مغربی دنیا میں اسلام دشمنی اور مسلمانوں سے دوری کو ’’اسلامو فوبیا‘‘ (Islamo phobia) کے نام سے، باقاعدہ ایک اصطلاح کے طور پر پہچانا جانے لگا ہے۔ ’’فوبیا‘‘ بنیادی طور پر ایک مرض ہے، جس میں بعض مخصوص اور اجنبی چیزوں سے انجانا ڈر اور خوف محسوس ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے، اہل مغرب گزشتہ چند دہائیوں سے اسلام اور مسلمانوں کے متعلق اس میں مبتلا ہیں، جس کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام ایک متعصب دین ہے، جس کا رویہ غیر مسلموں کے ساتھ انتہا پسندانہ اور متشددانہ ہے۔ مسلمان ہر اس چیز کو رد کردیتے ہیں جو اسلام کے خلاف ہو …اور یہ کہ اسلام اور مسلمان روادارانہ فلاحی معاشرے کے بنیادی عناصر… جیسے مساوات'' ''Eguality، متحمل مزاجی'' ''Tolerance، انسانیحقوق "Human Rights" اور جمہوریت جیسے تصورات سے نابلد ہیں۔ امریکہ میں روپذیر ہونے والے 11 ستمبر 2001ء کے حادثات کے بعد اس ’’فوبیا‘‘ نے زیادہ شدت اختیار کرلی، جس کا اظہار اہل مغرب کے لٹریچر اور ذرائع ابلاغ اور پھر ان کے رویوں اور پالیسیوں میں بھی ہونے لگا۔ جیسے قرآن مجید کے ساتھ توہین آمیز رویہ جس کا عملی مظاہرہ گوانتا ناموبے اور ابو غریب جیل میں کیا گیا۔ پیغمبر آخرالزمان ؐ کی شان اقدس میں توہین کی جسارت، جس کا ارتکاب ڈنمارک کے بعض اخبارات نے کیا۔ اسی طرح اسلامی شعائر سے امتیازی اور غیر منصفانہ سلوک جیسے جرمنی میں مروہ شربینی کا نقاب پہننے کی وجہ سے عدالت کے اندر قتل جیسے واقعات دنیا کے سامنے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس خوف اور نفرت "Phobia" نے اب زیادہ شدت اختیار کرلی ہے۔ جس کا خطرناک ترین مظاہرہ دودن پہلے کرائسٹ چرچ میں ہونے والے واقعات میں ہوا ،جس کا اظہار وزیراعظم پاکستان نے بھی اپنے حالیہ ٹویٹر بیان میں کیا ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ ان بڑھتے ہوئے حملوں کے پیچھے نائن الیون کے بعد تیزی سے پھیلنے والا ’’ اسلاموفوبیا‘‘ کار فرما ہے ،جس کے تحت دہشت گردی کی ہر واردات کی ذمہ داری مجموعی طور پر اسلام اور سوا ارب مسلمانوں کے سر تھونپنے کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ کرائسٹ چرچ میں مسجد پر حملہ، ہمارے اس موقف کی تصدیق کرتا ہے جسے ہم مسلسل دہراتے آئے ہیں کہ ’’دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔‘‘ دنیا کے پرامن ترین ملک نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کے ڈینز ایونیو کی’’ النور مسجد‘‘ جس کی خون آشام دوپہر نے انسانیت کو رلا دیا۔ ’’چلو اس پارٹی کی ابتدا کرتے ہیں‘‘ کے سلوگن کے ساتھ آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے اس انتہا پسند دہشت گرد نے جمعۃ المبارک کی ادائیگی کے لئے آئے ہوئے معصوم اور نہتے نمازیوں پر مشین گن سے فائرنگ کر کے ،دہشت، وحشت اور بربریت کا بازار گرم کردیا۔ النور مسجد میں بہیمیت اور درندگی پھیلانے کے بعد لین وڈ کی مسجد کو بھی اپنے تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ کم و بیش 17 منٹ تک ،اپنے مکروہ عزائم میں سرگرم عمل رہنے والے برنٹن ٹیرنٹ معروف برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے جس کی تصویر کے نیچے Monster یعنی درندے کا عنوان کھینچا ہے ،جوکہ موزوں بھی ہے اور برمحل بھی، کے راستے میں پولیس سمیت کسی ایجنسی کا کوئی اہلکار مزاحم نہ ہو سکا، جبکہ ترقی یافتہ ان ممالک میں تو پولیس ایسے واقعات کا چند لمحوں میں فوری ’’نوٹس‘‘ لیتی ہے۔ اس انتہا پسند اور دہشت گرد کے جدید اسلحہ، مشین گن اور میگزینوں پر Wienna? ?، 1683ء سمیت مختلف تحریریں درج ہیں، جس کا مفہوم یہ ہے کہ دہشت گرد، مسلمانوں سے شدید نفرت کرتا اور اپنے اس عمل کے ذریعے، اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہا ہے۔ وہ محض مذہبی جنونی یا کوئی ذہنی مریض نہیں بلکہ مختلف تاریخی واقعات کا ادراک اور شعور بھی اپنے ذہن میں رکھتا ہے۔ جیسے Wienna اور 1683ء کا اشارہ اس واقعہ کی طرف ہے جب عثمانی فوج نے قرۃ مصطفی پاشا کی قیادت میں ویانا کا محاصرہ کیا اور ستر ہزار صلیبی فوجیں ویانا پہنچی تھیں۔ یہ عثمانیوں اور صلیبیوں کے درمیان فیصلہ کن معرکہ تھا۔ یہی آسٹریلوی درندہ صفت دہشت گرد عدالت میں پیشی کے موقع پر ہتھکڑی کے باوجود اپنے ہاتھوں سے سفید فام نسل پرستی اور برتری کا نشان بناتا رہا۔ اس دہشت گرد کا امریکی صدر ٹرمپ کو اپنا ہیرو قرار دینا، پوری مغربی دنیا کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ دہشت گردی اور انسانیت سوزی کا ناطہ اسلام اور مسلمانوں سے جوڑنے والی عالمی قوتیں اور بین الاقوامی لیڈر شپ کے لیے اس سفید فام برنٹن ٹیرنٹ کی سفاکانہ دہشت گردی ان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ بلاشبہ اسلام امن، محبت، رواداری اور انسان دوستی کا دین ہے۔ وہ ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے لیکن عالم مغرب … دہشت گردی اور انتہا پسندی کے نام پر مسلمانوں کو بے جا دبائو میں رکھے ہوئے ہے، اور انہی کو امن کی تلقین کرتا چلا آ رہا ہے، جن کے زخم بھی بڑھ رہے ہیں، اور خون بھی مسلسل بہہ رہا ہے۔ مغرب نے اپنے بے سروپا تصورات کی بنیاد پر اسلام دشمنی اور مسلم نفرت انگیزی کی جو فصل بوئی وہ اب پوری طرح پکنے کو ہے۔ ان کے دانشوروں اور ادیبوں نے ’’اسلاموفوبیا‘‘ کی جس طرح تشہیر کی۔ اس کے اثرات اب واضح ہونے کو ہیں۔ ہٹنگن نے "Clash of Civilization" میں اسلام کو، کمیونزم کے خاتمے کے بعد مغربی تہذیب کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا۔ حتیٰ کہ مغربی ادیب اپنے بچوں کے لیے جو ادب تحریر اور تخلیق کر رہے ہیں۔ اس میں بھی’’ اسلام دشمنی‘‘ ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ کرسٹوفر ککر نے بچوں کے لیے جو کتاب لکھی ہے اس میں "Islamic Terrorism" کے نام سے خصوصی چیپڑ شامل ہے۔ اس کے علاوہ بے شمار لٹریچر، کتابچے، ویب سائٹس، تصاویر اور پبلیکیشنز اس وقت دستیاب ہیں جس کی بنیاد صرف اور صرف ’’اسلامو فوبیا‘‘ ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان کی یہ بات یقینا معتبر بھی ہے اور لائق توجہ بھی… کہ اسلام کے خلاف بے بنیاد الزام تراشیاں جاری رہیں اور دنیا خاموشی سے دیکھتی رہی، نتیجہ یہ ہے کہ آج مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی سوچ مغرب کو کینسر کی طرح کھا رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ نائن الیون کے بعد مغربی پالیسی سازوں نے اپنے اقدامات کو اس واقعہ کے ذمہ داروں تک محدود رکھنے کی بجائے، اس کی بنیاد پر پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ اسلام از خود دہشت گردی کا علمبردار اور مسلمان بحیثیت مجموعی دہشت گرد ہیں۔ بہرحال اس دلخراش واقعہ نے پوری عالمی برادری کو سوچنے اور سرجوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کردیا ہے، اگر تشدد، انتہا پسندی اور منافرت کے ایسے رجحانات کی بیخ کنی نہ کی گئی تو پھر اس کرۂ ارض کو فساد اور انتشار سے بچانا ممکن نہ ہوگا۔ اس موقع پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کی ہمت اور حوصلہ بھی لائق تحسین ہے کہ جس نے اس واقعہ کو کھلی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اسے ملکی تاریخ کا سیاہ ترین باب قرار دیا ہے، اس نے کہا کہ مرنے والے کہیں سے آئے، وہ ہمارے اپنے ہیں، مارنے والے ہمارے نہیں، اور نہ ہی ان کے لیے یہاں کوئی جگہ ہے۔