امت کا زوال جو گذشتہ پانچ صدیوں سے جاری ہے اور جس تیزی سے یہ زوال خلافت عثمانیہ کے خاتمے اور مسلم سرزمین پر عالمی طاقتوں کے قبضے کے بعد آیا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ اس پستی کا آغاز دراصل اس وقت سے شروع ہوگیا تھا جب اس امت نے تجدید و احیائے دین سے کنارہ کشی احتیار کی اور تقلیدِ جامد کی مسند پر بیٹھ گئے۔ پھر اسکے بعد یہ ہوا کہ اگلے کئی سو سال تک ہماری ہاں صرف فروعی معاملات پر بحثیں ہوتی رہیں اور یوں'' فکر'' جو مسلم امہ کی پہچان تھی، اس کی جگہ ’’فقہ‘‘نے لے لی۔ اسلامی فکر مسلمانوں کو طاغوت سے لڑنے کا درس دیتی تھی، دنیا پر اللہ کے نظام کو غالب کرنے کی تڑپ پیدا کرتی تھی،جبکہ فقہ میں جو کبھی خود بھی فکر کی تابع تھی، اب اس میں زیادہ تر سوالات و جوابات ایسے موضوعات کے گرد گھومنے لگے جو انفرادی زندگی سے متعلق تھے۔ لیکن سب سے اہم ترین تبدیلی جو اس زوال کے عرصے میں آئی وہ یہ تھی یہ کہ مسلم علماء یہ سوچنے لگے کہ اسوقت ہمیں جو حالات میسر ہیں، ہم پر عالمی طاقتیں حکمران ہیں، انہوں نے اپنے قوانین ہم پر نافذ کر دیئے ہیں، مسلمان دنیا بھر میں مغلوب ہو چکے ہیں، تمام کا تمام نظام کفر پر مبنی ہے، ایسے حالات میں ایک عام آدمی جو صرف ایک مجبورِ محض ہو کر زندگی گزار رہا ہے، وہ حرام سے کیسے بچ سکتا ہے، کس طرح اس کفریہ نظام میں زندہ رہتے ہوئے وہ اپنی آخرت کا تحفظ کر سکتا ہے۔ یہی وہ سوال تھا جس نے جدید اسلامی فقہ میں دو راستوں کا تصور راسخ کردیا۔ ایک ''عزیمت'' یعنی جان و مال کی پروا کیے بغیر حق کے راستے پر ڈٹ جانا اور کسی بھی قسم کا سمجھوتا نہ کرنا، اور دوسرا تصور ''رخصت'' جس کا اصل مطلب یہ ہے کہ اصل کو تخفیف و تسہیل میں تبدیل کرنا۔ اس رخصت کا ماخذ بھی قرآن و سنت ہوتا ہے اور اس سے عام آدمی کے لیے دین کے راستے پر چلنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ مسلسل غلامی، کاٹ کھانے والی ملوکیت اور طاغوت کے نافذ کردہ نظام کے چیئرمین ،مسلمانوں میں یہ رویّہ سرایت کرتا گیا کہ دین کے معاملے زیادہ سے زیادہ ''رخصت'' کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ اس بات کا ردعمل تھا کہ اب لوگوں نے ''دنیا'' کے حصول کے لیے ''عزیمت'' کا راستہ اختیار کرلیا تھا۔ لوگوں کی زندگیوں میں کامیابیوں کا معیار صرف دنیاوی ترقی ہو کر رہ گیا تھا۔ کاروبار میں کتنی وسعت ہو گی، بچے تعلیمی، مالی اور پیشہ ورانہ معاملات میں کیا مقام حاصل کرتے ہیں یا پھر، اقتدار کے حصول میں سب سے بڑی منزل کب ملتی ہے۔ جب مسلمانوں کا مقصدِ زندگی دنیا کا حصول ہو کر رہ گیا تو پھر اس دنیا کے حصول کے لیے انہوں نے ''عزیمت'' کی ہر راہ اختیار کی۔ قرض در قرض لے کر کاروبار کیا، جائیدادیں بیچ کر سیاست کی، صحت کی پروا کیے بغیر محنت کی، اولاد کو اعلی تعلیم دلوائی، قید کاٹی، کوڑے کھائے لیکن جمہوریت اور سیاسی پارٹی کا ساتھ نہ چھوڑا اور بالآخر وزارت، وزارت عظمی یا صدارت حاصل کرلی۔ دنیا کے حصول کا معاملہ یہ ہے کہ آدمی کبھی اس کے لیے ''رخصت'' کا قائل نہیں ہوتا۔ ہر کوئی مقصد کے حصول کیلئے دن رات کی شدید محنت کرنے کا قائل ہے، بڑے سے بڑا پتھر اٹھانے اور بڑی سے بڑی قوت سے ٹکرانے کا عزم و ارادہ رکھتاہے۔ آپ کسی دنیا کی طلب میں دیوانے شخص سے کہو کہ تمہاری ایک دکان ہے، گزارہ خوب چلتا ہے کافی عیش و آرام میں ہو، آپ مزید کی ہوس میں مت پڑو،یعنی دنیا کی طلب میں ''عزیمت'' مت دکھاو ''رخصت'' کی زندگی گزاردو تو پہلی بات تو یہ کہ وہ مانے گا ہی نہیں اور اگر وہ مان بھی جائے تو یار دوست اسے بے وقوف، نکما، نکٹھو، اور پست ہمت جیسے طعنے مار کر ادھ موا کردیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلم امہ کی اکثریت جو باطل کے طاغوتی نظام کی اسیر اور زیرنگیں ہے اور اسی نظام کے تحت دنیا میں ترقی کے خواب دیکھتی ہے۔ ایسی زندگی میں اپنے آپکو مطمئن کرنے کیلئے دین کے معاملے میں وہ ''رخصت'' یعنی سہولت اور آسانی کی طلبگار ہوتی ہے۔ اس سہولت کا راستہ بھی عموما دو موضوعات پر اختیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایک معیشت کے بارے میں، یعنی ''سودی نظام''، کاروباری تقاضوں اور ملازمت کی مجبوریوں میں کیسے اس نظام کے اندر رہ کر زیادہ سے زیادہ گناہ سے بچا جاسکتا ہے اور دوسرا رہن سہن اور خوراک کے معاملہ میں، یعنی پردہ کتناہے، کہاں تک کم ہوسکتا ہے، کھانے میں حلال وحرام کی احتیاط کہاں تک ممکن ہے، اسراف اور فضول خرچی کیا ہے، وغیرہ وغیرہ آج کے دور میں مفتیان کرام اور فقہائِ عظام جس ''رخصت'' کی جانب متوجہ ہیں وہ اسلام کا معاشی نظام ہے جس کے بارے میں انکا تصور یہ ہے کہ موجودہ عالمی سودی مالیاتی نظام کے بینکاری کے شعبے کو اگر کسی طرح نچلی سطح پر سود سے پاک کر دیا جائے تو یہ اتنی بڑی خدمت اور ''رخصت ''ہوگی کہ لوگ اس عالمی مالیاتی سودی نظام کے اندر رہ کر بھی کم سے کم حرام اور زیادہ سے زیادہ حلال رزق کما رہے ہوں گے۔ یہیں سے پوری دنیا میں اسلامی بینکاری اور اسلامی انشورنس کمپنیوں کا راستہ کھولا گیاہے۔ یوں جدید بینکاری نظام کو مشرف بہ اسلام کرنے کے لیے ایک اہم ترین فکری بنیاد فراہم کی گئی ہے۔ جدید اسلامی بینکاری کے مفکرین ایک اصول بتاتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے اپنے دور کے مروجہ عالمی مالیاتی نظام کو بالکل نہیں چھیڑا تھا، بلکہ رومن سکے یعنی کرنسی ویسے ہی چلتی رہی تھی، ویسے ہی کاروبار میں مشارکہ اور مضاربہ اور بیع ہوتی رہی۔ البتہ رسولﷺ نے اس وقت کے مروجہ عالمی مالیاتی نظام کی تطہیر کرتے ہوئے اس میں کچھ تبدیلیاں فرما دیں جیسے سود اور جوئے کو حرام قرار دے دیا۔ اسی طرح آج چونکہ بینک کا مفید ادارہ اور بہت سے لاتعداد کام بھی سرانجام دیتاہے اوریہ ایک کثیر المقاصد ادارہ ہے اس لیے اگر اس کے لین دین سے سود کو مقدور حد تک کم کر دیا جائے تو یہ بینک ایک حلال ادارہ بن جائے گا ۔ لگتا ہے خلوص نیت کے ساتھ عام مسلمانوں کو سہولت فراہم کرنے اور ''رخصت'' دینے کے معاملے میں یہ تدبیر دراصل علمائے کرام کی سادہ لوحی اور جدید مالیاتی نظام سے وابستہ خوش فہمی سے پیدا ہوئی ہے ۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا آج کا عالمی سودی مالیاتی نظام جو جنگ عظیم دوم کے بعد بریٹن ووڈز معاہدے کے بعد وجود میں آیا ہے اور جس کی بنیاد دراصل کاغذ کی وہ جعلی کرنسی ہے جو بذات خود اپنے اندر کوئی مالیت نہیں رکھتی۔ دنیا بھر کے نوٹوں کو ان پر لکھی ہوئی جعلی قیمتوں سے علیحدہ کر کے اگر بازار میں بیچا جائے تو ساری دنیا کے ملکوں کے سارے نوٹ ردّی کے بھائو بھی کوئی نہ خریدے۔ اس جعلی کرنسی کی بنیاد پر دنیا میں کرنسی کی قیمتوں میں فرق (Exchange Rate)کا دھندہ چلتا ہے اور جس جعلی کرنسی کی بنیاد پر سود کا سب سے بڑا اور معتبر جوازیہ دیا جاتا ہے فرض کرو کہ 1970 ء میں جو ایک لاکھ روپے کی قدر و قیمت تھی ،آج 2020 ء میں تو وہ ایک ہزار کے برابر رہ گئی ہے۔ ایسے میں قرض دینے والے کیلئے قیمت میں فرق کے برابر سود لینے کا مکمل جواز موجود ہے۔ کیونکہ مقروض اسے اصل میں ایک لاکھ نہیں ایک ہزار ادا کر رہا ہوتا ہے ۔ کیا ایسا ہی عالمی مالیاتی سودی نظام اگر رسول اکرم ؐکے زمانے میں دنیا پر نافذ ہوتا تو ایسی صورت میں سید الانبیاء ﷺ اس نظام کو جاری رکھتے اور اس میں صرف چند تبدیلیاں ہی کرتے۔ اس سوال کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ اسلام اس نظام میں تبدیلی نہیں، اسے جڑ سے اکھاڑنے کی ترغیب دیتا ہے (جاری ہے)