نیب آرڈی ننس میں کچھ چیزیں بلاشبہ ایسی ہیں جن کا دفاع ممکن نہیں لیکن نیب کے حوالے سے جو موقف اسلامی نظریاتی کونسل نے جاری فرمایا ہے اس کا دفاع بھی کوئی آسان کام نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی پریس ریلیز میرے سامنے رکھی ہے اور میں ایک طالب علم کے طور پر سراپا حیرت ہوں ۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے فرمایا ہے:’’ نیب کی طرف سے ملزموں کو ہتھ کڑیاں پہنانا پاکستانی قانون اور اسلامی شریعت کی خلاف ورزی ہے۔علاوہ ازیں جرم ثابت ہونے سے پہلے ملزم کی میڈیا میں ہتک عزت اسلام میں تکریم انسانیت کے اساسی اقدار کے منافی اقدام ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نیب اس قسم کے اقدامات سے باز رہے‘‘۔ آئین کے آرٹیکل 230 کے تحت ا سلامی نظریاتی کونسل کا یہ استحقاق ہے وہ ملکی قوانین کا جائزہ لے اور بتائے کوئی قانون اسلام سے متصادم تو نہیںلیکن اس کا یہ استحقاق ہر گز نہیں ہے کہ وہ نیب کو براہ راست ہدایات جاری کرنے لگے۔نیب کو کسی کام سے باز رہنے کی ہدایت جاری کرنے کا اختیار نظریاتی کونسل نے کہاں سے لے لیا میں بطور طالب علم یہ جاننا چاہوں گا۔نظریاتی کونسل ایک مشاورتی ادارہ ہے۔وہ پارلیمان کو تجویز تو دے سکتا ہے لیکن براہ راست کسی ادارے کو ہدایت نہیں دے سکتا۔ معلوم نہیںا س نے یہ تجاوز کیوں کیا لیکن آپ ہی بتائیے کیا اسے آئندہ ایسی حرکت سے باز نہیں رہنا چاہیے؟ کونسل نے نیب کے قانون پر رائے دینا ہی تھیتو کیا مناسب نہ ہوتا وہ پورے قانون کا جائزہ لیتی اور بتاتی اس میں کیا کچھ اسلامی شریعت سے متصادم ہے؟ اس نے پورے قانون کا جائزہ کیوں نہیں لیا ؟ اس کی حساسیت صرف ہتھ کڑی اور ملزم کی میڈیا میں ہتک عزت تک کیوں محدود ہے؟ کیا اس لیے کہ یہ دو مسائل اس وقت شریف اور زرداری خاندان کی ترجیحات میں سر فہرست ہیں؟کونسل آئینی مینڈیٹ کے تحت کام کر رہی ہے یا اس کا کام صرف دو شاہی خاندانوں کی فکری کفالت ہے؟ اگر کونسل نے پورے قانون کا جائزہ لینے کے بعد یہ رائے دی ہے اور اس کے پیش نظر شریف اور بھٹو خاندان کی مبینہ مظلومیت کو شرعی عنوان دینا نہیں تھا تو سوال یہ ہے کیا باقی سارا قانون اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق ہے؟ نیب آرڈی ننس کے مطابق نیب کے ملزم کو ضمانت پر رہا نہیں کیا جا سکتا۔ اسفند یار ولی کیس میں سپریم کورٹ اس قانون کے خلاف اپنی رائے دے چکی ہے لیکن آج تک ملزم کو ضمانت کا حق نہیں ہے۔ عدالتیںآج بھی آ رٹیکل 199 کے تحت آئینی پیٹیشن میں ایک متبادل راستے کے ذریعے یہ حق دے رہی ہیں ۔ کونسل کے اکابرین رہنمائی فرمائیں گے کیا ملزم کو ضمانت کے حق سے محروم کر دینا اسلام کی روشنی میں ایک جائز قانون ہے؟کوئی عام ملزم ہو تو ریفرنس کے ساتھ ہی گرفتار ہو جاتا ہے اور کسی کو نواز شریف کی طرح پورے مقدمے کے دوران گرفتار نہیں کیا جاتا، یہ تفریق کیا اسلام کی روشنی میں جائز ہے؟ کیا پلی بارگین اسلام کے روشن اصولوں کے عین مطابق ہے؟ کیا چیئر مین نیب کے لا محدود اختیارات عین شریعت کے مطابق ہیں؟ مان لیا نیب کی جانب سے ملزم کو ہتھ کڑیاں پہنانا پاکستانی قانون اور اسلامی شریعت کی خلاف ورزی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جو ہتھ کڑیاں نیب کی بجائے پولیس پہناتی ہے کیا وہ پاکستانی قانون اور اسلامی شریعت کے عین مطابق ہوتی ہیں؟ یہ کیسی منطق ہے کہ تعزیرات پاکستان کے تحت پولیس جو ہتھ کڑیاں پہنا دے ان سے معزز ممبران کونسل کو کوئی مسئلہ نہیں لیکن جو ہتھ کڑیاں نیب پہناتی ہے وہ شریعت کی خلاف ورزی ہے؟ ہتھ کڑی کے خلاف رائے دینا ہی تھی تو یہ رائے عمومی ہونی چاہیے تھی کہ کسی ملزم کو ہتھ کڑی نہ پہنائی جائے۔ نظریاتی کونسل کے اراکین صرف نیب کے ملزمان کے لیے اتنے پریشان کیوں ہیں؟ خدا خیر کرے ، معاملہ کیا ہے؟ کہا گیا’’ ملزم کی میڈیا میں ہتک عزت اسلام میں تکریم انسانیت کے اساسی اقدار کے خلاف ہے‘‘۔ نیب کے ہزاروں ملزمان ہوں گے۔ میڈیا پر بالعموم اہم ملزمان کا تذکرہ ہوتا ہے۔ گویا جن کی ہتک عزت میڈیا میں نہ آئے، جو شاہی خاندانوں اور ان کے کارندوں کی نایاب نسل سے تعلق نہ رکھتے ہوں، ان کی توہین اسلامی اقدار کے خلاف نہیں ہے۔ کیا میڈیا کی شرط بتا نہیں رہی کہ کونسل کچھ مخصوص لوگوں کے لیے پریشان ہے۔ورنہ اسلام کے اصولوں سے اس کا بھی اتنا ہی واسطہ ہے جتنا نیب کی ہتھ کڑی کا؟ آپ غور فرمائیں تو معلوم ہو گا کونسل نے جس چیز کو قانون سمجھ کر موضوع بنایا ہے وہ قانون ہے ہی نہیں ۔ وہ قانون پر عمل پیرا ہونے کا ایک پروسیجر ہے جس پر کونسل نے بات کی ہے۔ ہتھ کڑی لگانا یا میڈیا کو خبر دینا کہ فلاں آدمی پکڑا گیا ہے یہ قانون کی کوئی دفعہ نہیں بلکہ ایک طریق کار سے متعلق چیز ہے۔یہ طر یقہ کار صرف نیب نے اختیار نہیں کر رکھا۔دیگر قوانین کے تحت پولیس بھی ایسا ہی کرتی ہے۔ پھر کونسل نے بطور خاص نیب سے کیوں کہا کہ ’’ نیب اس قسم کے اقدامات سے باز رہے‘‘۔ کیا صرف نیب باز رہے باقیوں کو اجازت ہے؟نیب پر اس شفقت کی وجہ کیا یہ ہے کہ کچھ بڑے لوگ نیب کے شکنجے میں آ چکے یا آنے والے ہیں اس لیے نظریاتی کونسل کا جذبہ انسانیت صرف نیب کی حد تک جاگا؟ ایسا نہیں ہوا کہ چند ماہ پہلے عمران خان نے آ کر نیب بنائی ہو اور کونسل کے اکابرین کو ابھی پچھلے ہفتے معلوم ہوا ہو کہ نیب تو بڑے غیر اسلامی کام کر رہی ہے۔نیب کو قائم ہوئے 20 سال ہو گئے۔ان بیس سالوں میں اسلامی نظریاتی کونسل کو کبھی یاد نہیں آیا کہ نیب کیا کر رہی ہے ۔اب جب کچھ اہم شخصیات نیب کے شکنجے میں آئیں تو نظریاتی کونسل اپنے نظریات سمیت متحرک اور فعال ہو گئی۔بیس سال تک یہ سب کچھ عین اسلامی تھا ۔نواز شریف ہی کے دور میں چیئر مین بننے والے ڈاکٹر قبلہ ایاز کچھ رہنمائی فرمائیں گے معاملہ کیا ہے؟ جیلوں میں ستر فیصد قیدی وہ ہیں جن کے مقدموں کا ابھی فیصلہ بھی نہیں ہوا، پانچ ہزار قیدی ایسے ہیں جن کے مقدمات ابھی شروع ہی نہیں ہوئے ، لوگ بیس بیس سال جیلوں میں رہنے کے بعد جب با عزت بری ہو تے ہیں تو سب کچھ تباہ و برباد کروا چکے ہوتے ہیں۔کونسل کچھ ان کے زر تلافی کی بات کرتی۔ لیکن وہ پریشان ہے کہ نیب کچھ لوگوں کو ہتھ کڑی نہ لگائے اور میڈیا پر ان کی ہتک عزت نہ ہو ۔ افسوس ہمارے فکری زعماء بھی اشرافیہ اور بالادست طبقے کے میمنہ میسرہ پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ فراق گورکھپوری نے کہا تھا : رُخسار، تہہ نقاب جگمگ جگمگ۔