9/11کے بعد یہ سوال شدو مد سے ابھرا کہ مسلمان اپنا وجود برقرار رکھنے اور نشاۃ ثانیہ کی تحریکوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے کون سا لائحہ عمل اختیار کریں۔امریکہ و یورپ کے تہذیبی غلبے سے مرعوب ہمارے حکمرانوں اور دانشوروں نے تسلسل سے یہ باور کرایا کہ اسلام کے ایک جدید اور عملیت پسند ایڈیشن سے اقوام عالم کو مطمئن اور نسل نو کو متاثر کیا جا سکتا ہے‘علامہ محمد اسد نے 1934ء میں اپنے کتابچہ Islam at the cross roadمیں اس موضوع پر روشنی ڈالی‘ سردار محمد اشرف خان نے اس کا ترجمہ ’’اسلام کی کھلی شاہراہ‘‘ کے عنوان سے کیا ۔دوران مطالعہ کتابچے کے آخری صفحات میں اس سوال کا جزوی جواب ملا سوچا کہ قارئین کو بھی شریک مطالعہ کروں ‘پڑھیے اور داد دیجیے۔ علامہ محمد اسد لکھتے ہیں۔‘‘ اسلام کو اس کے اصلی معنوں میں مغربی تہذیب میں ضم کر دینے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔مگر دوسری جانب مسلم دنیا میں اب اتنی سکت بھی نہیں رہی کہ وہ کوئی متعدد بہ مزاحمت پیش کر سکے۔مغربی تصورات و رسومات اسلام کے ثقافتی وجود کی باقیات کو تہس نہس کر رہے ہیں۔اسلامی مقاصد سے دستبرداری کی کیفیت ہر طرف عیاں ہے اور قوموں اور تہذیبوں کی زندگی میں دستبرداری کے معنی موت کے ہوتے ہیں۔ آخر‘اسلام کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟کیا جیسا کہ ہمارے مخالفین اور ہماری صفوں میں موجود شکست خوردہ عناصر ہمیں یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں‘یہ حقیقت ہے کہ اسلام ایک ‘چلا ہوا کارتوس ‘ہے!کیا وہ اپنی افادیت کی مدت پوری کر چکا ہے اور جو کچھ اسے دنیا کو دینا تھا‘دے چکا! تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تمام کی تمام انسانی ثقافتیں اور تہذیبیں ایک نوع کی نامیاتی وجود ہونے کی بناء پر جانداروں سے مشابہ ہوتی ہیں اور وہ نامیاتی زندگیوں کے تمام مرحلوں سے گزرتی ہیں۔وہ پیدا ہوتی ہیں‘اپنے عروج کو پہنچتی ہیں‘پکی عمر کی ہوتی ہیں اور پھر زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔وہ پودوں کی طرح سوکھ کر گر جاتی ہیں اور اپنے وقت ختم ہونے پر مر جاتی ہیں اور دوسری نوزائیدہ تہذیبوں کے لئے جگہ خالی کر دیتی ہیں۔ کیا اسلام کے ساتھ یہی صورت حال درپیش ہیں!سطحی نظر سے دیکھنے سے یہی کچھ لگتا ہے۔بلا شبہ‘اسلامی تہذیب کا بھی ایک شاندار دور تھا۔وہ اپنی بہار پر اس سے قوت پا کر لوگوں نے کارنامے انجام دیے اور دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔بعدازاں تو اس کا صرف نام رہ گیا اور اب ہم اس کی قدرو قیمت کو ملیا میٹ ہوتے ہوئے‘اس کا زوال دیکھ رہے ہیں۔مگر ‘کیا اس کے آگے کچھ نہیں! اگر ہم یقین کر لیں کہ اسلام بہت ساری تہذیبوں میں سے ایک اور تہذیب نہیں جو محض انسانی خیالات اور جدوجہد کے نتیجے میں سامنے آئی بلکہ وہ قادر مطلق کا ایک ایسا قانون ہے جس کی اطاعت ہمیشہ اور ہر جگہ ہونا چاہیے‘تو سارا کا سارا منظر بدل جاتا ہے‘اگر اسلامی تہذیب قانون الٰہی کا ماحاصل ہے یا تھی۔پھر تو ہم اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتے کہ وہ بھی دوسری تہذیبوں کی طرح وقت اور مقام کی پابند ہے۔جو کچھ ہمیں اسلام کے زوال کی صورت میں نظر آ رہا ہے وہ تو حقیقتاً خود ہمارے قلوب کی موت اور ان کا کھوکھلا پن ہے جو اس قدر کاہلی کا شکار ہو چکے ہیں کہ انہیں اب وہ ابدی آواز سنائی نہیں دیتی۔