جدید سیکولر جمہوری تہذیب اور سودی معیشت کے بدترین اثرات جس طرح اسلامی طرز معاشرت پر مرتب ہوئے ہیں، اس نے مسلمانوں کی طرز زندگی‘تصور کائنات اور اصول تہذیب و ثقافت یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ سب کچھ اس قدر صفائی سے جدید مسلمان مفکرین کی مدد سے ہوا ہے کہ ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہو پاتا۔ آج ہمارے تمام مصلحین‘ مفکرین‘ یہاں تک کہ اسلامی نظام کے داعی اور علمبردار بھی وہی اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں جو مغرب کی تہذیب اور اسلامی تصورات کو جوڑ کر بنائی گئیں۔ کیا کسی نے گزشتہ نصب صدی سے ہمارے مذہبی سکالرز یا جدید اسلامی مفکرین کو اللہ کی عطا کردہ اصطلاح’’حقوق العباد‘‘ استعمال کرتے دیکھا ہے۔ ہر کوئی اسلام میں انسانی حقوق کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ جدید مغربی تہذیب کے ہر تصور کو اسلام کا سابقہ یا لاحقہ لگا کر اسے جس طرح مسلمان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس کا تصور بھی کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں میں نہیں ملتا۔ اسلامی جمہوریت ‘ اسلامی آرٹ ،اسلامی فن تعمیر، اسلامی کلچر‘ یہاں تک کہ اسلامی موسیقی اور اسلامی فلمسازی جیسی بے جوڑ اصطلاحیں نہ صرف استعمال ہوئیں بلکہ ان پر ہزاروں کتابیں لکھی گئیں۔ مغربی تہذیب چونکہ تحریک احیائے علوم (Renaissance)کے بیج سے پھوٹی ہے۔ اسی لئے اس کے ابتدائی خدوخال میں آرٹ‘ موسیقی‘ فن تعمیرات‘ مصوری اور قدیم فلسفے کی ازسر نو تشکیل شامل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو دنیا کی ہر لائبریری میں اسلامی آرٹ‘ اسلامی موسیقی اور اسلامی مصوری پر ہزاروں رنگا رنگ کتابیں ملیں گی۔ اسی طرح دنیا کے ہر بڑے عجائب گھر میں اسلامی گیلری کے نام پر آپ کو ایک بہت بڑا حصہ مختص ملے گا۔ مغربی تہذیب کے یہی بدترین اثرات ہیں کہ ہماری طرز حکومت و سیاست اور ہماری معیشت بھی اسی طرح کی پیوندکاری (lybrid)والی اصطلاحات سے سجائی ‘سنواری جا چکی ہے۔ بلکہ معاملہ یہاں تک آ پہنچا ہے کہ دنیا بھر میں اسلام کے نام پر سیاست کرنے والے افراد بھی مخصوص مفادات اور مصلحت کے تحت اسلامی اصطلاحات استعمال کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ مثلاً کوئی اپنے ملک کے سربراہ کے لئے امیر المومنین ‘ کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا بلکہ جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لئے صدر اور وزیر اعظم کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے یہاں تک کہ گزشتہ پچاس برسوں میں آنے والے ایرانی انقلاب میں بھی حکومت کا جو نقشہ سامنے آیا، اس میں بھی مغرب کے تصور جمہوریت سے مماثلت کے لئے صدر ‘ وزیر اعظم‘ پارلیمنٹ اور الیکشنوں کی اصطلاحیں استعمال ہوئیں اور ان کی روح کے مطابق ان پر عملدرآمد بھی ہوا۔ نظام معیشت پر سب سے کاری ضرب لگائی گئی اور سودی معیشت کو مکمل طور پر اسلامی غلاف اوڑھانے اور اس کے تعفن اور سرانڈ کو اسلامی بینکاری کی اگربتیوں سے کم کرنے کی کوشش بھی پچاس سے جاری ہے اور آج ایسے بنکوں کی ہزاروں عمارتیں آپ کو نظر آئیں گی جن میں تمام کاروبار بالکل ویسا ہی ہو رہا ہوتا ہے جیسا دنیا کے کسی بھی سودی بینک میں ہوتا ہے لیکن اس کے باہر اسلامی بینک کی تختی سجا دی گئی ہوتی ہے۔