بزرگوں کی ترجیح کیا ہے؟ اسلام یا اسلام آباد؟ اسلام آباد کی محبت میں یہ سب اکٹھے ہو سکتے ہیں تو اسلام کی خاطر ایک کیوں نہیں ہو سکتے؟میں سہیل وڑائچ ہوتا تو پوچھتا بزرگو کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟ مجل عمل کے احباب خفا ہیں ، سچ مگر یہ ہے کہ بزرگوں نے اسے غلطی ہائے مضامین بنا چھوڑا ہے۔سیاست اگر ایشوز کی بنیاد پر کی جاتی تو صرف نظر بھی ممکن تھا اور بدلتے پینتروں کو بھی حکمت عملی کا نام دیا جا سکتا تھا۔ لیکن جب صرف مذہب کا سہارا لے کر عوام سے ہمکلام ہو ا جائے اور نیم خواندہ سماج کو بتایا جائے کہ ہمیں ووٹ دینا اصل میں اسلام کے قلعے کی فصیلوں کو طاقتور بنانا ہے اور ہم ہی ہیں جو سیکولر اور لادین نہ بننے دیں گے پاکستان کو‘تو پھر چند سوالات کا جنم لینا ایک فطری امر ہے۔یہ انتخابی معرکے کو حق و باطل کی جنگ بنا کر لوگوں کو بتایا جائے گا کہ ایک طرف یہودی ایجنٹ اور لٹیرے ہیں جن کا مقصد پاکستان کی فکری سمت کو بدلنا اور لوٹ مار کرنا ہے اور دوسری جانب ہم اہل تقوی ہیں جو صرف غلبہ اسلام کی خاطر یہ سب کر رہے ہیں تو پھر ان سوالات سے صرف نظر ممکن نہیں رہتا۔ پہلا سوال یہی ہے کہ آپ کی ترجیح کیا ہے؟ اسلام یا اسلام آباد؟ اگر یہ ترجیح اسلام ہے تو آپ سب صرف اس وقت ہی کیوں اکٹھے ہوتے ہیں جب اسلام آباد کی منزل طے کرنا مقصود ہو؟ عام دنوں میں یہ اتحاد اور یگانگت کیوں دیکھنے کو نہیں ملتی؟مقصد اگر صرف اسلام ہے تو یہ کیا معاملہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام شخصیات کے نام پر وراثت کی طرح بٹ جائے اور ایک دھڑے کو جے یو آئی ( ف) اور دوسرے کو (س) کہا جائے؟جمعیت علمائے اسلام کی واحد استثناء کے ساتھ مجلس عمل میں شامل دیگر جماعتیں اپنے بل بوتے پر شاید چار نشستیں بھی نہ جیت سکیں تو یہ سب ہمیشہ کے لیے ایک کیوں نہیں ہو جاتیں ؟ آدھی آدھی اینٹ کے قلعے بنا کر الگ الگ داد شجاعت کیوں دے رہی ہیں؟جب آپ زرداری حکومت کا حصہ تھے کیا اس وقت بھی آپ غلبہ اسلام کی جدوجہد کر رہے تھے؟جب آپ مسلم لیگ ن کی حکومت کا اٹوٹ انگ بنے رہے کیا وہ دین کی سربلندی کے لیے تھااور کیا یہودی ایجنٹوں کی حکومت کا حصہ بھی آپ صرف اعلائے کلمۃ الحق کے پیش نظر رہے؟ مقصد جب اسلام ہو تو اہل مذہب سراپا دعوت ہوتے ہیں اور مقصد جب اقتدار کی بندر بانٹ سے حصہ لینا ہو تو یہ کشمکش اقتدار میں حریف بن جاتے ہیں۔یوں سمجھیے کہ اہلِ مذہب جب سراپا دعوت ہوں تو مولانا طارق جمیل ہوتے ہیں ،جب کشمکش اقتدار میں حریف بن جائیں تو مولانا فضل الرحمن بن جاتے ہیں۔پہلا رویہ سراپا خیر ہے اور اہل خیر وینا ملک کو بھی بیٹی کہہ کر اس کے سر پر دوپٹہ اوڑھا دیتے ہیں۔لیکن دوسرا رویہ ردعمل کو جنم دیتا ہے،اور سیاسی حریفوں پر کبھی یہودی ایجنٹ کی پھبتی کسی جاتی ہے تو انہیں سلام دشمن قرار دیا جاتا ہے۔پہلا رویہ محبت کو فروغ دیتا ہے اور دوسرا رویہ رد عمل کو جنم دیتا ہے۔رد عمل کی یہ نفسیات بالآخر معاشرے کو سیکولرزم کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔میرے جیسے عامی کے پیش نظر سوال اب یہ ہے کہ اہلِ مذہب کا اصل مقام کون سا ہے؟دعوت؟ یا اقتدار کی حریفانہ کشمکش؟ اہلِ مذہب کا بنیادی کام دعوت ہے۔انہوں نے جب میدانِ سیاست کا رخ کیا تو یہ حکمت ِعملی کا ایک معاملہ تھا۔کہا گیا کہ جب تک ریاست کی زمام کار نیک لوگوں کے ہاتھ میں نہیں آ جاتی تب تک معاشرے میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی،اس لیے اب فرد کی اصلاح کے ساتھ ساتھ حصول اقتدار کی کوششیں بھی کی جائیں گی۔یہ ایک غلط فیصلہ تھا۔بہت زیادہ نیک نیتی سے کام لیا جائے تو اسے اجتہادی غلطی کہا جائے گا اور قدرے بد گمانی شعار کی جائے تو یہ حصول اقتدار کے لیے لوگوں کے مذہبی جذبات کا استحصال قرار پائے گا۔