ملائیشیا میں کوالا لمپور سے تھوڑے فاصلے پر ایک خوبصورت ٹائون میں ایک CASINO ہے جس کا نام GENTING GRANDE ہے ۔ کیسینو کیا ہوتا ہے ، یہ تو اکثر احباب کو پتہ ہوگا۔ اِس کا دیسی نام ہے جوا خانہ۔ قسمت کے بیوپاریوں کا کلب ۔۔۔۔ جواریوں کی دلپسند جگہ ۔ کہیں آپ کے ذہن میں کوئی پاکستانی جوا خانہ تو نہیں آگیا؟ نہ جی نہ ۔ یہ تو گویا ایک فائیو سٹار جوا خانہ ہے۔ دُنیا کے تمام عظیم جواری اِس عالی شان کیسینو میں حاضری دینا باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ بدقسمتی سے کئی سال تک اِس کیسینو میںپاکستان کی نمائندگی نہیں تھی۔ معاف کیجئے گا بات دوسری طرف نکل گئی۔ بات ہو رہی تھی گینٹنگ گران کیسینو کی جس میں ایک معروف پاکستانی سیاستدان کی دبنگ انٹری نے وہاں بیٹھے ہوئے انٹر نیشنل جواریوں پر دہشت طاری کر دی ۔ وہاں کا ماحول موصوف کو اِسقدر پسند آیا کہ وہاں آنا جانا انھوں نے اپنا معمول بنا لیا۔ میں یہ عرض کرتا چلوں کہ اِس جوئے خانے کی انتظامیہ ہر سال کے آخر میں یعنی 31 دسمبر کی رات بیٹھ کر یہ حساب کتاب کرتی ہے کہ اِس سال کس جواری نے سب سے زیادہ جُوا کھیلا اور پھر اُس عظیم جواری کا نام وہاں لگے ایک بورڈ پر لکھ دیا جاتا ہے جیسا کہ اکثر سکولوں میں ایک بورڈ ہوتا ہے جس پر ہر سال اوّل آنے والے طالب علم کا نام لکھا جاتا ہے۔ سن 2010 ء کے لگ بھگ پاکستان کے ایک اعلیٰ سرکاری افسر ٹریننگ کے سلسلے میں ملائیشیا گئے۔ رہائش کے لئے انھیں کوالا لمپور میں ہی ایک فلیٹ مل گیا۔ وہاں انھوں نے اِس جوئے خانے کی شہرت سُنی تو ایک روز وہاں جا پہنچے ۔ وہاں کے منتظمین نے پاکستان کے اعلیٰ سرکاری افسر کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور پُر تکلف چائے پلائی۔ چائے سے فارغ ہو کر انھیں عمارت کے مختلف حصّے دکھائے گئے۔ "اِس کمرے میں جواری صاحبان جوا کھیلتے ہیں۔ یہ کمرہ یہاں کا بار روم ہے۔ جہاں جواری صاحبان دُنیا کی بہترین DRINKS سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ کمرہ ان معزز جواریوں کے غُل غپاڑے کے لیے وقف ہے۔ یہاں ملائشیا کی خوبصورت لڑکیاں جواریوں کی مٹھّی چاپی کرتی ہیں۔ سامنے بنک ہے جہاں اِن جواریوں کے کروڑوں روپے اِدھر اُدھر ہوتے رہتے ہیں۔ یہ سامنے دیوار پر جو بورڈ ہے اِس پر اُن جواریوں کے اسمائے گرامی لکھے جاتے ہیں جو ہر سال سب سے زیادہ جوا کھیلتے ہیں۔ " یہ سُن کر وُہ پاکستانی اعلیٰ سرکاری افسر نام پڑھنے میں لگ گئے۔ اچانک اُنکی نظر پاکستان کے ایک مشہور سیاستدان کے نام پر پڑی۔یہ نام پڑھ کر اُس اعلیٰ سرکاری افسر کا سر شرم سے جھک گیا اور وُہ جلدی سے آگے بڑھ گئے۔ قارئین ! سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا۔ پھر کیا بات ہے کہ یہاں ایسے ایسے لوگ بر سرِ اقتدار آتے رہے جن کا شمار دُنیا کے بد ترین ۔افراد میں ہوتا ہے؟ انٹرنیشنل جواری، منی لانڈرنگ کے ماہر ، کرپشن کے بادشاہ، اوّل نمبر کے جھوٹے ، مکّار اور ظالم، عوام دشمن ، بدکردار، ملک اور عوام دشمن، غریبوں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے والے، غرض ہر اخلاقی بُرائی کے شکار۔ کیا یہ مملکت خداداد پاکستان ان لوگوں کی حکمرانی کے لئے وجود میں آئی تھی؟ کیا یہاں ایماندار افراد کی کمی ہے؟ مسندِ اقتدار پر ہمیشہ چھٹے ہوئے بدمعاش ہی کیوں بیٹھتے ہیں؟ میرے محترم قارئین، اب تو آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ قائداعظم برطانوی پارلیمانی نظام کو پاکستان کے لئے کیوں غیر موزوں سمجھتے تھے۔ یہ نظام ہی ایسے لوگوں کو آگے لاتا ہے۔ چند جائز ووٹ اور لاکھوں ناجائز ووٹوں کی مدد سے یہ لوگ نام نہاد عوامی نمائندے بن جاتے ہیں۔ پھر وزارتیں سنبھال کر لُوٹ مار شروع کر دیتے ہیں۔ یہ نظام انھیں SUIT کرتا ہے۔ یہ لوگ کبھی اِس نظام کو نہیں بدلیں گے۔ اِس کے لئے عوام کو انقلاب برپا کرنا پڑے گا۔ کیا وجہ ہے پاکستان میں بھی بظاہر برطانوی پارلیمانی نظام ہی نافذ ہے لیکن یہاں کا وزیرِاعظم وُہ کچھ کر سکتا ہے جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ اِسی بات کو سمجھنے اور قوم کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ نظام کی مثال بارش کی ہے جو کہیں تو پھُول اگاتی ہے اور کہیں اور ہی گُل کھلاتی ہے یعنی کانٹے دار فضول اور بعض اوقات زہریلی جھاڑیاں اگاتی ہے جنھیں جانور بھی مُنہ نہیں لگاتے۔ انگلینڈ کے عوام نے تین چار سو سال جمہوریت کے لئے جدو جُہد کی ہے۔ لوگ پڑھے لکھّے ہیں ، سیاسی شعور رکھتے ہیں، ذہنی طور پر آزاد ہیں اور خوشحال ہیں۔ ہمارے ہاں صورتِ حال بہت حد تک مختلف ہے۔ اِس صورتِ حال میں برطانوی پارلیمانی سسٹم ہمارے ہاں کیسے کامیاب ہو سکتا ہے ؟ غور فرمائیے۔ کرپشن کے خلاف جنگ اپنی جگہ ، لیکن اصل جنگ اُس نظام کے خلاف ہونی چاہیے جو کرپٹ لوگوں کو آگے لاتا ہے اور کرپشن کو جنم دیتا ہے۔ یہ نظام ہے برطانوی پارلیمانی نظام۔ کیا وجہ ہے کہ یہ نظام برطانیہ میں کامیاب ہے اور ہمارے ہاں نہ صرف ناکام بلکہ تباہ کُن ہے؟ وُہ جو تیس ہزار ارب روپوں کے قرضوں اور کرپشن کی بات ہوتی ہے تو یہ سب کچھ اِسی نظام کا نتیجہ ہے۔ ہمارے اور برطانوی حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جو چیز ان کے لئے مفید ہے وُہ ہمارے حق میں زہرِ قاتل ہے۔ وُہ 300 سال کی جدوجہد کے بعد اِس نظام تک پہنچے ہیں۔ وہاں عوام 100 فیصد پڑھے لکھے ہیں۔ وُہ قانون اور روایات کا احترام کرتے ہیں۔ یہاں صورت حال اِس کے برعکس ہے۔ برطانیہ کا وزیراعظم ملازمت دینا تو دُور کی بات ، کسی اہل کار کی ٹرانسفر تک نہیں کروا سکتا۔ وہ کسی کو پانچ مرلے کا پلاٹ تک نہیں دے سکتا۔ اُس کے سرکاری گھر میں چار بیڈ روم ہیں اور وُہ پانچواں بیڈ روم تعمیر نہیں کر و ا سکتا۔ وُہ اپنی سکیورٹی پر لاکھوں تو کیا ہزاروں پونڈ بھی خرچ نہیں کرسکتا۔ وُہ بطور وزیراعظم نالائق، نا اہل اور مسلمہ کرپٹ لوگوں کو بڑی بڑی تنخواہوں پر بڑے بڑے عہدے نہیں دے سکتا۔ وُہ جب تک وزیر اعظم رہتا ہے، کاروبار کر سکتا ہے نہ ذاتی اثاثوں میں اضافہ کر سکتا ہے۔ وُہ غیر ملکی دوروں پر اپنے ساتھ مختلف قسم کے افراد کی فوج ظفر موج نہیں لے جا سکتا۔ جن میں باورچی ، بھانڈ، سنگر، بچوں سمیت خاندان کے افراد، دوست اور " دوستیاں" سب شامل ہوں۔ وُہ پیپر میرج کی طرز پر پیپر کمپنیاں بنا کر اپنے وفاداروں کو بیس لاکھ پونڈ تنخواہ پر تعینات نہیں کر سکتا۔ کروڑوں پونڈ کی جائیداد نہیں خرید سکتا۔ وُہ نہ خود جھوٹ بول سکتا ہے اور نہ جھوٹ بولنے کے لئے کسی کو اپنا یا اپنی سیاسی پارٹی کا ترجمان بنا سکتا ہے۔ وہ چھٹے ہوے بدمعاشوں کو وزارتیں نہیں دے سکتا۔ وُہ پُر امن مردوں اور عبادت ( سروس) میں مصروف خواتین کو سیدھی گولیوں سے بھوننے کا حکم نہیں دے سکتا۔ وُہ بیوروکریسی میں اپنے وفادار افسروں کا ٹولہ نہیں بنا سکتا۔ بہتر افسروں کو کھڈّے لائین نہیں لگا سکتا۔ وُہ کسی پولیس افسر یا سول جج سے بھی براہ راست بات نہیں کر سکتا ۔