اس بات کی کوئی علامت نظر نہیں آتی کہ انسانی ذات اپنے موجودہ مذہب کے اعتبار سے اسلام سے سبقت لے گئی ہو۔وہ تو خود اسلام سے بہتر کوئی نظام اخلاق ہی پیش نہیں کر پائی نہ ہی وہ انسانی اخوت کے تصور کو عملی جامہ پہنا سکی جبکہ اسلام نے ’’امت‘‘ کی صورت میں ایک ماورائے قوم تصور پیش کیا۔وہ کوئی ایسا سماجی ڈھانچہ بھی پیش نہیں کر سکی جو اراکین کے درمیان تنازعات کی صورت میں اپنی کارکردگی کے ذریعے ان کی شدت کم سے کم کر دیتا۔جیسا کہ اسلام کے سماجی منصوبوں میں ہوتا ہے۔وہ انسانی عظمت کو بھی مزید بلند نہیں کر سکی۔نہ ہی فرد کے احساس تحفظ کو‘نہ اس کی روحانی تمنا کو۔آخر صحیح مگر یقینا!اہمیت میں کم ہرگز نہیں اور وہ یہ کہ وہ اس کی خوشیوں میں بھی اضافہ کر سکی۔ ان تمام باتوں کی بناء پر ‘انسانی نسل کے موجودہ کارنامے اسلامی نظام العمل پر پورا نہیں اترتے۔پھر اس صورت میں یہ کہنے کا جواز کہاں باقی رہ جاتا ہے کہ اسلام تو ’’فرسودہ‘‘ ہو چکا ہے!کیا محض اس لئے کہ اسلام کی بنیادیں سراسر مذہبی ہیں اور آج کل مذہبی سمت بندی کا فیشن ختم ہو چکا ہے!لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایک مذہبی بنیادوں پر قائم نظام زندگی کا ایک ایسا لائحہ عمل پیش کر دیا جو انسان کی نفسیاتی ساخت کے لئے ان اصلاحات اور تجاویز سے جو انسانی ذہن کی پرورش‘کہیں زیادہ ٹھوس اور سازگار ثابت ہوا۔تو کیا مذہبی نظریہ کے حق میں یہ ایک طاقت ور دلیل نہیں ہو گی! اس بات پر یقین کرنے کے لئے ہمارے پاس ہر دلیل موجود ہے کہ انفرادی مشیت کارہائے نمایاں کی بناء پر اسلام تمام الزامات سے بری ہو چکا ہے۔اس لئے کہ انہیں اچھی طرح سمجھا دیا گیا تھا اور سب کچھ بتا دیاگیا تھا اور ان کی کمزوریاں بھی بتا دی گئی تھی۔قبل اس کے کہ انسانی ذات کوئی ایسی غلطیاں کرے‘اسے تنبیہ کر دی گئی تھی۔مذہبی اعتقادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے‘خالص دانشورانہ نقطہ نظر سے انہیں ہر ترغیب دے دی گئی تھی تاکہ وہ اسلام کی عملی رہبری پر پوری طرح عمل کر سکیں۔ اگر ہم اپنی ثقافت اور تہذیب کا اس نقطہ نظر سے جائزہ لیں تو لازماً اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس کا احیاء بالکل ممکن ہے۔ہمیں اسلام کی ’’اصلاح‘‘ کی کوئی ضرورت ہے ہی نہیں کہ وہ تو اپنی جگہ کامل و اکمل ہے۔جس اصلاح کی ضرورت ہے وہ مذہب کی جانب ہمارا اپنا رویہ ہے۔ہماری کاہلی ہے‘ہماری خود فریبی ہے۔ہماری تنگ نظری ہے۔مختصراً یہ کہ خود ہماری ہی کمزوریاں ہیں‘اسلام کی ہرگز نہیں۔اسلامی احیاء کے لئے ہمیں کردار کے نئے اصولوں کو باہر تلاش کرنے کی ضرورت نہیں مگر ہمیں اپنے پرانے اصولوں کے اطلاق کی ضرورت ہے جنہیں ہم بھول چکے ہیں۔دوسری تہذیبوں سے ہم یقینا تحریک حاصل کر سکتے ہیں مگر اسلام کے مکمل ڈھانچے کے بجائے کوئی غیر اسلامی بات قبول نہیں کر سکتے بھلے وہ مغرب سے آئی ہو یا مشرق سے۔بطور ایک روحانی اور سماجی نظام کے‘ اسلام میں ’’اصلاح‘‘ کی کوئی گنجائش نہیں۔ان حالات میں‘اس کے پیش کردہ تصورات میں یا اس کے سماجی نظم و ضبط میں‘کسی بھی قسم کے غیر اسلامی اثرات کا نفوذ اس کے لئے حقیقتاً تباہ کن اور زوال کا باعث ہو گا جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہو گا۔تبدیلی ضرور آنی چاہئے مگر وہ تبدیلی ہماری ذات کے اندر سے آنی چاہیے اور اس تبدیلی کے نتیجے میں ہمیں اسلام کی طرف مراجعت کرنی چاہیے نہ کہ ہم اسلام سے اور بھی دور ہو جائیں۔ (جاری ہے)