75ویں یوم پاکستان پر اسلام آباد میں مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کا انعقاد پاکستان کے ساتھ مسلم یکجہتی کا غیرمعمولی مظاہرہ ہے ۔او آئی سی دنیا کی دوسری بڑی بین الحکومتی تنظیم ہے اور عالم اسلام کی اجتماعی آواز کی نمائندگی کرتی ہے ۔گزشتہ برسوں کے دوران اس تنظیم نے عالم اسلام کے مشترکہ مفادات اور مقاصد کو فعال طور پر آگے بڑھایا ہے ۔اس نے عالمی امن و سلامتی، تہذیبوں، ثقافتوں اور مذاہب کے درمیان افہام و تفہیم اور مکالمہ کو فروغ دینے جبکہ امن، انصاف اور باہمی احترام کی باوقار اسلامی اقدار کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے ۔ اسلام آباد میں یہ اجلاس عالمی تاریخ کے ایک نازک موڑ پر ہو رہا ہے ۔1945ء میں قائم ہونے والا عالمی سلامتی اور اقتصادی نظام کا ڈھانچہ طاقت کے بار بار یکطرفہ استعمال، ایک نئی ’’سرد جنگ‘‘ ،قوموں کے درمیان اور ان کے اندر بڑھتی ہوئی عدم مساوات جو کورونا کی وبا سے شدت اختیار کر گئی، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور ٹیکنالوجی کے انقلاب کے باعث شکست و ریخت کا شکار ہے ۔اسلامی ممالک کو انتہائی احتیاط کے ساتھ ان ’’نئی حقیقتوں‘‘کا ادراک کرنا ہو گا اور اپنے انفرادی اوراجتماعی مفادات کی تکمیل کیلئے ابھرتے ہوئے عالمی نظام کو فعال طور پر تشکیل دینا ہوگا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے انہیں سب سے پہلے اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے بڑی طاقتوں کی مخاصمت میں شامل ہونے سے گریز، مسلم ممالک کے باہمی تنازعات کو حل کرنے اور غیرملکی مداخلت کو روک کر اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو فروغ دینا اور اس کا تحفظ کرنا ہوگا۔ دوسرا یہ کہ منصفانہ طور پر امن کی قوت کے طور پر، او آئی سی کو فلسطین اور کشمیر کے حق خودارادیت اور غیرملکی قبضے سے آزادی کے منصفانہ مقاصد کی حمایت جاری رکھنی چاہیے ۔اگرچہ یہ اہداف مشکل ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ تاریخ کی قوس بالآخر انصاف کی جانب جھکے گی۔ بھارت کی جموں و کشمیر کے تشخص پر ڈاکہ ڈال کر، اس کی آبادی کا تناسب بدل کر اور عوام پر وحشیانہ جبر کر کے اس مسئلے کا حتمی حل مسلط کرنے کی کوشش ناکام ہو گی۔جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و استحکام مسئلہ جموں و کشمیر کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کرنے پر منحصر ہے ۔ ہم بھارت سمیت اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں۔ نئی دہلی کو چاہیے کہ وہ پاکستان اور کشمیریوں کے ساتھ مخلصانہ اور نتیجہ خیز مذاکرات کیلئے سازگار حالات پیدا کرے ؛ مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تبدیلیوں سمیت اپنے یکطرفہ اقدامات کو واپس لے کر اور انسانی حقوق کی سنگین اور وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کو روک کر۔ چالیس سال بعد اب افغانستان اور خطے میں امن و سلامتی کی بحالی کا حقیقی موقع ہے ۔ہمیں افغانستان میں انسانی بحران اور معاشی تباہی کو روکنے کیلئے اجتماعی طور پر کام کرنا ہوگا اور انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق، سب کی شمولیت کی حوصلہ افزائی اور ملک سے دہشت گردی کے خطرے کے خاتمے کیلئے موثر حکمت عملی کی تیاری کیلئے افغان حکام کے ساتھ فعال طریقے سے کام کرنا ہوگا۔ ہمیں مسلم دنیا کو درپیش مسائل کو اہمیت دینا اور خود ان کا حل تلاش کرنا چاہیے ۔ یہ ضروری ہے کہ شام، لیبیا اور یمن کے تنازعات کو متعلقہ اسلامی ممالک کے درمیان تعاون کے ذریعے حل کیا جائے اور ان تنازعات میں غیر مسلم (ممالک کی) مداخلت کو خارج کیا جائے ۔ او آئی سی کو اپنے امن اور سلامتی کے ڈھانچے کے قیام پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے تاکہ جب بھی مسلم ممالک کے درمیان یا ان کے اور غیر مسلم ممالک یا اداروں کے درمیان تنازعات پیدا ہوں تو بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے انہیں حل کیا جائے ۔ مسلم دنیا مجموعی طور پر انسانی اور قدرتی وسائل کے اعتبار سے بہت زرخیز ہے ۔ہمیں تکمیلی خصوصیات سے فائدہ اٹھانے اور صلاحیتوں کی تعمیر کیلئے بہتر ہم آہنگی کی ضرورت ہے ۔ اقتصادی اور تجارتی میدان میں مشترکہ اسلامی اقدام زیادہ سیاسی ہم آہنگی اور یکجہتی کی جانب ایک اہم قدم ہوگا۔ کورونا کی وبا اور موسمیاتی تبدیلی نے ہمارے اقتصادی چیلنجز کو مزید بڑھا دیا ہے ۔انہوں نے او آئی سی کے درمیان ہم آہنگی کیلئے ترجیحات کو دوبارہ مرتب کرنے کے نئے مواقع بھی فراہم کئے ہیں۔اسلامی ممالک کو دیگر ترقی پذیر ممالک کے ساتھ مل کر وبا سے بحالی اور پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے مناسب وسائل کو متحرک کرنا چاہیے ۔جن میں قرضوں میں ریلیف اور تنظیم نو، 0.7فیصد سرکاری ترقیاتی امداد کے ہدف کی تکمیل، نئے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کے حقوق میں غیراستعمال شدہ 400ارب ڈالر کی ازسرنو تقسیم،کثیر الجہتی ترقیاتی بینکوں کی جانب سے بڑے قرضے ،پائیدار بنیادی ڈھانچے میں وسیع پیمانے پر سرکاری اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری اور موسمیاتی فنانس میں سالانہ 100 ارب ڈالر سے زائد سرمائے کو متحرک کرنا شامل ہو۔ ہمیں بین الاقوامی مالیات، تجارت اور ٹیکس کے ڈھانچے میں بھی منصفانہ اور مساوی سلوک کا مطالبہ کرنا چاہیے ۔ہمیں ہر سال اپنے ملکوں سے کرپشن، دھوکہ دہی، ٹیکس چوری اور ٹیکس سے بچنے کیلئے ’’محفوظ پناہ گاہوں‘‘ کی جانب جانے والے اربوں ڈالرز کے بہاؤ کو روکنا اور انہیں واپس لینا چاہیے ۔ او آئی سی ممالک کو مستقبل کی علم پر مبنی، منظم و مربوط ڈیجیٹل عالمی معیشت کیلئے خود کو تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔سائنس اور ٹیکنالوجی، تجارت، مالیات میں رجحانات کا مطالعہ کرنے اور واضح طویل مدتی حکمت عملی تجویز کرنے کیلئے او آئی سی کا ’’کمیشن برائے مستقبل‘‘ قائم کیا جانا چاہیے ۔ ہمیں مشرق و مغرب اور تمام ملکوں اور گروپوں کے ساتھ اقتصادی تعاون کو فروغ دینا چاہیے ۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اسلامی ترقیاتی بینک اور او آئی سی کے دیگر اداروں سے استفادہ کرتے ہوئے اسلامی ممالک کے درمیان اقتصادی تکمیلات کا فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ایک خصوصی ماہر ٹاسک فورس او آئی سی کے رکن ممالک کے درمیان اقتصادی، مالیاتی، تجارتی اور ٹیکنالوجی تعاون کا منصوبہ تیار کر سکتی ہے ۔ آخر میں، ہمیں اپنے عقیدے اسلام کیلئے عالمی احترام کو فروغ اور ہر جگہ ہر مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے ۔ہمیں اسلام، اپنی مقدس کتاب قرآن یا ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کی توہین یا تضحیک پر بھرپور اعتراض کرنا چاہیے ۔ اسلاموفوبیا کا بدترین مظہر بھارت کو خصوصی طور پر ایک ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کی سرکاری طور پر منظور شدہ مہم ہے ۔ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا خطرہ ہے ۔ مجھے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے پاکستان کی او آئی سی ممالک کیساتھ تجویز کردہ قرارداد کی اتفاق رائے سے منظوری سے خوشی ہوئی ہے ، جس کے تحت 15 مارچ کو اسلاموفوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ہم تمام مذاہب اور عقائد کے درمیان پل تعمیر اور احترام کو فروغ دیں گے اور پرامن بقائے باہمی اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے تہذیبوں کے درمیان عالمی مکالمے کو آگے بڑھائیں گے ۔ پاکستان ہمیشہ اسلام کا قلعہ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کا محافظ رہے گا۔مجھے امید ہے کہ پاکستان کو ایک جدید، جمہوری اور اسلامی فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کے ہمارے بانی کے وژن کی تکمیل ہوگی، جو ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کے ارشادات پر عمل پیرا ہو، جیسا کہ ریاست مدینہ میں رائج تھا۔