جمہوری معاشرے اور جمہوری سیاست کا چلن ہے کہ یہ انسانوں کو گروہوں میں تقسیم کرتی ہے، ان کے درمیان مقابلے اور مسابقت کی ایسی کیفیت کو جنم دیتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اگر آپ ایک گروہ یا سیاسی پارٹی کو چھوڑ کر بے شک دلیل اور سچائی کی بنیاد پر ہی دوسری پارٹی میں شامل ہوں، آپکو عرف عام میں ’’لوٹا‘‘ اور انگریز معاشرہ جہاں جمہوریت پروان چڑھی، وہاں ’’Turncoat‘‘ یعنی اصول بدلنے والا، زمانہ ساز یا غدار وغیرہ کہا جاتا ہے۔ آپ اگر ایک پارٹی میں کسی بھی وجہ سے شامل ہوگئے تو خواہ آپ کے نظریات بھی بدل جائیں، آپ بدنامی کے خوف سے پارٹی نہیں چھوڑ تے۔ فلاں لیبر پارٹی سے ہے تو فلاں کنزرویٹو پارٹی کا سر گرم کارکن۔ برطانیہ کی تاریخ میں صرف ونسٹن چرچل کی ایک مثال ملتی ہے کہ اس نے پرانی پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ یہ بھی اس لئے ممکن ہو سکا کہ جنگ عظیم دوئم کے ہنگاموں میں کسی کو پتہ نہ چل سکا، لیکن جنگ کے فورا بعد ہونے والے الیکشنوں میں برطانوی قوم نے اس کو یہ سزا دی کہ وہ بری طرح ہار گیا۔ منقسم اور بٹا ہوا معاشرہ جمہوریت کی معراج ہے اور جمہوریت کے ’’مذہب‘‘ میں سیاسی پارٹیاں اور ان سے وفاداری اس مذہب کی ’’شریعت‘‘ کا جزو لاینفک ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں غیر جماعتی انتخابات نہیں ہوتے کہ لوگ ایک انسان کو اس کی صلاحیتوں اور کردار کی بنیاد پر منتخب کریں، بلکہ پارٹی کی عصبیت کی بنیاد پر ووٹ دینے جاتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں ’’مذہب جمہوریت‘‘ کے وہ فقہی گروہ ہیں جن میں نظریاتی اساس یعنی جمہوریت، عوام کی حکمرانی، الیکشن، رائے عامہ وغیرہ پر اختلاف نہیں ہوسکتا لیکن ’’فروعی‘‘ معاملات پر اختلاف کیا جا سکتا ہے جیسے معیشت کے اصول، تجارت، تعلیمی پالیسی وغیرہ وغیرہ۔ سیاسی پارٹیاں اس لئے بنائی جاتی ہیں کہ وہ طاقتیں جو اقتدار پر اصلاًقابض ہیں ان کے لیے سیاستدانوں سے معاملہ کرنا آسان ہو جائے۔ پارٹی فنڈنگ ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے دنیا بھر میں پھیلے سودی نظام کے کارپوریٹ نمائندے، پارٹیوں پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرتے ہیں اور ان کی حکومتی پالیسیوں پر نہ صرف اثرانداز ہوتے ہیں بلکہ تحریر کرتے ہیں اور بزور نافذ کرواتے ہیں۔ اسلام کسی طور پر ایک منقسم اور گروہوں میں بٹے ہوئے معاشرے کا نقشہ پیش نہیں کرتا۔ اسلامی معاشرے کا نمونہ جسے گذشتہ چودہ سو سال سے ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے وہ خلفائے راشدین کا زمانہ ہے۔ آج بھی جمعہ کے خطبوں میں رسول اکرم ﷺکی یہ حدیث پڑھی جاتی ہے کہ ’’تم پر واجب ہے میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت‘‘۔ اس معاشرے کی معراج یہ ہے کہ سیدنا عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ’’عمر ہلاک ہو جاتا اگر آج علیؓ موجود نہ ہوتے‘‘۔ اسلامی تاریخ میں سب سے متنازعہ واقعہ سقیفہ بنو سعد کا ہے جب سید الانبیائﷺکے وصال کے بعد صحابہ کرامؓ، خلافت کے انعقاد کے لیے جمع ہوئے تھے۔ بے شمار روایات ملتی ہیں کہ جن میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے سیدنا علیؓ کو اس بات کا رنج تھا کہ انہیں سیدنا ابوبکر ؓ کی خلافت منعقد کرتے وقت مشورے میں شامل نہیں کیا تھا۔ اگر کوئی جمہوری معاشرہ ہوتا تو سیدنا علی ؓ اپنا ایک علیحدہ گروہ بنا لیتے، اس کی قیادت کرتے، حکومت سے الگ تھلگ بیٹھ جاتے اور کہتے کہ میں دیکھوں گا کہ یہ کیسے کامیاب ہوتے ہیں۔ لیکن اسلامی معاشرے کی معراج یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر ؓسے لے کر سیدنا علی ؓتک بیشمار اختلاف کے باوجود صحابہ کرامؓ نیکی کے کاموں میں تعاون کرتے، مشورے دیتے، ساتھ دیتے اور برائی کو روکنے کے لیے خلیفہ کے ساتھ تلوار بھی اٹھاتے۔ جمہوریت پرست علما جمہوریت کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دیتے ہیں کہ جب سیدنا عمرؓ نے اپنے بعد خلیفہ بنانے کے لیے خلافت کے لئے چھ رکنی کمیٹی بنائی تھی، سب لوگوں نے معذرت کر لی، آخرکار سیدنا عثمان ؓ اور سیدنا علیؓ باقی رہ گئے تھے۔ ایسے میں حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓنے مدینے کی گلیوں میں جا کر لوگوں سے دریافت کیا تھا کہ کس کو خلیفہ بنایا جائے تو لوگوں نے حضرت عثمان ؓکے حق میں زیادہ رائے دی تھی، یہاں سے جمہوریت نکالی جاتی ہے۔ لیکن اسلامی معاشرے کی حسن و خوبی یہ دیکھیے کہ حضرت عثمان ؓ کی خلافت کے دوران سیدنا علی ؓان کے ہم رکاب رہے۔ ساتھ دینے کی حالت یہ ہے کہ جب مصر، کوفہ اور بصرہ کے بلوائی حضرت عثمان ؓ کے خلاف الزامات کی فہرست لے کر مدینہ آئے، تو انہوں نے وہاں آکر ایک پارٹی بنا لی جس نے حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے شدت سے جھڑک دیا۔ حضرت علی ؓ کے ساتھ ان کا مباحثہ تو تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے کہ آپ نے بلوائیوں کے ایک ایک الزام کا جواب دے کر حضرت عثمان ؓ کی پوزیشن صاف کی۔ اسی کشمکش کے دوران، جمہوری معاشرے سے بالکل مختلف، ایک اسلامی معاشرے کا خوبصورت منظر ہے۔ جب بلوائیوں نے حضرت عثمان ؓ کے گھر کو گھیرے میں لے لیا تو سیدنا علی ؓ نے اس گھر کے پہرے کے لیے جوانان جنت کے سردار اپنے بیٹوں سیدنا حسن ؓ اور سیدنا حسین ؓ کو مامور کر دیا۔ کیا آج کے جمہوری معاشرے میں جمہوریت کو اپنی اساس سمجھنے والے مولانا فضل الرحمن یا سراج الحق صاحب کیا اپنے مخالف وزیراعظم کے اوپر لگنے والے الزامات کا جواب سیدنا علی ؓکی طرح دیں گے یا اگر وزیراعظم ہاؤس کے گرد دھرنا ہو جائے تو اپنے بیٹے نہیں بلکہ اپنی جماعت کے کارکنان کو حکم دیں گے کہ وہ اس وزیراعظم کا دفاع کریں۔ جمہوری معاشرے اور سیاست میں ہم سب خواہ کوئی مغربی تعلیمی نظام کا پڑھا ہوا ہو یا مدرسے کی چٹائیوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے والا، سب اس تاک میں ہوتے ہیں کہ کب حکمران کی کوئی کمزوری ان کے ہاتھ آتی ہے، تاکہ وہ اسے ذلیل کرے۔ وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ یہ ناکام ہوجائے تاکہ اگلے الیکشن میں وہ کامیاب ہو جائیں۔ پاکستان کی پوری جمہوری تاریخ میں اسلامی روایات پر عملدرآمد کی صرف دو مثالیں ملتی ہیں اور آپ حیران ہوں گے کہ اللہ نے دونوں دفعہ اس ملک کے علمائے کرام کو نصرت اور کامیابی سے نوازا۔ پہلی دفعہ جس وقت قرارداد مقاصد تحریر ہونا تھی، اور یہ طے ہونا تھا کہ یہ ملک سیکولر ہوگا یا اسلامی تو تمام مسالک کے علمائے کرام، حکومت کی مدد و معاونت کے لیے اکٹھے ہوگئے تھے۔ دوسری دفعہ تو حیران کن بات یہ تھی تمام مذہبی پارٹیاں بھٹو سے الیکشن ہاری ہوئی تھیں۔ اگر یہ پارٹیاں اور ملک بھر کے علماء قومی اسمبلی میں قادیانی مسئلہ کے معاملے میں اکٹھے نہ ہوتے، بھٹو اور پارلیمنٹ کے اراکین کی راہنمائی نہ کرتے تو کیا قادیانیوں کو اقلیت قرار دیے جانے کی ترمیم کا پاس ہوجاتی۔شاید کبھی بھی نہیں۔ اللہ نے پاکستان کی جمہوری سیاست میں بھی دین کو نصرت اس وقت دی جب ہمارے علماء نے جمہوری معاشرے کی روایات کو ترک کرکے اسلامی معاشرے کی روایت کو اپنایا۔ میں سراج الحق صاحب کی مجلس عاملہ کے بعد کی پریس کانفرنس سن رہا تھا، جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ ہم انتظار کریں گے کہ عمران خان ریاست مدینہ کیسے قائم کرتا ہے۔ ریاست مدینہ عمران خان کا نہیں ہم سب کا خواب ہے اور اس ریاست کے معاملے میں شاید عمران خان سب سے کم علم ہے، مبتدی ہے، وہ اگر اس ریاست مدینہ کے قیام کے سلسلے میں بھٹک گیا تو اسکا وبال جاننے والوں اور اہل علم پر بھی آئے گا جو انتظار کرتے رہے تھے کہ کب یہ ناکام ہو اور ہماری سیاست کی بن آئے۔ مشورہ دینے کے ہزار طریقے ہیں۔ دنیا میں لاکھوں تھنک ٹینک حکومتوں کو پورا ڈیزائن بنا کر دیتے ہیں۔ میڈیا ہے لیکن اگر کوئی مدد کرنا چاہے تو۔ مگر کیا کریں ایسا صرف اور صرف اسلامی معاشرے میں ممکن ہے۔ جمہوری سیاست اور جمہوری معاشرے میں تو مدمقابل کی ذلت، ناکامی، رسوائی ضروری ہے کہ وہ ناکام ہوگا تو ہمارا راستہ صاف ہو گا۔ کاش ہم جمہوریت کے ’’سابقون الاولون‘‘ کی بجائے اسلام کے ’’سابقون الاولون‘‘ کی روش اختیار کرتے۔