے ٹکشاکا کی جان بخشی ہو گئی اور اس کے قبیلے کو یہیںرہنے کی اجازت مل گئی۔ یہ ناگ قبیلہ اسی پہاڑی سلسلے میں آباد ہو گیا ۔سانپوں کے قبیلے کی وجہ سے ان پہاڑوں کو ’مارقلعہ‘ یعنی سانپوں کا قلعہ یا ’ماری گلہ ‘ یعنی سانپوں کا مرکزکہا جانے لگا۔البیرونی کی کتاب الہند میں بھی ماری قلعہ کا ذکر موجود ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ ناموں کی ادائیگی بدلتی رہتی ہے تو ایک وقت آیا کہ ماری قلہ یا ماری گلہ جو بھی تھا، وہ مارگلہ کہا جانے لگا۔ داستان گو علی احمد البتہ ایک اور کہانی سناتا ہے۔گو کینہ سے چل کر وہ درہ جنگلاں کے راستے اسلام آباد آتا ہے اور میرے لیے کچنار لاتا ہے جو وہ بازار سے چار گنا مہنگے مجھے دیتا ہے۔لیکن اسے یہ خبر نہیںکہ میں اسے کچنار کے نہیں اس کی جھوٹی سچی کہانیوں کے پیسے دیتا ہوں جو وہ مجھے ندی کنارے بیٹھ کر سناتاہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہندوئوں کی کہانیاں ہی ہیں بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ناگ قبیلہ آدھا ناگ ہو اور آدھا انسان۔ وہ مجھے سمجھاتاہے کہ ایسی کہانیوں سے عقیدہ خراب ہو جاتا ہے ان کا یقین نہ کیا کرو۔ اس کے مطابق مارگلہ کا یہ’ مار‘سانپ والا نہیں بلکہ شکار والا ہے۔ اور مارگلہ سے مراد ایک ایسی شکار گاہ ہے جہاں جانوروں کے غول کے غول پھرتے ہیں۔پھر وہ اپنے بڑوں کی اور اپنے بچپن کی کہانیاں سناتا ہے جب درہ کوانی سے ٹیمبا جاتے ہوئے بپھرے ہوئے ہرن نے اس کا راستہ روک لیا تھا اور پھر کیسے ایک شام اس کے گائوں کے لوگوں نے ہرن مار کر ندی کنارے پکا کر کھایا تھا۔اس کا کہنا ہے کہ اس جنگل میں ہرن ، غورال ، پہاڑی بکروں اور غولوں کے غول پھرا کرتے تھے اور کیسے صوبہ سرحد اور ہزارہ سے لوگ آ کر ان کا شکار کیا کرتے تھے۔چنانچہ داستان گو کے خیال میں مارگلہ کا مطلب ایک ایسی شکار گاہ ہے جہاں وافر مقدار میں جانور موجود ہے۔ ایک کہانی مغل بادشاہوں کے زمانے کی ہے جب اس علاقے میں بری امام آئے۔ ان کے آنے سے پہلے یہ علاقہ چوروں ڈاکوئوں کی آماجگاہ تھا اور مارگلہ میں ایک بستی ان کی وجہ سے ’’ چورپور‘‘ کے نام سے مشہور تھی جو بعد میںنور پور ہو گئی۔ تو روایت یہ ہے کہ یہ لوگ مارگلہ میں لوگوں کا گلہ کاٹ دیتے تھے اور لوٹ لیتے تھے تو یہ علاقہ اس وجہ سے مارگلہ کے نام سے مشہور ہو گیا۔ تا ہم یہ کہانی زیادہ کمزور لگتی ہے اور اس میں جھوٹی داستانوں جیسا لطف بھی نہیںہے۔کیونکہ مارگلہ کی تاریخ بہت پرانی ہے جبکہ یہ کہانی چندسو سال پہلے کی ہے۔مارگلہ کی پہاڑوں پر ایک ملین سال پرانا انسانی قدم کا نشان دریافت کیا جا چکا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ مارگلہ کی تاریخ 24 ملین سال پرانی ہو سکتی ہے۔ Indusian ریسرچ سیل کا یہ دعوی بھی دلچسپ ہے کہ مارگلہ میں حضرت حوا کے قدموں کے نشانات کوخارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایک اور کہانی سفید ہنوں کے سردار مہر گل کی ہے۔ اگر چہ اس کا دارلحکومت سیالکوٹ تھا لیکن اس نے بدھ مت کی بہت سی خانقاہوں کا تباہ کیا جو مارگلہ کے ان علاقوں کے آس پاس موجود تھیں۔ راجہ پال دتیہ سے شکست کھا کر اس نے کشمیر کے راجہ کے پاس پناہ لی اور پھر اسے قتل کر کے کشمیر میںحکومت بنا لی۔روایت ہے کہ اسی کشمکش کے زمانوں میں کہیں اس نے مارگلہ کے ان پہاڑوں میں قیام کیا ۔ ہمارے دوست سجاد اظہر بتاتے ہیں کہ اس کے بیٹے کا نام سردار ماڑی قلا تھا۔ان کے خیال میں یہ پہاڑیا تو مہر گل سے منسوب ہو کر مارگلہ بن گئے یا ان کے بیٹے ماڑی قلا سے منسوب ہو کر بعد میں مارگلہ کہلائے۔ کہانی مکمل ہو چکی ہے۔ سامنے ایک گلہری بیٹھی ہمیں غور سے دیکھ رہی ہے۔ شاید اسے بھی اپنے جنگل کی یہ داستان دلچسپ لگی ہے۔