جب اہلِ مذہب سیاست میں آئے تو بجائے سیاست کا آلودہ کلچر بدلنے کے وہ، الا ماشاء اللہ، اسی کلچر کا حصہ بن گئے۔چنانچہ دل پر ہاتھ رکھ بتائیے جے یو آئی کی سیاست ن لیگ اور پی پی پی کی سیاست سے کتنی منفرد اور معتبر ہے؟کسی پر سوئس اکائونٹس کا الزام لگا تو کسی پر شہداء کی زمینوں سمیت کئی الزامات لگ گئے۔فرق کیا رہا؟ہمارا معاشرہ ایک روایتی سوچ رکھتا ہے۔مذہب پر عمل کرنے میں بھلے اس سے تساہل ہو جائے لیکن مذہب کی بات چلے تو دل ہے کہ کھنچتا سا چلا جائے ہے والا معاملہ ہو جاتا ہے۔لوگ اہلِ مذہب کو اخلاقی حوالوں سے دوسروں سے معتبر دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کی تکریم بھی دوسروں کی نسبت زیادہ کرتے ہیں چنانچہ جب عمران خان کہتے ہیں’مولانا فضل الرحمن چھ روپے سستے ہو گئے‘تو دکھ ہوتا ہے‘۔۔۔ لیکن ذرا تصور کیجیے کیا عمران خان کی جرات ہے وہ ایسا ہی رویہ مولاناطارق جمیل صاحب کے بارے میں اختیار کر کے دکھائیں۔ممکن ہی نہیں۔ایسا کریں گے تو اپنی ہی نظر میں گر جائیں گے۔خود ان کے کارکنان کی ایک بڑی تعداد ان سے خفا ہو جائے گی۔ مذہب خیر خواہی کا نام ہے۔اور اہلِ مذہب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سب کے لیے خیر خواہی رکھیں۔سیاست البتہ ایک مختلف چیز ہے۔سیاست حصول اقتدار کے لیے کی جاتی ہے اور اس کا بنیادی تقاضا گرو ہ بندی ہے۔اس کا مقصور ووٹوں کا حصول ہے۔ْاس کے لیے بہت سی قباحتیں اختیار کرنا پڑتی ہیں اور وقت نے ثابت کیا کہ اہلِ مذہب نے یہ اختیار بھی کیں۔سیاست تقسیم اور دھڑے بندی کے اصول پر ہوتی ہے۔جو برا آدمی آپ کی صف میں آ جائے آپ اس کے قصائد پڑھتے ہیں اور دوسری صف میں اچھا آدمی بھی ہو آپ کو برا لگتا ہے۔سیاست جب مذہب کے نام پر ہوتی ہے تو معاملات مزید گھمبیر ہو جاتے ہیں۔ آپ اپنے ہر فعل کی مذہبی تعبیر کرتے ہیں اور آپ کا مخالف اسلام دشمن قرار پاتا ہے۔یہ صرف آج کا معاملہ نہیں کہ مولانا فضل الرحمن کی سیاست کو عمران خان کی صورت میں ایک چیلنج در پیش ہوتا ہے تو عمران خان یہودی اور امریکی ایجنٹ ہی قرار پاتے ہیں، یہ معاملہ بہت پرانا ہے۔آئی جے آئی بنی تھی تب بے نظیر بھٹو کی اسلام دوستی کو سوالیہ نشان بنا دیا گیا تھا اور جب قومی اتحادکو بھٹو کی مقبولیت کا سامنا کرنا پڑا تھا تو سید مودودی جیسی غیر معمولی علمی شخصیت نے بھی کہہ دیا کہ یہ انتخابی معرکہ’ بعینہ‘ غزوہ تبوک سا ہے ۔دو مسلمانوں کے درمیان انتخابی معرکہ بعینہٖ غزوہ تبوک کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ انتخابی سیاست کے کمالات ہیں۔ ابھی طیب اردوان ترکی کے انتخابات جیتے ہیں۔ ذرا دیکھ کر بتا دیجیے انہوں نے بھی کسی سیاسی مخالف کو یہودی ایجنٹ کہا؟ انہوں نے بھی یہ دعوی کیا کہ یہ انتخاب بعینیہ غزوہ تبوک ہے جہاں خیر اور شر مد مقابل ہیں۔ نظریے کی آنچ لے کر جب ایشوز کی سیاست کی جاتی ہے تو طیب اردوان جنم لیتے ہیں اور جب صرف لوگوں کے نظریاتی استحصال پر سیاست کی بنیاد رکھی جائے تو مجلس عمل جنم لیتی ہے۔ سیاست میں مفادات کے حصول کے لیے مذہب کے استعمال کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ سیکولر قوتیں طاقت پکڑنا شروع ہو گئیں۔مذہبی سیاست نے جب اپنے تقاضوں کے تحت مذہب کا استعمال کیا تو لوگ رد عمل میں سیکولر ہو نا شروع ہو گئے۔اس وقت بھی مذہبی سیاست کے ناقدین بہت زیادہ ہیں۔لیکن جب مذہبی سیاست اپنے مذہب کے نام پر لوگوں کا استحصال کرتی ہے تو لوگ رد عمل میں سیکولر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔پاکستان میں کبھی سیکولرزم نے قوت پکڑی تو مذہبی سیاست کا شمار اس کے اولین نقوش میں ہو گا۔مذہبی سیاست کو آپ سیکولرزم کا ہراول دستہ کہہ سکتے ہیں۔جس کی اصل منزل اسلام نہیں ، اسلام آباد ہے۔