مگر جدید مغربی تہذیب و معیشت نے جس طرح اسلام کے تصور صدقات و خیرات کو متاثر کیا ہے اور اس کی اصل روح کو بدلا ہے اس نے ہماری معاشرت پر بھی بے پناہ تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں۔ مغرب اور اسلام کی تہذیبوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مغربی سودی جمہوری تہذیب فرد(indvidual)کے گرد گھومتی ہے اور اس کی فلاح و بہتری کے لئے سرگرم عمل ہوتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اسلام فرد کے تمام معاشرتی اداروں کے ساتھ تعلق کو اپنے ہر عمل کی اساس تصور کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تصور ’’انسانی حقوق‘‘ میں فرد کا حق اگر اسی طرح پورا ہوتا ہے کہ پانچ لاکھ بوڑھے اگر ایسے اولڈ ایج ہوم میں رہ رہے ہوں جہاں پر سہولت میسر ہو تو وہ ملک دنیا کا بہترین ملک تصور ہو گا۔ جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان پانچ لاکھ گھرانوں پر لعنت بھیجتا ہے جہاں سے وہ بوڑھے زبردستی اولڈ ایج ہومز میں دھکیل دیے گئے ۔ اصل وجہ یہ ہے کہ اسلام فرد کے رشتے اور تعلق کے حوالے سے حقوق کا تعین کرتا ہے۔ باپ کا حق‘ ماں کا حق‘ بیٹے‘ بیٹی‘ بھائی‘ بہن‘ رشتے دار ‘ پڑوسی اور پھر معاشرے کے حقوق کا واضح تعین کرتا ہے۔ اسی لئے اسلام میں کسی یتیم خانے (orphanage) یا کسی بوڑھوں کی کفالت گاہ(old age home)کا تصور تک نہیں ہے۔ اسلام زکوٰۃ‘ صدقات اور خیرات کے مصارف متعین کرتے ہوئے ان کے اولین مستحقین میں قرابت داروں کو شامل کرتا ہے۔ قرابت داری ایک ایسا وسیع لفظ ہے جس میں ایک شخص کے دور دراز کے تمام رشتے دار بھی آ جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کفالت یتیم اس کے قریب ترین رشتے داروں کی ذمہ داری ہے۔ اسی لئے فرمایا میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہونگے اور آپؐ نے اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ کر کے اشارہ کیا۔(صحیح بخاری) قرابت داروں کے بعد یتیم کی دیکھ بھال کی اہمیت اس لئے بتائی گئی ہے کیونکہ وہ اسلام کے تصور معاشرت کے سب سے اہم ادارے ’’خاندان‘‘ کے ٹوٹ جانے کا سب سے زیادہ شکار ہوتا ہے۔ قرآن پاک کی آیات اور احادیث کے دفتر کے دفتر یتیموں کی کفالت، ان سے حسن سلوک اور پرورش کی ترغیبات سے بھرے ہوئے ہیں۔اس حدیث کے ایک ایک لفظ پر غور کیجیے۔ روایت ہے حضرت ابو امامہؓ سے کہ فرمایا رسول اکرم ﷺ نے کہ جو کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے ‘ نہیں پھیرتا مگر اللہ کے لئے، تو ہر بال کے عوض جس پر اس کا ہاتھ پھرے نیکیاں ہوں گی اور جو اپنے پاس رہنے والے یتیم ‘ یتیمہ سے بھلائی کرے۔ جنت میں میںاور وہ ان کی طرح ہوں گے اور اپنی دونوں انگلیاں ملائیں ۔(مسند احمد ترمذی) اس حدیث میں کس قدر وضاحت کے ساتھ یہ لفظ استعمال ہوئے ہیں’’پاس رہنے والے یتیم‘‘ گویا اسلام میں وہ یتیم جو معاشرے سے الگ تھلگ کر کے ایک معاشرتی ذلت (sociad stigma)کے طور پر یتیم خانوں میں رکھے جاتے ہیں ان کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جن افراد کی قرابت داری میں سے کوئی یتیم بچہ اگر کسی یتیم خانے میں پرورش پاتا ہے تو وہ تمام صاحب حیثیت رشتے دار روز محشر اللہ کے حضور اپنے اس بدترین رویے کی وجہ سے جوابدہ ہوں گے۔ یتیم خانہ دراصل مغربی تصور خیرات (charity)کا ادارہ ہے ،جسے جدید دور کے مسلمانوں نے ایسے اپنا لیا ہے جیسے وہ ان کی تعلیمات ،معاشرت یا تہذیب کا حصہ ہو۔ (جاری ہے)