اسلام آباد (لیڈی رپورٹر) اسلام آباد ہائیکورٹ نے معروف گلوکار اور زندگی ٹرسٹ کے صدر شہزاد رائے کی درخواست پر وفاق کے تمام تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد فوری روکنے کا حکم دیا ہے ۔ عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ بچوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے ۔آئین بچوں کو عزت نفس اور وقار دیتا ہے ، سکولوں میں داخل بچوں کی تضحیک اور تذلیل نہ ہونے کو یقینی بنایا جائے ، یہ آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت بچوں کو حاصل حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ عدالت نے حکومت سمیت تمام فریقین سے دو ہفتوں میں جواب طلب کرتے ہوئے سیکرٹری وزارت انسانی حقوق اور اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کر دئیے ۔ عدالت نے وزارت داخلہ کو وفاق کے سکولوں میں بچوں پر تشدد کی شکایات وصولی ،ازالے کا انتظام کرنے اور پیرا کو نجی سکولوں کو گائیڈ لائنز جاری کرنے کی ہدایت کرنے کا حکم بھی سنایا ۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر وزارت انسانی حقوق سے بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کنونشن پر حکومتی ذمہ داریوں اور عملدرآمد سے متعلق رپورٹ بھی طلب کر لی ہے ۔ شہزاد رائے کے وکیل شہاب الدین اوستو نے موقف اختیار کیا کہ پینل کوڈ کی دفعہ 89 میں بچوں پر تشدد کی گنجائش بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ، گزشتہ سال لاہور میں ایک بچہ سکول میں تشدد کے باعث جان سے چلاگیا، جسمانی سزا آئین کے آرٹیکل9 اور 14 کے تحت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ جسمانی سزا سے بچوں پر نفسیاتی اثر بھی پڑتا ہے اور وہ خوف ، غصے اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعدازاں عدالت نے سماعت 5 مارچ تک ملتوی کر دی۔سماعت کے بعد شہزاد رائے نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ بچے پاکستان میں پیدا ہوتے ہیں تو والدین پٹائی کرتے ہیں، سکول جاتے ہیں تو استاد پٹائی کرتے ہیں جبکہ معاشرے میں ایس ایچ او بھی مارتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تحقیق کے مطابق تشدد سے صرف تشدد ہی بڑھتا ہے اور جب بچے پر تشدد ہوتا ہے تو دماغ کا وہ حصہ متاثر ہوتا ہے جو جنسی زیادتی سے ہوتا ہے ۔