اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے میرا غائبانہ تعارف پاکستان میں ہوا اور نہ ہی کسی پاکستانی نے کروایا یہ چار سال پرانی بات ہے میں استنبول میں فاتح قسطنطنیہ سلطان فاتح کے مزار کے قریب ایک ہوٹل میں موجود تھا جب برادر ندیم ایک گورے چٹے اسمارٹ سے جوان العمر ترک کے ساتھ آئے یہ فاروق کورکماز تھے یہ طیب اردگان کے قابل اعتماد ساتھیوں میں سے تھے اور دو بار ان کے مشیر بھی رہ چکے تھے ۔ فاروق کورکماز سے طویل نشست ہوئی ،علاقائی صورتحال پاکستان اور ترکی کی قربت کی راہ میں حائل رکاوٹیں ، سیر و سیاحت اور بھارت کا بڑھتا ہوا اثرو نفوذ، مجھے کورکماز صاحب کے مطالعے نے خاصا متاثر کیا اور جب انہوں نے اردو میں گفتگو شروع کی تو میری حیرت دیدنی تھی۔ برادر ندیم نے میری حیرت سے محظوظ ہوتے ہوئے بتایا کہ یہ دراصل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا رنگ ہے۔ یہ اسلامی یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے ہیں انہوں نے اردو وہیں ہی سیکھی۔ فاروق کورکماز نے کہا کہ وہ اسلامی یونیورسٹی میں گزرے دن بھول سکتے ہیں اور نہ ہی وہاں کے چائے پراٹھا۔ انہوں نے گفتگو کے دوران ایک موقع پر جذباتی انداز میں کہا کہ میں ترک ہوں لیکن میری رگ کاٹیں تو لہو پاکستان کا نکلے گا۔ اسلامی یونیورسٹی سے میرا دوسرا تعارف ترکی ہی میں مسلم دنیا کی سب سے بڑی ترکی کی نیوز ایجنسی انادولو کے انطالیہ میں واقع ہیڈ آفس میں ہو،ا یہاں عربی سیکشن کے انچارج عمر توکات اردو بولتے ملے انہوں نے رات اپنے گھر کھانے کا اہتمام کیا جہاں اس وقت کے محکمہ اوقاف میں اعلیٰ عہدے پر فائز محمت سواش سے بھی ملاقات ہوئی گورے چٹے محمت یعنی محمد سواش کسی پشتون کے سے لہجے میں اردو بول لیتے تھے ان سے اردو ہی میں باتیں ہوتی رہیں یہ بھی اسلامی یونیورسٹی کے فاضل تھے۔ استنبول ترکی میں چار دہائیوں سے سکونت اختیار کئے ہوئے ڈاکٹر ندیم ترکی میں پاکستان کے غیر سرکاری سفیر ہیں۔ یہ ملاقاتیں ڈاکٹر صاحب ہی کے طفیل ہوئی تھیں میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ جب سیکولر قوتوں نے ترکی میں اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈالا اور ترکی کے کالج یونیورسٹیاں لبرل اور مذہب بیزار نسل سوسائٹی میں اگلنے لگیں تو ایسے میں ترک نوجوان نسل کے لئے نجم الدین اربکان نے شام،مصر،ملائیشیا اور پاکستان کا انتخاب یہ سوچ کر کیا کہ ان اسلامی ممالک میں بہرحال اسلامی اقدار ہیں۔ یہاں کے اسلامی ماحول میں ترک نسل کو اعلیٰ تعلیم کے وہ مواقع ملنے چاہیئں جو ترکی میں ممکن نہ تھے ۔انہوں نے دائیں بازو کے مذہب پسندوں کو راغب کیا کہ وہ ان ممالک میں اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے بھیجیں اور الحاد سے بچائیں ،جس پر ترک طلباء نے پاکستان کا رخ کیا اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ان کی پہلی ترجیح ہوا کرتی تھی، وہ یہاں سے ڈگری ہی نہیں پاکستان کی محبت اور خوشگوار یادیں لے کر واپس جاتے یہ سب اس وقت ترکی کومضبوط بنانے میں مصروف ہیں ۔شائد کم لوگ جانتے ہوں کہ اس وقت ترکی میں پاکستان کی جامعات سے فارغ التحصیل طلبہ کی ایک فعال تنظیم بھی موجود ہے جس میں 200 سے زائد ارکان ہیں اس تنظیم کا سالانہ فنکشن ہوتا ہے پروگرام ہوتے ہیں یہ ملتے ملاتے ہیں محفل سجاتے ہیں جس میں زمانہ طالب علمی کی باتیں ہوتی ہیں کوئی مارگلہ کے سرسبز پہاڑوں کے دامن میں بنے کویت ہاسٹل کے شب و روز کے قصے چھیڑتا ہے اور کوئی پاکستانیوں کی میزبانیوں کی کہانیاں سناتا ہے اسلامی یونیورسٹی کے درودیوار، درختوں میدانوں ،کوریڈروز سے ان کی یادیں وابستہ ہیں،ان سب کے لئے اسلامی یونیورسٹی کسی مقدس عمارت سے کم نہیں ۔یہ سب اس کے احسان مند ہیں اور اس کا ذکر کرتے ہوئے جذباتی ہوجاتے ہیں۔ محمت سواش،عمر فاروق کورکماز،فاروق توکات،محمت اوزترک اور ان جیسے 200 ہیرے اسلامی یونیورسٹی کے تراشے ہوئے ہیں میری آنکھوں میں ان چاروں کی ایک ایک کر کے تصویر پھر رہی ہے۔ انادولو کے فاروق توکات سے اب بھی گاہے بگاہے رابطہ رہتا ہے جس سے مجھے خوشی ہوتی ہے لیکن میں دعا کررہا ہوں کہ اب وہ مجھے کال نہ کرے ۔ میں اسے کیسے کہوں کہ ہاں اب پہلے والی اسلامی یونیورسٹی نہیں ہے ۔اس میں ڈیڑھ سال قبل ایک طالب علم طفیل الرحمٰن مخالف طلبہ تنظیموں کے شدت پسندی کی بھینٹ چڑھ چکا ہے، اسے یونیورسٹی میں منعقدہ ایک پروگرام میں نشانہ بنایا گیا۔ اس یونیورسٹی میں ایسے واقعات بھی ہوئے جن کا تذکرہ یہاں مناسب نہیں ۔جو اساتذہ اس میں اصلاحی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ان کی بھی نہیں سنی جارہی ۔ ایوان صدر سے اسلامی یونیورسٹی کا راستہ بمشکل 16 کلومیٹر ہے ، باتیں اب یونیورسٹی کے درودیوار سے نکل کر باہر آرہی ہیں۔ ارباب اقتدار کی خامشی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ جامعات علم کا گہوارہ ہوتی ہیں ،ان کی علمی سرگرمیاں کسی طور بھی متاثر نہیں ہونی چاہیئں، اسلامی یونیورسٹی ملک کا انتہائی اور اعلیٰ معتبر علمی ادارہ ہے ،لہذا اس کی ماضی کی ساکھ کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے اس میں ہونے والی سرگرمیوں پر اس کے ذمہ داران کڑی نظر رکھیں تاکہ یہاں آنے والے نئے طالب علموں کو بہترین علمی اور مفید غیر نصابی ماحول فراہم ہو سکے۔ ٭٭٭٭٭